مودی جیکے گاؤں کوگود لینے کے بعد سڑک پر بھلے ہی ’دکھنے والی ‘ترقی ہو گئی ہو لیکن ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ناگے پور سے بنارس لوٹتے ہوئے مجھے قریب قریب ترقی کا مطلب سمجھ میں آ چکا تھا۔ اسٹریٹ لائٹ، مجسمہ، پانی کی اونچی ٹنکی اور بینچ بھلے ہی آنکھوں کو چوندھیاتی ہو لیکن اس سے لوگوں کی زندگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
16 اکتوبر کو گجرات میں وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس کو ترقی کے موضوع پر الیکشن لڑنے کے لئے للکار رہے تھے، اس کے ٹھیک 19دن بعدمیں ناگے پور گاؤں کے لوگوں سے ترقی کا مطلب پوچھ رہا تھا۔ ناگے پور گاؤں کو مارچ 2016 میں وزیر اعظم نے اپنے دوسرے پارلیامانی آدرش گاؤں کے طور چنا ہے۔ یہ گاؤں آر جی لائن بلاک، ضلع وارانسی میں آتا ہے۔ بنارس سے آٹو لےکر ہم راجاتالاب پہنچتے ہیں، یہاں سے تقریباً تین کلومیٹر ناگے پور پہنچنے کا سفر پیدل ہی طے کرنا ہوتا ہے۔ گاؤں میں پکّی سڑک سالوں پرانی ہے لیکن سواری گاڑی آج بھی نہیں چلتی۔
پہلی بار پوچھنے پر تقریباً تمام گاؤں والے وزیر اعظم کے گاؤں کو گود لینے کے بعد ہوئے گاؤں کی ترقی سے متفق دکھتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ تمام گھروں میں بیت الخلا، پانی ٹنکی، بس اڈہ، امبیڈکر مجسمہ، سولر کی کچھ لائٹ گود لینے کے بعد ہی لگائی گئی ہے۔ گاؤں میں بی ایس این ایل کی وائی فائی بھی لگی ہوئی ہے، لیکن گاؤں کے نوجوان،’ جیو‘ کا ‘مفت انٹرنیٹ ‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں لوگوں سے گاؤں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے بنیادی موضوع پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی سی گہرائی سے پوچھنے پر پتا چلتا ہے کہ گاؤں میں صرف ایک پرائمری اسکول ہے، ایک بھی پرائمری ہیلتھ سینٹر نہیں ہے۔ بچّوں کو پڑھنے کے لئے دور گاؤں کے ہائی اسکول میں جانا پڑتا ہے، وہیں علاج بھی زیادہ تر ذاتی اور جھولاچھاپ لوگوں کے بھروسے پر ٹکا ہے۔ جاننے والی بات ہے کہ گاؤں کی آبادی 5000 ہے، جس میں 1800 ووٹرس ہیں۔ گاؤں میں یادو، پٹیل، بڑھئی کے علاوہ راج بھر اور دوسرے دلت طبقے کے لوگ رہتے ہیں۔
رام صورت راج بھر کی عمر تقریباً 65 سال ہوگی۔ وہ بتاتے ہیں،”ہمارے گاؤں میں دہائیوں تک لوگ ہینڈلوم صنعت میں تھے۔ ساڑی بنانے کا کاروبار ہر گھر میں ہوتا تھا۔ روزگار کے لیے ہجرت نہیں تھی۔ لوگ گھر پر رہتے ہوئے،فیملی کو دیکھتے ہوئے اپنا کاروبار چلا لیتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ کام مندا پڑنے لگا اور آج حالات یہ ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں سے کام بالکل ٹھہر سا گیا ہے “۔
اب گاؤں کے لوگوں کو ہجرت کرنی پڑ رہی ہے۔ رام صورت کے دو بیٹے ممبئی میں نوکری کرنے چلے گئے،وہیں زیادہ تر گاؤں کے لوگ بنارس میں مزدوری کرنے جاتے ہیں۔ گاؤں کی چائے کی دکان پر ہمیں صبح صبح سائیکل سے بنارس میں مزدوری کرنے جا رہے وکرم پٹیل ملے۔ وہ بتاتے ہیں،’ابھی ہم بنارس جا رہے ہیں۔ وہاں مزدوروں کی منڈی ہے۔ ہزاروں مزدور آتے ہیں، ان میں سے سو دو سو کو کام ملتا ہے باقی کو خالی ہی واپس لوٹ جانا پڑتا ہے۔ اب سوچئے 25 کلومیٹر سائیکل چلاکر میں بنارس جاؤںگا،وہاں بھی کام ملنے کی گارنٹی نہیں ہے، پھر میں اتنی ہی دوری طے کرکے واپس لوٹ آؤںگا ‘۔
سوہن راج بھر کی عمر 35 سال ہوگی۔ وہ گاؤں میں بےروزگاری کا ایک مسئلہ منریگا جیسی اسکیم کے بند ہو جانے کو بھی مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’مودی جیکے گاؤں کوگود لینے کے بعد سڑک پر بھلے ہی ‘دکھنے والی ‘ ترقی ہو گئی ہو لیکن ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بےروزگاروں کو روزگار دینے کا کوئی انتظام نہیں ہوا۔ ایک سال سے منریگا میں کوئی کام نہیں مل رہا ہے۔ جن لوگوں نے منریگا میں کام کیا بھی تھا،ان میں سے کئی لوگوں کو پیسے کی ادائیگی تک نہیں ہوئی ہے ‘۔
دھرمیندر پٹیل پاس کی منڈی میں سبزی بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”ہمارے گاؤں سے ہائی اسکول بہت دور ہے۔ بچّے پرائمری کی پڑھائی کے بعد اسکول چھوڑ کرکام میں لگ جاتے ہیں۔ کچھ بچّے اگر آگے پڑھتے بھی ہیں تو دسویں پاس کر پاتے ہیں۔ ہسپتال کی دقت ہے۔ گاؤں میں پرائمری ہیلتھ سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہونے پر لوگوں کو پیدل ہی دور گاؤں میں لے جانا پڑتا ہے۔ اس میں بھی زیادہ تر ہسپتال یا ڈاکٹر پرائیویٹ ہیں جو علاج میں موٹی فیس وصول کرتے ہیں۔ غریب آدمی علاج کے فقدان میں مرنے کو مجبور ہے۔”
گاؤں میں پنجاب نیشنل بینک کی طرف سے کرشی کیندر کھولا گیا ہے۔ اس مرکز میں نامیاتی کاشت کاری کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے لیکن ابھی تک کسانوں نے نامیاتی کاشت کاری شروع نہیں کی ہے۔ نامیاتی کاشت کاری کے لئے ضروری وسائل جیسے ورمی بیڈ،جانور وں کے شیڈ وغیرہ کسانوں کو فراہم ہی نہیں کرایا گیا ہے۔ پوچھنے پر راجناتھ پٹیل کہتے ہیں،”چھوٹے چھوٹے کسانوں کو کسی سرکاری اسکیم کا فائدہ نہیں مل پاتا ہے۔ دراصل سرکاری سہولت نیچے تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ بڑے کسان اور اعلیٰ ذات والے کسان ہی ساری اسکیموں کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں “۔
گاؤں میں انٹر کالج کھولنے کی بات تھی،اس کو بھی پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔ بس اسٹینڈ بنا تو دیا گیا ہے ،لیکن گاؤں میں نہ تو بس چلتی ہے نہ کوئی چھوٹی سواری گاڑی۔ ابھی تک وزیر اعظم اس گاؤں میں نہیں پہنچے ہیں۔ گاؤں والوں کو امید ہے جب وہ آئیںگے تو ان کو وہ لوگ اپنے مسائل بتا پائیںگے۔ حالانکہ اسمرتی ایرانی،انوپریا پٹیل جیسے کئی مرکزی وزیر ناگے پور کا دورہ کر چکے ہیں۔ گاؤں میں ویدانتا کمپنی نے ایک چھوٹا سا آنگن باڑی مرکز بھی بنا دیا ہے۔ اس گاؤں سے کوکا کولا کمپنی کی فیکٹری بھی سٹی ہوئی ہے۔ فیکٹری کھلنے کے بعد سے گاؤں والوں نے بتایا پانی کی سطح کافی نیچے چلی گئی ہے اور اب آب پاشی کے لئے پانی کی کمی رہتی ہے۔ گرمی کے دنوں میں چانپاکل اور پمپ سیٹ میں پانی نہیں آ پاتا۔ گاؤں کے لوگ دہائیوں سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ شاید اسی مخالفت کی وجہ سے اب فیکٹری صحیح طورپر نہیں چل رہی ہے۔
لوٹتے ہوئے ہم ناگے پور سے ملحقہ گاؤں کلّی پور سیدا میں رکتے ہیں۔ کلّی پور ،ناگے پور سے کافی بڑا گاؤں ہے۔ وہیں کھیت میں کام کر رہے گاؤں کے لالمن پٹیل بتاتے ہیں کہ اس گاؤں میں بھی صرف ایک پرائمری اسکول ہے اور ہسپتال کی سہولت نہیں ہے۔ سال بھر سے یہاں بھی منریگا کا کام بند ہے اور بچّوں کو ہائی اسکول کے لئے ہر روز 10 کلومیٹر کی دوری طے کرنی پڑتی ہے۔
ناگے پور سے بنارس لوٹتے ہوئے مجھے قریب قریب ترقی کا مطلب سمجھ میں آ چکا تھا۔ اسٹریٹ لائٹ، مجسمہ، پانی کی اونچی ٹنکی اور بینچ بھلے ہی آنکھوں کو چوندھیاتی ہو لیکن اس سے لوگوں کی زندگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لوگوں کی تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل کو حل کرکے ہی ترقی لائی جا سکتی ہے۔ لیکن ملک میں ترقی کو موضوع بنانے والے سیاستداں کب اس پہلو کو سمجھیںگے، پتا نہیں!
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ