اب تو سی بی آئی بھی ریڈ ڈالنے کے بعد پوچھتی ہے؛’بتا کیس درج کریں یا بی جے پی جوائن کروگے؟‘
غالبؔ کا ایک شعر ہے، درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ عوام جب دیکھتی ہے کہ اس کے دکھ کی پرواہ کسی کو نہیں ہے،تو وہ اپنےدکھ سے متعلق تمام چیزوں کو انٹرٹین منٹ میں بدل دیتی ہے۔ ایسا ہٹلر کے زمانے میں بھی ہوا ہے اور لگ بھگ ہر تاناشاہ کے زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ہٹلر سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لئے جرمنی کے لوگ اس کی تصویر والی ڈاک ٹکٹ پر پیچھے سے تھوک لگانےکے بجائے آگے سے تھوک لگاکر لفافے پر چپکانے لگے تھے۔
ملک کی بد حالی کو لےکر اپنی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد بھی میں یہ کہنے کا خطرہ نہیں اٹھانا چاہتا کہ ہمارے وزیر اعظم بھی ہٹلر کی طرح تاناشاہ ہیں۔ خودہی اپنا سر دیوار پر کیوں ماروں، جبکہ دیکھ رہا ہوں کہ اقتدارکی تنقید کی وجہ سے گوری لنکیش، کلبرگی، پنسارے اور دابھولکر کا قتل کر دیا جا رہا ہے!
ابھی جب سکھ رام اور مکل رائے نے بی جے پی جوائن کیا، تو ڈھیر سارے چٹکلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے،جیسے کہ اب تو سی بی آئی بھی ریڈ ڈالنے کے بعد پوچھتی ہے؛’بتا کیس درج کریں یا بی جے پی جوائن کروگے؟‘ اسی طرح ایک اور لطیفہ چل رہا ہے کہ مکل رائے کے بی جے پی میں آنے کے بعد شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ اب دین دیال مالیاتی اسکیم کے نام سے جانا جائےگا۔
گزشتہ دنوں راجستھان کےنوجوان اسٹینڈاپ کامیڈین شیام رنگیلا کو کچھ ایسے ہی حکومت مخالف چٹکلوں کی وجہ سے اسٹار پلس کے ایک شو سے باہر ہونا پڑا۔ لیکن تمام سینسرشپ کے بادجود عوام مانتی کہاں ہے؟ ممبئی کے دی بینڈ نام کے گروپ نے شمی کپور پر فلمایاگیا مشہور نغمہ ؛’بار بار دیکھو ہزار بار دیکھو‘(فلم،چائناٹاؤن،موسیقی،روی،آواز،محمدرفیع)کی پیروڈی پر ایک حکومت مخالف نغمہ تیار کر ڈالا، جو کافی مقبول ہو رہا ہے۔ اس نغمہ میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہندی کے مقبول عام شاعر ویرین ڈنگوال کی ایک نظم ہے،’آئیںگے اجلے دن ضرور آئیںگے‘۔ اسی طرز پر بی جے پی نے 2013 کے لوک سبھا انتخاب میں اچھے دن کا نعرہ دیااوروزیر اعظم نےاپنے لگ بھگ تمام جلسوں میں لوگوں سے کہا کہ ملک کا جتنا کالا دھن غیر ملکی بینکوں میں جمع ہے، وہ اگر واپس آ جائے تو ہر شہری کو پندرہ پندرہ لاکھ روپے ملیںگے۔ بھاری اکثریت سے بی جے پی کی جیتکے بعد جب لوگوں نے بار بار کالےدھن کی واپسی اور پندرہ لاکھ کے خوابوں کی یاد دلانے لگے،تو بی جے پی صدر امت شاہ نے کہہ دیا کہ وہ جملہ تھا۔ اس جملہ پر پھر کئی چٹکلے بنے۔ میری فلم ’انارکلی آف آرا ‘میں تو ڈاکٹر ساگر نے ایک خوبصورت نغمہ لکھا، جس میں لفظ ’ جملہ‘مہین سیاسی اشارے کی صورت میں آیا ہے۔
اتفاق سے ایک پرانا فلمی نغمہ بھی ان دنوں سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے، جس میں ایک ناٹک کے دوران لڑکیاں گاتی ہیں، اچھے دن آ رہے ہیں۔ فلم میں یہ ایک طنز ہے اور کمال کی بات ہے کہ یہ فلم آج سے 65 سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔ اس وقت کانگریس کی حکومت تھی۔ فلم کا نام تھا مسٹر سمپت۔ ہدایت کار تھے ایس ایس واسن۔ اس نغمہ کو اپنی آواز دی تھی شمشاد بیگم نے۔
آئین میں اظہار کی آزادی کو بڑی فراخدلی سے اجازت دی گئی ہے، لیکن لگ بھگ تمام حکومتیں اس معاملے میں فراخدل نہیں رہی ہیں۔ موجودہ حکومت تو کچھ زیادہ ہی سخت ہے۔ مین اسٹریم میڈیا حکومت کے منشور کی طرح برتاؤ کرنے لگا ہے۔ کچھ آزاد ویب سائٹ جرٲت کے ساتھ اپنے وقت کا سچ لکھ رہی ہے، تو اس پر بھی حکومت کی نظریں چوکنّی ہیں۔ کبھی بھی ان پر تلوار لٹک سکتی ہے۔لیکن لوگوں کی زبان اور ان کے ہاتھوں میں آ گئے سوشل میڈیا کے ہتھیار کو کیسے قابو میں کیا جا سکتا ہے؟
We surely need more humour in public life. https://t.co/AKo0WN6KzC
— Narendra Modi (@narendramodi) March 17, 2017
یہ مشکل ہے اور جب اس کا بھی کوئی نہ کوئی حل حکومت نکال لےگی، تو پھر چٹکلا اور تفریح ہی بچےگا جو حکومت مخالف شکل اختیار کر لےگی۔اس لئے جمہوریت زندآباد اور جمہوریت میں ہیومر بھی زندآباد۔