ایسے مسئلوں کا پرامن حل اسی وقت نکل سکتا ہے جب ہم مسلمانوں کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
نئی دہلی : سردار پٹیل کا نام مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ لیا جاتا ہے۔حالاں کہ وہ ایک متنازعہ شخصیت ہیں ۔ان کے خیالات کی سخت تنقید بھی کی جاتی ہے ،اس کے باوجود ا ن کے یہاں اس طرح کی باتیں مل جاتی ہیں کہ ؛ ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان رہتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے کہ یہ مسلمان آزاد اور محفوظ ہیں۔’انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ؛میں سمجھتا ہو ں کہ ہندوستان کو ایسی ہندو ریاست بنانا ممکن نہیں ہے جس کا مذہب ہندوازم ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں دیگر اقلیتیں بھی رہتی ہیں جن کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘
اسی طرح جب کچھ ہندو شر پسند عناصرنے درگاہ حضرت نظام الدین اولیا پر قبضہ کر لیا تھا تو پٹیل آدھی رات کو دوڑ کر وہاں پہنچے تھے اور جاتے ہوئے کہا تھا؛قبل اس کے کہ یہ ولی اللہ ناراض ہوجائیں ہمیں ان کی خدمت میں پہونچ جانا چاہیے۔’وہاں وہ ایک گھنٹے تک رہے اور درگاہ کا طواف کیااور امن وامن بحال رکھنے کے لیے پولیس افسروں کو تاکید کی۔
ایودھیا تنازعہ پر بھی ان کے خیالات متوجہ کرتے ہیں۔بقول رفیق زکریا اس تنازعے کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب 1949میں مسجد کے اندر رام کی مورتی رکھ دی گئی تھی ۔اس وقت ولبھ بھائی پنت اتر پردیش کے وزیراعلیٰ تھے ۔سردار پٹیل اس معاملے کی وجہ سے بہت متفکر تھے انھیں اندیشہ تھا کہ یہ تنازعہ کہیں بد نما رخ نہ اختیار رکھ لے۔’اس لیے انہوں نے بلبھ بھائی پنت کو خط لکھا ،اس خط کی اہمیت تاریخی ہے۔ہم اپنے قارئین کے لیے اس خط یہاں رفیق زکریا صاحب کی کتاب’سردارپٹیل اور ہندوستانی مسلمان ‘کے شکریے کے ساتھ نقل کر رہے ہیں۔
مائی ڈیر پنت جی
ایودھیا کے واقعات پر وزیر اعظم نے اس سے قبل ایک خط لکھا ہے جس میں ایودھیا کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔میں نے بھی اس موضوع پر آپ سے لکھنؤ میں گفتگو کی تھی ۔میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے مفاد کے اعتبار سے بھی اور آپ کی ریاست کے اعتبار سے بھی اس تنازعے کو غلط وقت پر اٹھایا گیا ہے۔
مختلف فرقوں کے تنازعوں کو ایک وسیع پس منظر میں حال ہی میں سلجھایا گیا تھا ۔اس حل سے اقلیتیں بھی مطمئن تھیں ۔جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ ابھی اپنی نئی وفاداریاں استوار کر رہے ہیں ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ملک کے بٹوارے کے اولین صدمے سے سنبھل رہے تھے اور غیر یقینی صورت حال سے باہر آرہے تھے۔ یو پی میں میں نہیں سمجھتا کہ یہ وفاداریاں دوبارہ بدل سکتی ہیں ۔آپ کے صوبے یوپی میں بھی فرقہ وارانہ تنازعہ ہمیشہ ایک مشکل مسئلہ رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کے حسن انتظام کا کمال ہے کہ تمام دشواریوں کے باوجود مختلف فرقوں کے درمیان 1946کے بعد سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں ۔ہمیں بھی اتر پردیش میں گروپ بندیوں کی وجہ سے تنظیمی اور انتظامی سطح پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اگر ان حالات سے کوئی گروپ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہوگی ۔
ان تمام حالات کی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ اس تنازعے کو دوستانہ ماحول میں دونوں فرقوں میں باہمی رواداری اور جذبہ خیر شگالی کے ساتھ حل کرنا چاہیے۔میں جانتا ہوں کہ جوا قدام کیا گئے ہیں اس کے محرک گہرے جذبات ہیں ۔لیکن ایسے مسئلوں کا پرامن حل اسی وقت نکل سکتا ہے جب ہم مسلمانوں کی رضامندی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔طاقت کے ذریعے ایسے مسائل حل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایسی صورت میں امن و قانوں کی بحالی کے لیے حکومت اپنی پوری طاقت کا استعمال کرے گی ۔اس لیے اگر پرامن اور مصالحانہ انداز میں مسائل کو حل کرنا ہے تو طاقت کے ذریعے جارحانہ اقدامات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔اس لیے مجھے مکمل یقین ہے کہ اس مسئلے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے ،اور موجودہ بے وقت کے تنازعوں کو پرامن طریقے سے حل کر نا چاہیے ۔بعض معاملات کے ‘طے شدہ’ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن اس بات کو بھی پرامن حل کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔
مجھے امید ہے کہ اس معاملے میں آپ کی کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں گی ۔
آپ کا مخلص
ولبھ بھائی پٹیل
Categories: فکر و نظر