پروین کے یہاں شاید وہی بری عورت ہے جو اپنی چوڑیوں سے نیزے بناتی رہی اور بدن پر بھونکنے والے اعلیٰ نسل کے کتوں کے خلاف لکھتی رہی۔
عورت صدیوں سے خانہ بدوش رہی ہے جو ہر وقت اپنے شانوں پر ہجرت کی صلیب اٹھائے پھرتی ہے۔ خوشی سے دکھ تک، اجالے سے اندھیرے تک،زندگی سے موت تک اور پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیسا جبر ہے کہ آدھی دنیا حاکم ہے اور آدھی دنیا محکوم۔ بس عورتیں کھیتیاں ہی ہیں جنہیں کسی بھی وقت اجاڑا جاسکتا ہے،یہی اجڑنے کا خوف ہےجس نے عورتوں سے قدر اول کے شہ پارے لکھوائے۔ اعلیٰ درجے کی شاعری کروائی۔فہمیدہ ریاض سچ کہتی ہیں کہ؛
’اردو ادب میں،جتنے بڑے درجے یامرتبے کی خواتین گزری ہیں،ان کے مقابلے میں مردلکھنے والے نہیں۔ مثال کے طور پر جہاں تک تاریخی شعور کے ساتھ لکھنے کا تعلق ہے۔ قرة العین حیدر کے مقابلے میں ہم کسی مرد کو نہیں لاسکتے۔ اسی طرح ہر قسم کے تصنع سے پاک نظر ہو تو عصمت چغتائی نظر آئے گی، اس کے مقابلے کا کوئی اور کہاں۔ زبان کی تخلیق،ترقی اورارتقاءمیں عورت کا ہاتھ مرد سے زیادہ نمایاں ہے۔ ادب تو بنایا ہی عورتوں نے ہے…‘
آپ اسے ایک سوچ کہہ لیجئے جو ذہنی،نفسیاتی جبر کا رد عمل ہےمگر یہ حقیقت ہے کہ قفس میں قید، زنجیر بکف عورتوں نے ادب کو وہ کچھ دیا ہے، جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ تاہم یہ بھی ایک سچائی ہے کہ مریخ و زہرہ کے اتصال سے ہی کائنات میں حسن ہے۔ اس لیے الگ الگ جزیرے صرف دکھوں کو جنم دے سکتے ہیں۔ ادب میں نہ کوئی جزیرہ نسواں ہے نہ کوئی جزیرہ مرداں۔دونوں جزیرے ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ ہاں ایک عورت کی ریاست صرف چادر کشائی تک محدود نہ ہو بلکہ اسے اتنی وسعت اور آزادی ملنی چاہیے کہ وہ اپنے داخلی تموجات اور ہیجانات کو بھی لفظوں میں ڈھال کر دنیا تک پہنچا سکے۔ اپنے جذبات و احساسات کا نقش دنیا پر ثبت کرسکے۔ اور یہی کوشش اسے جبر مسلسل کے اندھیروں سے نجات دلا سکتی ہے۔ اردو کی شاعرات بھی بس اسی نجات کی تلاش میں ہیں۔
پروین شاکر بھی اسی سوچ کی امین تھیں جو کشورناہید،سارہ شگفتہ اور فہمیدہ ریاض کی ہے۔ بس تھوڑے سے فرق کے ساتھ کہ ان کے ہاں وہ تندی اور جارحیت نہیں ہے جو کشور، سارہ اور فہمیدہ کے یہاں ہے۔ وہ ایک حساس ذہن کی مالک تھیں۔ ایک جلا وطن کی طرح اپنے خوابوں کے جزیروں کی تلاش میں بھٹکتی رہیں… دکھوں اور اذیتوں کی طویل مسافتیں طے کیں اورسوچ، خیال کے نئے نئے الف لیلوی جزیرے خلق کئے،اور انہی جزیروں میں وہ ایک شہزادی کی طرح ماضی کی کتھا سناتی رہیں کیونکہ”جب زندگی کے میلے میں رقص کی گھڑی آئی تو سنڈریلا کی جوتیاں ہی غائب تھیں نہ وہ خواب تھا، نہ وہ باغ تھا، نہ وہ شہزادہ، اچھے رنگوں کی سب پریاں اپنے طلسمی دیس کو اڑ چلی تھیں اور لہولہان ہتھیلیوں سے آنکھوں کو ملتی شہزادی جنگل میں اکیلی رہ گئی اور جنگل کی شام کبھی تنہا نہیں آتی! بھیڑئیے اس کے خاص دوست ہوتے ہیں! شہزادی کے پاس بچاؤکا صرف ایک ہی طریقہ ہے، اسے ایک ہزار راتوں تک کہانی کہنی ہے…مادر زاد منافقوں کی بستی میں زیست بسر کرنے کا اور کوئی ہنر نہیں اور ہوا سے بڑھ کر اورکون منافق ہوگا کہ جو صبح سویرے پھول کو چوم کر لگاتی بھی ہے اور شام ڈھلے اپنے حریص ناخنوں سے اس کی پنکھڑیاں بھی نوچ لیتی ہے… قیمت شگفت چکانے میں جان کا زیاں تو ایسی کوئی بات نہیں مگر یہ پنکھڑی ہوکر دربدر ہونا یقینا دکھ دیتا ہے…“
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کامقابلہ ٹھہرا
اور اس ہوا کو کوئی جسم دیجئے تو مرد کی صورت دکھائی دے گی۔ اور پھول کو کوئی پیکر عطا کیجئے تو ایک عورت نظر آئے گی، ہوا سفاکیت کا استعارہ ہے تو پھول مظلومیت و معصومیت کا۔ پروین شاکر بھی پھول کا پیکر تھیں جس کی پنکھڑیوں کو ہوا کے سفاک ہاتھوں نے مسل دیا تو وہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئیں:
آندھی کی زد میں آئے ہوئے پھول کی طرح
میں ٹکڑے ٹکڑے ہوکے فضا میں بکھر گئی
اور جب وہ بکھرے ہوئے پھول کی طرح بے روا ہوگئیں تو اندرونی کرب، جذبات کی شدت کے لمس سے یوں بول پڑا:
اب کیسی پردہ داری خبر عام ہوچکی
ماں کی ردا تودن ہوئے نیلام ہوگئی
مری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو میری پھر دے گیا تشہیر کون
جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا
اسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا
یہی، بے ردائی، ایک جبر مسلسل ہے جس کی چکی میں ایک عورت پستی رہتی ہے۔ پروین کی شاعری میں ’مرددنیا‘کے اسی جبر سے عورت کا کرب مکالمہ کرتا نظر آتا ہے۔
پروین شاکر ایک ڈریمر،ایک وژنری تھیں، جو اپنی روح کی تلاش میں خوابوں کے نگر آباد کرتی رہیں۔ ان کے وجود پر صرف خوابوں کے پیرہن ہیں۔ وہ بھی چاک چاک۔ وہ خواب جو ہجر کی وادیوں میں کھوگئے، اس کے لمس کو وہ ترستی رہیں۔ ہجر کے دکھ میں جلنے کے باوجود ایک امید ایک آس آنکھوں میں سجائے رکھی۔ دل میں ناامیدی کے سیاہ بادل نہیں بلکہ رجائیت کے جگنو چمکتے رہے اور کجرارے بھیگتے نین، امیدوں کے چراغ سے روشن رہے۔ المیہ تجربات کو بھی پروین نے اظہار کا کیسا حسن بخشا ہے:
ایک ہی شہر میں رہ کر جس کو اذن دید نہ ہو
یہی بہت ہے، ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں
شاید کہ چاند بھول پڑے راستہ کبھی
رکھتے ہیں اس امید پہ کچھ لوگ گھر کھلے
خیمے سے دور، شام ڈھلے اجنبی جگہ
نکلی ہوں کس کی کھوج میں، بے وقت سر کھلے
وہ چاند بن کے میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
میں اس کے ہجر کی راتوں میں کب اکیلی ہوئی
گئےدنوں کے تعاقب میں تتلیوں کی طرح
ترے خیال کے ہمراہ کررہی ہوں سفر
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مل جائے تو زحمت کرنا
پروین کی اس شاعری میں کہانی کے کتنے ہی بدلتے رنگ ہیں۔ ہجر کا رنگ، وصال کا رنگ اور خواب کا رنگ۔ بالکل ایک فلم کی طرح اس میں موشن ہے،سین سیشن ہے، تھرلر ہے، رومانس ہے۔ مونو لوگ اور شعور کی روکی تکنیک ہے۔ شاعری فلیش بیک میں پوری کہانی سناتی رہتی ہے۔ جدائی کا ایک سیاہ اداس منظر ہے۔ پس منظر میں ایک برہن کی صدا ہے جو بیتے لمحوں کے تعاقب میں ہے۔ اس آواز میں عجب مقناطیسی کشش ہے۔ اور وہ ایک تصویر بنتی سی دکھائی دیتی ہے۔ دیوار پر ایک پورٹریٹ، کھوئی کھوئی سی ایک لڑکی۔ رات ڈھلے تک اس تصویر کو تکتی رہتی ہے اور پھر تصور کے کسی لمحے میں اس پہ اپنے ہونٹ رکھ دیتی ہے…جب آنکھ کھلتی ہے تو تصویر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور آنکھ اس تصویر کی تلاش میں صحراؤں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ بالآخر وہ آنکھ صحرا بن جاتی ہے۔ وحشت رم آہو سے بڑھ کر تنہائی کا ایک صحرا:
وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں
اور اماوس کی وہ گھنی رات کہ مہتاب بھی نہیں۔ تنہائی کا یہ سفر کٹے تو کیسے۔ بس کشکول میں کچھ یادوں کے پھول ہیں اور ساعت وصال کی خوشبو ہے جس سے وہ اپنا دل بہلا سکتی ہےں کہ ایک عورت سنگ دل رواجوں کے آہنی حصار میں عمر قید کی ملزم ہونے کے باوصف ایثار، وفا، محبت کا ایک مجسمہ ہوتی ہے اور شب تنہائی کی ساری قیامتیں سہنے کے بعد بھی اپنے محبوب کو دعاؤں کی سوغات اور پھول بھیجتی ہے:
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اس کی
انگلیوں کو تراش دوں پھر بھی
عادتاً اس کا نام لکھیں گی
ہمارے بخت کی ریکھا بھی میر ایسی تھی
تمام عمر نہ اڑتی، اسیر ایسی تھی
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں
وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں، مرا دل تیری پناہ میں ہے
کہیں رہے وہ، مگر خیریت کے ساتھ رہے
اٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دعا آئی
ذہن و بدن کی خانہ جنگی میں الجھی ہوئی اس عورت کے محبت بھرے مقدس جذبات ہیں جس کے وجود کو شب غم کے اندھیروں نے جکڑ رکھا تھا اور جس کی زندگی ایک نامعتبر رفاقت کی نذر ہوگئی اور سکون خواب ہوا مگر اولڈفلیم بدن میں انگڑائیاں لیتی رہی۔ وفا کی آگ میں جل کر راکھ ہوئی اور ہجر میں اپنے آنسوؤں سے مقدّس آیتیں لکھتی ہوئی ایثار کا ایک مجسم پیکر بن گئی:
کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
سپرد کرکے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سوکے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی
جو خواب دینے پہ قادر تھا میری نظروں میں
عذاب دیتے ہوئے بھی مجھے خدا ہی لگا
ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل میرے گناہ میں ہے
پروین شاکراردو دنیاکی ایک Icon اور گلیمرس شاعرہ تھیں۔ ہم عصر غزلیہ شاعری میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی۔ شہرت اور مقبولیت کی معراج کو پہنچیں،ان کی اپنی بوطیقا تھی۔ لفظیات کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے انہیں مقبول عام شاعرہ بنادیا۔ وہ جس لہجے میں بات کرتی ہیں،اچھی لگتی ہیں۔ شب ممنوع سے ایک پل چرانے کی خواہش،بدن کے موسم بے اختیار کے سرد برف لمحوں میں کسی جسم کو اوڑھنے کی بات ہو یا موسم کی پہلی بارش کا ذکر۔ ان کا بیان دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور ایک تحیرزا طلسماتی فضا خلق کرتا ہے۔ بالخصوص بارشوں میں بھیگ کران کی شاعری تو اور بھی شعلہ خیز ہوجاتی ہے۔ انہوں نے غزلیں تو ایسی عمدہ کہی ہیں کہ زبان زد خاص و عام ہوگئی ہیں مثلاً غزل کے کچھ یہ اشعار:
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
شہر وفا میں دھوپ کا ساتھی نہیں کوئی
سورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
پروین شاکر کی نظمیں بھی اسی معیار کی ہیں جو گہرے تخلیقی تاثر میں ڈوبی ہوئی ہیں اور ان کی عظمت کے اثبات کے لیے کافی ہیں۔
”ایک بری عورت“ ایک بہت اچھی نظم ہے جس میں عورت سماج کا کرب ایک ایک لفظ سے عیاں ہے:
”شہر اس کی دلکشی کے بوجھ سے چٹخ رہا ہے۔ کیا عجیب حسن ہے/ کہ جس کے ڈر سے مائیں اپنی کوکھ جائیوں کو/ کوڑھ صورتی کی بددعائیں دے رہی ہیں/ کنواریاں تو کیا/ کہ کھیلی کھائی عورتیں بھی جس کے سائے سے پناہ مانگتی ہیں/ بیاہتا دلوں میں اس کا حسن خوف بن کے یوں دھڑکتا ہے/ کہ گھر کے مرد شام تک نہ لوٹ آئیں تو/ وفا شعار بیبیاں دعائے نور پڑھنے لگتی ہیں۔“
اور آخر کے یہ بند تو غضب کے ہیں۔ احساسات کو جھنجھوڑ دینے والے۔ ملاحظہ کیجئے:
”اور قریب تھا کہ ہانپتی ہوئی بلا/ مری رگ گلو میں اپنے دانت گاڑتی/ کہ دفعتاً کسی درخت کے عقب میں چوڑیاں بجیں/ لباس شب کی سلوٹوں میں چرمرائے زرد پتوں کی ہری کہانیاں لیے/ وصال تشنہ کا گلال آنکھ میں/ لبوں پہ ورم، گال پرخراش/ …/ وہی بلا، وہی نجس، وہی بدن دریدہ فاحشہ تڑپ کے آئی—اور—/میرے اور بھیڑئیے کے درمیان ڈٹ گئی—“
اس نظم میں شاید وہی بری عورت ہے جو اپنی چوڑیوں سے نیزے بناتی رہی اور بدن پر بھونکنے والے اعلیٰ نسل کے کتوں کے خلاف لکھتی رہی… مذہبی مرد سماج پر اس نظم میں بہت ہی گہرا طنز ہے۔ جو پروین کے لہجے میں اور گہرا ہوگیا ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری نظمیں ہیں جو ان کے گہرے شعور و احساس اور آشوب کائنات اور کرب حیات کا احساس دلاتی ہیں۔
اگر نگاہوں میں تنگی چشم حسود نہ ہو تو پروین شاکر کی شاعری کا فکری و فنی تناظر بہت وسیع نظر آئے گا۔ ورنہ کہنے کو تو کچھ لوگ انہیں ٹین ایجرکی شاعرہ بھی کہتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں بہت گہری تخلیقیت،تاثرآفرینی اورپختگی ہے۔ عصری حسیت اور سیاسی و سماجی ادراک سے بھی ان کی شاعری مالامال ہے:
ایک سہانی صبح کو شہر جلا ہوا ملا
ہوتی رہیں حفاظتیں ظل الٰہ کے لیے
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤکبھی
کیا یہ اجتماعی شعور کی آواز نہیں ہے؟
پروین شاکر— صرف اپنی ذات کے حصار میں قید نہیں رہیں اور نہ ہی ان کا عشق اپنے آپ تک محدود رہا بلکہ وہ کائناتی اور آفاقی بن گیا۔ اجتماعی آشوب اور کائنات کے کرب کو بھی انہوں نے شعری اظہار کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے وجود میں ایک کربلا سمیٹے ہوئے انہوں نے جب شہر کا مرثیہ لکھا تو الفاظ یوں نوحہ خواں ہوئے:
پیش آثار قدیمہ رک گئے میرے قدم
شہر کے دیوار و در کچھ جانے پہچانے لگے
ایسے شعر گہرا تہذیبی، ثقافتی و تاریخی شعور رکھنے والا شخص ہی کہہ سکتا ہے اور پروین کے یہاں ایسے اشعارکی کمی نہیں ہے۔
نگاہ غزنوی سے دیکھئے تو ان کی شاعری نسوانی احساسات و ادراکات کی بہترین ترجمان ہے اور ان کے شعری مجموعے، خوشبو، صد برگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام ان کی تخلیقی، فنی، فکری عظمت کے نشان ہیں۔ ایک مجموعے سے دوسرے مجموعے تک ان کے فکر و فن کا ارتقائی سفر جاری رہا ہے۔
یہ مضمون 24 نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔
Categories: ادبستان