فکر و نظر

کیاہندوستانیوں کوشوریہ ڈوبھال کی طرح پاکستانیوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی جائےگی؟

مودی حکومت کے وزراءکو جونیئر ڈوبھال سے سبق لیکر پاکستان اور پاکستانیوں کے تئیں نفرت کے بازارکو بند کر دینا چاہئے۔

Core-Team-of-Geminini-Financial-Services

2015کے بہار اسمبلی انتخاب کے دوران امت شاہ نے کہا تھا کہ اگر بی جے پی کی شکست ہوئی تو پورے پاکستان میں جشن منایا جائے گا۔بی جے پی کے ہی ایک لیڈر گریراج سنگھ، جو اب مرکزی حکومت میں وزیر بھی ہیں ، نے کہاتھا ؛ وہ لوگ جو نریندر مودی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں، انہیں پاکستان بھیج دینا چاہئے۔بی جے پی کے ایک سینئر لیڈراور وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ وہ لوگ جو گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں،انہیں پاکستان یا کسی عرب ملک چلے جانا چاہئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے چین،جنوب مشرقی ایشیا یا کسی مغربی ملک کا نام نہیں لیا۔یہ جگہیں ایسی ہیں جہاں بیف کی کھپت ان مسلم ملکوں سے زیادہ ہے جن کا انہوں نے نام لیا۔وجہ جگ ظاہر ہے۔ بی جے پی کا نفرت کا جو ایجنڈہ ہے اس میں پاکستان کی خا صی اہمیت ہے۔کچھ عرصہ پہلے وی کے سنگھ (وزارت خارجہ کے جونیئر وزیر) نے پاکستان ہائی کمیشن کے ایک فنکشن میں میں شرکت کرنے کو لیکر اپنی ’نفرت ‘ کا اظہار کیا تھا۔

 26/11 کے بعد پابندیوں کاجو سلسلہ شروع ہواتھا، اسے ، مودی سرکار نے آگے بڑھاتے ہوے پاکستانی یا پاکستانی نژاد کسی تیسرے ملک کے شہری کو ویزا دینے میں مزید سختی کردی ہے۔زیادہ تر لوگوں کے لئے اب اپنے دوستوں اور فیملی ممبرز سے ملنے یا کاروبار کے سلسلے میں ہندوستان کا سفر کرناقریب قریب نا ممکن ہو گیا ہے۔

سال 2016 میں شیو سینا اور بی جے پی کے ٹرولس نے( بشمول ممبئی پارٹی صدر آشیش شیلر) کرن جوہر کی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ کے خلاف وا ویلا کھڑا کر دیا تھا۔ الزام یہ تھا کہ فلم کا ایک ادا کار پاکستانی ہے۔ مظاہرین بہت جلدی تشدد پر اتر آئے تھے۔لہذا کران جوہر کو مجبور ہو کر ایک بیان دینا پڑا جس میں انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کسی بھی پاکستانی اداکار کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا،”میرے لئے میرا ملک سب سے اوپر ہے۔۔۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوے ، میں پڑوسی ملک کے فن کاروں سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔۔۔۔میں فوج کی عزت کرتا ہوں۔“

 مگر اب ایک امید بندھی ہے۔ اب شاید ان ہندوستانیوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا جنکاکسی پاکستانی کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔کاروبار کے سلسلے میں یا پھر محض دوستی کی بنیاد پر۔ وہ اس لئے کہ عام آدمی پارٹی کے آشیش کھیتان نے ایک انکشاف کیا ہے کہ نیشنل سیکوریٹی اڈوائزراجیت ڈوبھال کے بیٹے کے بزنس پارٹنر ایک پاکستانی ہیں۔

Gemini Financial Services     ایک کمپنی ہے، جسے شوریہ ڈوبھال (نیشنل سیکوریٹی اڈوائزر اجیت ڈوبھال کے بیٹے) چلاتے ہیں ۔ اس کمپنی میں انکے پارٹنرز ہیں سید علی عباس اور شاہ زادہ مشال بن عبد اللہ بن ترکی بن عبدالعزیز سعود۔ ڈوبھال تھنک ٹینک India Foundation بھی چلاتے ہیں، جس میں چار مرکزی وزیر بحیثیت ڈائرکٹر اپنی خدمات انجا م دے رہے ہیں۔ان میں ملک کی وزیر دفاع نرملا سیتارمن بھی شامل ہیں۔انڈیا فاﺅنڈیشن کی بنیاد شوریہ ڈوبھال اور بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے مل کر رکھی تھی۔

دبئی میں مقیم عباس Gemini Corporate Finance, DIFC کے چیف ایکزیکیوٹو آفیسر ہیں۔وہ یونیورسٹی آف پینسیلوانیہ کے مشہور ’وارٹن اسکول‘ سے ایم بی اے ہیں۔ Zeus Capital کمپنی میں بھی عباس، ڈوبھال کے پارٹنر رہ چکے ہیں۔انہوں نے ABN Amro, Ernst & Young, Cargill and PWC میں بھی کام کیا ہوا ہے۔ وہ Global Blockchain Business Council کے بانی ممبر ہیں، جہاں انکی حیثیت پاکستان کے نمائندہ کے طور پرہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس انکی قومیت سے متعلق اور کو ئی معلوماتنہیں ہیں۔

وہ بی جے پی جو ہر پاکستانی کنکشن کو اینٹی نیشنلزم کے چشمے سے دیکھتی ہے، عباس اور ڈوبھال کی شراکت داری پر خاموش ہے۔اس کا دو ہی مطلب نکل سکتا ہے۔ یا تو پارٹی نے عقل دوست موقف اختیار کرلیا ہے اور دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، مثلا آپ کا کاروبار فلمیں بنانے سے متعلق ہو یا پیسہ کمانے سے، پاکستانیوں کے ساتھ کام کرنے میں اب کوئی حرج نہیں ہے۔ یا پھر اس نے شوریہ ڈوبھال کے PMO اور RSS سے کنکشن کو دیکھتے ہوے اپنے تعصبات کو دفن کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

(سواتی چتروید ی صحافی ہیں اور دلّی میں مقیم ہیں۔)