بی جے پی کی رگھوبر داس حکومت کے بڑے بول کے باوجود ریاست میں منریگا مزدوروں کو مقررہ وقت پر ادائیگی نہیں ۔
بی جے پی کی قیادت والی جھارکھنڈ حکومت نے ریاست کے عوام کو روزگار دینے سے متعلق اپنا کمٹ منٹ دکھانے کے لئے’ ہر ہاتھ کو کام ‘ کا نعرہ دیا ہے۔جھارکھنڈ میں اس نعرے کی خاص اہمیت ہے۔17-2016 کے اقتصادی سروے کے مطابق کام کرنے کے لئے دیگر ریاستوں میں ہجرت کرنے والے 64-15 سال کی عمر کے لوگوں کا تناسب 16-2015 میں جھارکھنڈ میں سب سے زیادہ تھا۔
جھارکھنڈ کی تینوں اہم سیاسی جماعتبی جے پی، کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ اسمبلی انتخابات میں بےروزگاری اور ہجرت کے مسئلوں کو اپنی ترجیح بتانے میں پیچھے نہیں رہتی ہیں۔2015-16 کے پانچویں سالانہ روزگاریبےروزگاری جائزے کے مطابق جھارکھنڈ میں بےروزگاری کی شرح 7.7 فیصد تھی،جبکہ ملک کی اوسط شرح 5.5 فیصدتھی۔ دیگر روزگاروں کے خاطر خواہ مواقع کے فقدان میں ریاست کے دیہی خاندانوں کے لئے مہاتما گاندھی راشٹریہ گرامین روزگار ایکٹ(منریگا) کے تحت 100 دنوں کی بےہنر مزدوری کا حق ہی واحد لائف لائن ہے۔
حالانکہ جھارکھنڈ میں منریگا پر کبھی اس ایکٹ کے اصل مقصد کےتحت عمل نہیں ہوا ہے، پھر بھی ریاست میں اس پروگرام کی کئی اہم کامیابیاں رہی ہیں۔ منریگا سے ریاست کی دیہی معیشت کو مستحکم کرنے والے کئی اثاثوں جیسےسڑک، تالاب، کنواں وغیرہ کی تعمیر ہوئی ہے۔ا س کے نفاذ کو بہتر بنانے کے لئے پچھلی حکومتوں کے ذریعے بھی کچھ پہل کی گئی تھیں۔ جیسےکام مانگو مہم، پائلٹ سوشل آڈٹ وغیرہ۔ لیکن مزدوروں کے حقوق، جن میں وقت پر کام اور وقت پر ادائیگی سب سے اہم ہیں، کی بڑے پیمانے پرپامالی عام بات رہی۔
2006 یعنی جب سے منریگا نافذ ہوا، تب سے 2014 کے درمیان جھارکھنڈ نے تینوں اہم جماعتوں کے مختلف اتحادوں سے بنی چھ حکومتیں دیکھی ہیں۔ پہلے کی حکومتوں نے بھی منریگا مزدوروں کے حقوق کے متعلق کچھ خاص کمٹ منٹ نہیں دکھائی تھی۔حالانکہ 2014 میں منتخب رگھوبرداس حکومت کی قیادت میں منریگا میں کچھ خاص پہل ہوئی ہیں۔ جیسے منصوبہ بناؤ مہم اور چھوٹے تالابوں کی تعمیر، لیکن ضرورت کےمطابق مناسب روزگار کی کمی اور لگاتار مزدوروں کو مقررہ وقت پر ادائیگی ملنے کے حقوق کی بڑے پیمانے پر ہو رہی خلاف ورزی حکومت کی مزدوروں کے متعلق اداسی کو دکھاتی ہے۔جھارکھنڈ میں منریگا روزگار کی سطح میں پچھلے تین سالوں میں بالترتیب 14-2013میں 436.22 لاکھ man days سے 17-2016 میں 707.59 لاکھ man days تک اضافہ تو ہوا ہے، لیکن نئے روزگار دیہی پریواروں کے کام کی ضرورت کے مقابلے میں اب بھی کافی کم ہے۔
2011 کی سماجی اقتصادی مردم شماری کے مطابق ریاست کے 50 فیصد سے بھی زیادہ دیہی پریواربےہنر مزدوری پر منحصر ہیں۔ لیکن17-2016 میں صرف 32 فیصد پریواروں کو ہی منریگا میں کچھ کام مل پایا۔ کام ملنے والے پریواروں کو14-2013 سے 17-2016 تک ہر سال اوسطاً 40 دن کا ہی کام ملا۔صرف 16-2015 میں اوسطاً 52دن کا کام ملا کیونکہ قحط سالی سے متاثر ریاست میں اس سال کام کے دنوں کو 150 دن فی خاندان کیا گیا تھا۔14-2013میں پورے 100 دنوں کے کام پانے والے پریواروں کا تناسب چھ فیصد سے گرکر17-2016 میں 2.13 فیصد پر آ گیا۔
یہ بھی بےحد تشویشناک ہے کہ آدیواسی اور دلت پریواروں (جو 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی تمام دیہی آبادی کا 44 فیصد تھی) کی منریگا روزگار میں شراکت داری14-2013 میں لگ بھگ 50 فیصد سے گھٹکر اس سال 38 فیصد ہو گئی۔یہ اعدادو شمار بی جے پی صدر امت شاہ کے گزشتہ جھارکھنڈ دورے کے وقت کئے ان دعووں کے بالکل برعکس ہیں، جہاں انہوں نے اپنی پارٹی کے آدیواسیوں کی ضروریات کے لئے پرعزم ہونے کی بات کہی تھی۔
منریگا کے تحت مزدوروں کو روزگار مانگنے کے 15دنوں کے اندر کام ملنے کا اہتمام ہے لیکن انتظامیہ ملازمین سے کام کی درخواست کی تاریخ کے مطابق رسید لینا اور مانگ پر اسکیموں کو شروع کروانا ریاست کے مزدوروں کے لئے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ریاست کی حکومت کے ذریعے گزشتہ دو سالوں میں جاری مختلف شعبہ جاتی احکام کام کے حقوق کے عمل پر زور تو دیتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر روزگار کی بھاری مانگ اب بھی پوری نہیں ہے، مانگکے مطابق کافی مقدار میں اسکیموں کو شروع کرنے میں بڑی تاخیرہوتی ہے۔
کام کی درخواست کی تاریخ وار رسید نہ ہونے کی وجہ سے دیری ہونے پر مزدور بےروزگاری بھتہ کے لئے بھی دعویٰ نہیں کر پاتے۔
جھارکھنڈ میں کام کے حقوق میں ایک نئی خلاف ورزی دکھ رہی ہے۔ ریاست کی حکومت کے ذریعے منریگا کے تحت کام کرنے والے پریوار کے بالغ ممبروں کے کے نام نریگا سافٹ نام کے ایک سافٹ ویئر میں شامل کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مرکزی دیہی ترقی وزارت کی ہدایت پر ریاستی حکومت کے ذریعے فرضی جاب کارڈ کو منسوخ کرنے کے لئے ‘ تصدیق نامہ’ مہم چلائی گئی، جس میں 17-2016 میں ابتک لگ بھگ 6 لاکھ جاب کارڈ منسوخ کر دئے گئے ہیں۔
لیکن مختلف بلاکوں سے اطلاع مل رہی ہے کہ منریگا میں کام کرنے کے خواہش مند پریواروں کے بھی کارڈ منسوخ کئے جا رہے ہیں جس کے وجہ سے وہ اپنے کام کے حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے ذریعے جاب کارڈ ڈلیٹ کرنے کا سبب ‘ کام کے لئے عدم خواہش ‘ یا ‘ دیگر ‘ لکھا گیا ہے۔ اس مہم میں ابتک منسوخ کئے گئے کارڈ میں ‘ فرضی ‘ اور ‘ ڈپلی کیٹ ‘ کارڈ کی تعداد جھارکھنڈ حکومت نہیں بتا پائی ہے۔
حالانکہ ریاست میں مزدوری ادائیگی میں دیری وسیع پیمانے پر ہو رہی ہے لیکن حال ہی میں حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ 18-2017 میں 94 فیصد مزدوروں کو وقت پر مزدوری ملی ہے۔یہ اعداد وشمار منریگا کے منیجمنٹ آف انفارمیشن سسٹم کے حساب سے ہے۔جس کے مطابق فنڈ ایف ٹی اوکے حاضری کے 15دنوں کے اندر منظور ہوجانے کی صورت میں وقت پر ادائیگی مان لیا جاتاہے۔
ایم آئی ایس کے مطابق ایف ٹی او کے وقت پر اپروو ہونے میں بالترتیب سدھار ہوا ہے۔ 15-2014، جب سے ادائیگی کا الیکٹرانک نظام پوری طرح سے نافذ ہوا، جھارکھنڈ کے 67.86 فیصد ایف ٹی او وقت پر اپروو ہوئے تھے جبکہ اس سال یہ تناسب 94 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔اس سے یہ تو دکھتا ہے کہ ایف ٹی او کے اپروول تک کی مزدوری کی ادائیگی کے مختلف پروسس کو وقت پر پورا کرنے کی کوشش ہوئی ہیں، لیکن ایم آئی ایس کا یہ اعداد و شمار صرف آدھا سچ دکھاتا ہے۔
ایم آئی ایس میں وقت سے مزدوری کی ادائیگی کے حساب میں ایف ٹی او کے اپروول کے بعد مزدوروں کے بینک کھاتے میں پیسے پہنچنے کے وقت کو جوڑا نہیں جاتا ہے۔ حال ہی میں جھارکھنڈ سمیت ملک کے 10 ریاستوں کی3446 گرام پنچایت میں 17-2016 میں ہوئے مزدوری کی ادائیگی پر ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ جھارکھنڈ کے مزدوروں کی ادائیگی میں یہ وقت اوسطاً 9 دن کا ہے۔
اس کے علاوہ ریاست میں بڑے پیمانے پر مزدوری زیر التوا ہونے کے ایسے کئی سبب ہیں، جو منریگا کے آن لائن نظام پر منحصر ہونے اور منریگا مزدوروں کی جوابدہی کی کمی سے جڑے ہیں۔ان وجہوں سے ہو رہی کئی قسم کی دیری ایم آئی ایس کے زیر التوا ادائیگی کے اعداد و شمار میں نہیں جھلکتی۔ ایم آئی ایس میں مزدور کی بنیادی تعداد کی غلط انٹری، آدھار کے ساتھ غلط بینک کھاتے کا انسلاک، مسٹر رول میں بغیر نام کے مزدوروں سے کام کروانا، بغیر مزدوری ادائیگی کئے ہی اسکیموں کو بند کر دینا کچھ ایسے اسباب ہیں۔
مثال کے لئے سال 17-2016 میں مکمّل نوتعمیر شدہ تالابوں کی تعداد زیادہ دکھانے کے لئے تالاب تعمیر کی کئی اسکیموں کو، جن میں مزدوری کی ادائیگی بقایہ تھی، ایم آئی ایس میں ‘ مکمّل ‘ دکھا دیا گیا تھا۔ اس سے بڑے پیمانے پر مزدور اپنی ادائیگی سے محروم رہ گئے کیونکہ اسکیم کو ایم آئی ایس میں ‘ مکمّل ‘ دکھانے کے بعد اس میں مزدوری ادائیگی کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں رہی ہو، کسی بھی حکومت نے جھارکھنڈ میں سماجی تحفظ پروگراموں میں مختلف تکنیکی استعمال کی وجہ سے لوگوں کو ملنے والی خدمات میں آنے والی گراوٹ کو منظور نہیں کیا۔
مثال کے لئےآدھار مبنی ادائیگی اور بایومیٹرک تصدیق کے شروعاتی دنوں سے ہی ان کو جھارکھنڈ میں مختلف سماجی تحفظ پروگراموں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت میں بھی یہی رجحان دکھ رہا ہے۔ منریگا میں مرکزی حکومت کی مختلف تکنیکی ہدایتوں کی وجہ سے مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کے موضوع میں ریاست کے سیاسی اعلیٰ کمان بےخبر اور غیر جانبدار دکھتے ہیں۔وقت پر کام اور مزدوری کے حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ منریگا مزدوروں کے دیگر حقوق، جیسے مزدوری کے بعدتاخیر کے لئے معاوضہ ملنا، شکایتوں کا وقت سے حل ہونا وغیرہ کی بھی لگاتار پامالی ہو رہی ہے۔
ریاستی روزگار گارنٹی کونسل کو، جس میں مزدوروں اور شہری سماج کے نمائندہ، پنچایت نمائندہ، انتظامی افسر وغیرہ ممبر ہیں اور جس کی صدارت خود وزیراعلیٰ کرتے ہیں،منریگا ایکٹ کا جائزہ لینے کے لئے کم سے کم چھ مہینوں میں ایک بار میٹنگ کرنی ہے۔ لیکن پچھلے تین سالوں میں اس کونسل کی صرف ایک ہی میٹنگ ہوئی ہے۔جولائی 2016 میں ہوئی اس میٹنگ میں لئے گئے کئی اہم فیصلوں جیسے مزدوروں کی ادائیگی ایک ہفتے میں مقررکرنا، مزدوروں کو سائیکل دینا وغیرہ کا عمل ابتک نہیں ہوا ہے۔
ریاست میں منریگا کے سوشل آڈٹ میں یہ پایا جا رہا ہے کہ ٹھیکیدار اور مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر منریگا رقم کی فرضی نکاسی کی جاتی ہے۔ اس فرضی نکاسی کی وجہ سے بھی مزدوروں کو ضرورت کے مطابق مناسب روزگار اور پوری مزدوری نہیں مل پاتی۔یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر ٹھیکیدار کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی مقامی اکائی کے فعال ممبر ہوتے ہیں اور اس بد عنوانی کے گٹھ جوڑ کو سیاسی تحفظ ملتا ہے۔اس ٹھیکیداری اور مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت کو ملی حمایت کی وجہ سے بھی شاید مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ریاست کی سیاسی گفتگو کا حصہ نہیں بنتی۔
جھارکھنڈ اسمبلی کے پچھلے دو سیشن میں ایم ایل اے کے ذریعے اٹھائے گئے سوالوں کے تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ مزدوروں کے مسئلے پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے۔ ریاست کی کم از کم مزدوری شرح اور منریگا مزدوری شرح کے فرق پر بھی حزب مخالف کی کچھ خاص مخالفت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
حال ہی کی ایک مثال حزب مخالف کے بھی مزدوروں کے مسئلے سے متعلق غیر جانبدار رویے کو اجاگر کرتی ہے۔ ریاست کے تمام مزدوروں کی ادائیگی 15 ستمبر 2017 سے زیر التوا ہے کیونکہ مرکزی حکومت کے ذریعے ریاست کے ایف ٹی او کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ مرکز کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ ریاست کے ذریعے گزشتہ سال میں ہوئے خرچ کا یوٹیلیٹی سرٹیفکیٹ وقت پر نہیں بھیجنے کی وجہ سے رقم روک دی گئی تھی۔
جھارکھنڈ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے ریاست کے لاکھوں مزدوروں کی مزدوری ڈیڑھ مہینے سے ادا نہیں ہونے پر حزب مخالف جماعتوں کی خاموشی مزدوروں کے لیے ان کی اداسی دکھاتی ہے۔ وقت پر ادائیگی مقرر کرنے کے لئے مرکزی حکومت میں مستعدی کی کمی بھی ریاست کے مزدوروں کے زیر التوا ادائیگی کا ایک سبب ہے۔اگر جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت ‘ ہر ہاتھ کو کام ‘ کے نعرے کو حقیقت میں بدلتے ہوئے کوئی سیاسی مثال قائم کرنا چاہتی ہے، تو پہلے تمام مزدوروں کے کام کے حقوق کو یقینی بنانا ہوگا۔
اصولوں میں ہو رہی خلاف ورزی کو روکنے کے لئے کچھ اہم انتظامی خامیوں کے حل کےلئے پہل کرنی ہوگی۔ ریاست کی زیادہ تر گرام پنچایت میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا درست انتظام نہیں ہے۔ کئی جگہ خاطر خواہ روزگارسیوک نہیں ہیں، ایک تہائی سے زیادہ گرام پنچایت میں پنچایت سیوک نہیں ہیں۔اور سب سے ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ کو منریگا کے لیے سب سے پہلے ٹھیکیداروں کی حکمرانی کوختم کرنے اور مقامی انتظامیہ کو مزدوروں کے حقوق کے متعلق جوابدہ بنانے کے لئے سیاسی عزم دکھانا ہوگا۔
(مضمون نگار جھارکھنڈ میں رہتے ہوئے منریگا پر کافی وقت سے کام کر رہے ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, گراؤنڈ رپورٹ