خبریں

گراؤنڈ رپورٹ : پاٹیداروں کا غصہ بگاڑ سکتی ہے بی جے پی کا کھیل

بھاجپا سے مایوس ہوچکے تیز مزاج پاٹیدار وں نے اقتصادی مورچوں پر حکومت کی ناکامیوں کو سامنے رکھنا شروع کر دیا ہے۔حالاں کہ شہروں میں ہندو بنام مسلم کی سیاست ابھی بھی پھل پھول رہی ہے۔

Patidar-Reuters

اگست، 2015 میں گجرات میں ہوئی پاٹیدار تحریک کا بڑا حصہ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائلیوں  اور پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن کی موجودہ پالیسی کی تنقید کے اردگرد سمٹا تھا۔گجرات کے باہر کے کئی لوگوں نے اس کو ہریانہ میں جاٹوں اور مہاراشٹر میں مراٹھوں کے حال کے برسوں میں ہوئی تحریک سے جوڑ‌کر دیکھا، جن میں کسی دبنگ کمیونٹی نے ریزرویشن کی مانگ کو لےکر حکومت کے خلاف پرچم بلند کیا تھا۔حقیقت یہ تھی کہ اس نے محروم طبقوں کے لئے بھی ریزرویشن کو ختم کرنے کی مانگ کی تھی۔ لیکن، پاٹیداروں کے دبدبے والے علاقوں میں تھوڑے سے وقت کے لئے بھی جائیں، تو پتا چلے‌گا کہ کمیونٹی کے نوجوان لیڈر ہاردک پٹیل کی قیادت والی تحریک کا واحد پہلو یہی نہیں ہے۔

گجرات کی راجدھانی احمد آباد سے شمالی گجرات کے مختلف گاؤں کی طرف دو گھنٹے کا سفر کیا جائے، تو پاٹیداروں کے اندر کے عدم اطمینان کے مختلف پہلو ؤںکو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔گجرات کے شمالی حصوں کے میہہ سانا، پاٹن اور گاندھی نگر ضلعوں میں پاٹیداروں کا دبدبہ ہے۔ وہ نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ سماجی طور پر بھی اپنا اثر رکھتے ہیں۔پاٹیدار یہاں کی سب سے بڑی زمیندار کمیونٹی ہے۔ یہ ایک وقت میں ریاست کی سب سے مالدار کسان کمیونٹی ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے کافی ہوشیاری کے ساتھ زراعت سے ہوئی اضافی آمدنی کی سرمایہ کاری مختلف چھوٹی صنعتوں میں کی ہے۔اس  علاقے میں  وزیر اعظم نریندر مودی، ریاست کے نائبوزیراعلیٰ نتن پٹیل اور کئی دوسرےسینئر بی جے پی لیڈروںکا گھر ہے۔ یہاںگزشتہ  تین دہائیوں سے پاٹیدار، بھگوا پارٹی کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑے رہے ہیں۔

کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی مستحکم  تنظیم کی ریڑھ یہ کمیونٹی ہی رہی ہے۔لیکن، اب یہ علاقہ پاٹیدار انامت آندولن سمیتی (پاس) کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ ہاردک پٹیلکی قیادت والی پاس نے 2015 کے بیچ میں پاٹیداروں کے لئے انامت یا ریزرویشن کی مانگ کو لےکر بڑےبڑے  مظاہرے کیے۔پاٹیدار کمیونٹی کے نوجوان کی خودکشی نے اس تحریک کو شعلے میں تبدیل کرنے کا کام  کیا تھا، جو انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں 90 فیصدی سے زیادہ نمبر لاکربھی انجینئرنگ کالج میں داخلہ پانے میں ناکام رہا تھا۔پولس فائرنگ کے مختلف واقعات میں کچھ مظاہرین کی موت نے اس کمیونٹی کے غصے کو اور بھڑکا دیا۔ آخر غصے کے جوالامکھی کے اس طرح سے پھٹنے کی وجہ کیا تھی؟

پاٹیدار کمیونٹی ریاست کے ثروت مند طبقوں میں سے تھا اور اس کو بی جے پی کا تحفظ بھی حاصل تھا! لیکن گجرات کی ترقی کے ماڈل سے پیدا ہوا اقتصادی بحران، جس کو کئی اسٹڈی  نے اجاگر کیا ہے، اس بات کا گواہ ہے کہ اصل میں یہ غصہ گزشتہ کئی سالوں سے اندر ہی اندر جمع ہو رہا تھا۔مسلسل گہراتے زراعتی بحران کے لمبے دور اور حال کے برسوں میں ان کے چھوٹے اور منجھلے کاروباروں میں ہوئے نقصانات نے جوان پاٹیداروں کو روزگار کی تلاش کرنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ حالانکہ، ان کی پہلی پسند اب بھی سرکاری نوکریاں ہیں، جو پہلے سے ہی کم ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاست کے وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر مودی کی طویل مدتی  حکومت کے دوران بڑی تعداد میں چالو ہوئے نجی صنعتوں میں بھی وہ اپنے لئے نوکریاں ڈھونڈ پانے میں ناکام رہے ہیں۔ مثال کے لئے، پاٹن کے سجان پور گاؤں کے ایک نوجوان کی بات کو سنا جا سکتا ہے۔

گاؤں کی چوپال میں جمع نوجوانوں کی طرف سے بولتے ہوئے 23 سالہ نتن پٹیل نے کہا، ‘ میرے پاس کیا راستہ ہے؟ ہم میں سے ہر کسی نے کالجوں میں کافی پیسے خرچ کرکے ووکیشنل ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود ہم بیکار بیٹھے ہیں۔ ‘ اس نے یہ بھی جوڑا، ‘ایسا صرف پاٹیداروں کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ کولی، رباری اور برہمن کمیونٹی کے میرے دوستوں کو بھی کوئی روزگار نہیں ملا ہے۔ ‘

نوجوانوں سے ایک بات بار بار سننے کو ملی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایجوکیشن کے Privatization سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ ‘ کالج ہم سے کافی کمائی کرتے ہیں۔ لیکن نوکریوں کی بات تو جانے ہی دیجئے، وہ ہمیں ہمارا موضوع بھی اچھی طرح سے نہیں پڑھاتے ہیں۔ ‘ نارائن کے ایک دوست نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا، ‘ میہ سانا میں انجینئرنگ اور ایم بی اے کالجوں کے اساتذہ کو محض 10ہزاریا اس سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان کو کچھ نہیں آتا۔ اتنے کم تنخواہ میں کوئی بھی اچھا استاد یہاں نوکری کیوں کرے‌گا؟ ‘

ایک جوان کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں کے آس پاس واقع صنعت باہری لوگوں کو نوکری پر رکھتے ہیں۔ نارائن کی شکایت تھی، ‘ ہم نے اپنی زمینیں ان صنعتوں کو بیچ دیں، لیکن ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہمیں زمین سے ملا پیسہ ختم ہو گیا ہے اور اس پیسے سے ہم نے جو پارٹ ٹائم کاروبار شروع کئے، ان میں بھی نقصان ہو رہا ہے۔ ‘واضح طور پر ان بااثر پاٹیداروں کے مقاصد کافی اونچے ہیں۔ اس کمیونٹی کے لوگ کسی طرح سے جسمانی محنت سے جڑا دکھائی دینے والا کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ایسی نوکریاں چاہتے ہیں، جو گاؤں میں ان کے سماجی مرتبےکے عین مطابق ہو۔پاس کے گنگلاسن گاؤں کے بزرگ پاٹیداروں کا ایک طبقہ اپنی کمیونٹی کے نوجوانوں کے خیالات سے پورا اتفاق رکھتا ہے۔

مونگ پھلی اور ارنڈی کی زراعت کرنے والے جینتی لال پٹیل نے بتایا، ‘دیکھئے، ہم اپنی پوری زندگی کسانی کا کام کرتے رہے ہیں۔ ہم اچھی کمائی کیا کرتے تھے، لیکن اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔ مودی نے ہم سے نہر کے پانی کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن، ابھی تک اس سمت میں کچھ نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں ہمیں زراعت میں مسلسل نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ہمارے بچّے کیا کریں‌گے؟

ونود پٹیل نے کہا، ‘ ہم پوری طرح سے بارش پر منحصر نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس لئے ہم بورنگ پمپ میں سرمایہ کاری کرنے والے پر منحصر رہتے ہیں۔ پانی نکالنے کے لئے ہمیں زمین سے کم از کم 1200 فٹ نیچے تک گڈھا کھودنا پڑتا ہے۔ اس میں قریب 23-22 لاکھ کی لاگت آتی ہے۔ اس گاؤں کے قریب 100 کسان پوری طرح سے اس پر منحصر ہیں۔ لیکن، اس پر بہت زیادہ کمیشن دینا پڑتا۔ ہمیں اپنی فصل کا ایک تہائی پمپ میں سرمایہ کاری کرنے والے کو دینا پڑتا ہے۔ ‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ فصل کو بیچنے کے بعد وہ شاید ہی کوئی بچت کر پاتے ہیں۔

تقدیر کے اچانک الٹا گھوم جانے کی وجہ سے، اب تک کئی خصوصی اختیارات سے مستفید ہونے والی یہ کمیونٹی کارپوریٹ حمایتی  اقتصادی ماڈل کے نتیجہ کے طور پر لگنے والے جھٹکے پر رد عمل دینے والوں میں سب سے آگے ہے۔

ایسے میں جبکہ ریاست دسمبر، 9 اور دسمبر، 14 کے الیکشن کے لئے کمر کس رہی ہے، شمالی گجرات کے گاؤں کے زیادہ تر پاٹیدار بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کے لئے پرعزم نظر آتے ہیں۔

ہاردک نے حال ہی میں کانگریس کو حمایت کا اعلان کر دیا ہے، لیکن میہ سانا اور پاٹن کے کچھ پاٹیداروں نے، جن سے دی وائر نے بات چیت کی، عام آدمی پارٹی کو بھی ووٹ دینے کی خواہش ظاہر کی۔عام آدمی پارٹی شمالی گجرات کے کچھ سیٹوں پر میدان میں ہے۔ بی جے پی کو اقتدار سے بےدخل کرنے کی خواہش پاٹیداروں میں سب سے زیادہ ہے اور اس بات نے گاؤں کے سماجی فارمولے کو کافی حد تک بدلنے کا کام کیا ہے۔

hardik-patel

پاٹیداروں نے 1981 اور 1985 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ مادھو سنگھ سولنکی کے ذریعے کانگریس کی طرف سے تیار کئے گئے چھتری، ہریجن، آدیواسی، مسلم (کھام) کے سماجی اتحاد کے خلاف چلی ریزرویشن مخالف تحریک کی قیادت کی تھی۔بی جے پی نے اس جذبہ کو بھنایا اور گجرات میں پاٹیداروں اور دیگر اعلیٰ ذات کمیونٹیوں کے اپنے روایتی حامیوں کی مدد سے گجرات میں اپنی تنظیم کھڑی کی۔گزرتے سالوں میں بی جے پی نے اپنے ہندو توا کی سیاست کو آگے بڑھایا۔ ووٹنگ کی باری آنے پر ہندوؤں کے اکثریت طبقوں کو آپس میں جوڑنے والادھاگایہی بنا۔

دو چیزوں نے ریاست میں بی جے پی کو مضبوط بن‌کر ابھرنے میں مدد کی۔ اس میں ایک تھامودی کے ذریعے ریاست میں بنیادی ڈھانچے پر زور دیا جانا اور دوسرا تھا، ‘ ہندو ہردے سمراٹ  والی ان کی امیج، جس کوانہوں نے کافی کوشش سے گڑھاتھا۔بی جے پی بھلے اپنی مسلسل  جیت کا سہرا ترقی کو دیتی ہو، لیکن زمین پر ہونے والے انتخاب اصل میں ہندو بنام مسلم کی سیاست کا اکھاڑا بن گئے۔لیکن، زیادہ تر ہندو طبقوں کو جذباتی طور پر آپس میں جوڑنے کی یہ دوہری حکمت عملی اب شمالی گجرات میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ریاست میں سالوں سے چلی آ رہی بی جے پی کی حکومت سےبڑھتی مایوسی  اور تھکان کی وجہ سے تیز مزاج والے پاٹیداروں نے اب اقتصادی مورچے پر اس کی ناکامیوں کو سامنے رکھنا شروع کر دیا ہے۔اب وہ پارٹی کے دوہرےپن کو جس طرح سے اجاگر کر رہے ہیں، ویسا انہوں نے گزشتہ  تین دہائیوں میں کبھی نہیں کیا تھا۔

گنگلاسن کے گروپ میں سب سے عمر دراز رمیش پٹیل نے کہا، ‘پاٹیداروں کی اہم طور پر دو مانگ ہیں۔ پہلی، ریزرویشن پالیسی کو ختم کیا جائے یا ہمیں اس میں شامل کیا جائے۔ دوسری، ہم چاہتے ہیں کہ حکومت پرائیوٹ  تعلیمی اداروں کو بند کرے۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘ ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ بی جے پی نے ہندو و مسلم سیاست کے نام پر ہمارا استعمال کیا ہے۔ ہم ایک بار پھر اس جال میں نہیں پھنسیں‌گے۔ مودی بھلے خود چل‌کے آئیں اور سیدھے ہم سے درخواست کریں، لیکن ہم اس بار ان کی باتوں میں نہیں آئیں‌گے۔ یہ ہمارے بچّوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ ‘

یہ پوچھنے پر کہ آخر زراعتی بحران ان کے ایجنڈے میں سب سے اوپر کیوں نہیں ہے، تو وہ پہلے پریشان دکھے، لیکن بعد میں ان کے پاس اس سوال کا جواب تھا۔ ‘ کھیدوت (کسانوں) کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس کام میں صرف نقصان ہوتا ہے۔ ہمارے بچّوں میں سے کوئی بھی اب زراعت کا کام نہیں کرنا چاہتا۔ ‘

صاف ہے کہ ریاست کی سیاست ابھی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ گنگلاسن اور قریبی گاؤں کے پاٹیدار کافی جوش کے ساتھ ان طبقوں کے ساتھ مکالمہ کر رہے ہیں، جنہوں نے کبھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ان میں ٹھاکر جیسے او بی سی طبقہ اور رباری کمیونٹی کے لوگ شامل ہیں۔ تاریخی طور پر ان کے ساتھ پاٹیداروں کا ہمیشہ مقابلہ رہا ہے۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی باتچیت کر رہے ہیں۔

میہ سانا میں نرسنگ کالج چلانے والے ایک بااثر پاٹیدار دشرتھ پٹیل نے کہا، ‘ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بی جے پی کے خلاف لڑائی میں مضبوط مورچہ تیار کریں۔ اس کے لئے ہم سب کو یکجا ہونا ہوگا۔’یہ باتیں انہوں نے علاقے کے کئی طاقتور مسلمانوں اور ٹھاکروں کے ایک اجلاس کے ٹھیک بعد دی وائر کے ساتھ ایک بات چیت میں کہیں۔ گجرات انتخاب سے پہلے عام طور پر دکھائی دینے والا مذہبی پولرائزیشن اس بار شمالی گجرات میں نظر نہیں آ رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں پاٹیداروں کے غصےسے ہونے والے ممکنہ نقصان کو کم کرنے کے لئے بی جے پی اضافی محنت کر رہی ہے۔ نائب وزیراعلیٰ نتن پٹیل، خود میہ سانا سیٹ سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔پارٹی نے نقصان کو کم کرنے کے لئے ان کو اس مشکل لڑائی میں اتارا ہے۔اپنے خلاف مضبوط ہو رہی مخالفت  کو قابو میں رکھنے کے لئے بی جے پی کئی چالیں چل رہی ہے۔ سب سے پہلے، اس نے پچھلے کچھ مہینوں میں پاس رہنماؤں کو توڑنے کی کوشش کی۔لیکن، اس کا اثر الٹا ہوا۔ چیف پاس رہنماؤں، نریندر پٹیل اور پورا سوامی نے اکتوبر میں پارٹی جوائن کرنے کے اگلے ہی دن بی جے پی کے خلاف رشوت دینے کا الزام لگاکربی جے  پی کی مٹی پلید کر دی۔

دوسرے، حالانکہ، بی جے پی نے اس سے واضح طور پر انکار کیا ہے، لیکن سیاسی جانکاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی نے ہاردک کو بدنام کرنے کے لئے مبینہ ‘ سیکس سی ڈی ‘ اور دوسرے ویڈیو کو لیک کروانے کا ایک بڑا پروپگینڈہ  رچا ہے۔تیسرے، یہ پاٹیداروں کے درمیان کے داخلی انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی حامی، لیؤوا پٹیلوں کے درمیان پاس اور ہاردک پٹیل کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔

لیؤوا پٹیل پاٹیداروں کی ایک پسماندہ ذات ہے اور ہاردک کڈوا پٹیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی جے پی شہر میں رہنے والے ثروت مند اور متوسط  پاٹیداروں کو ایسے مہمات سے اپنے اکھاڑے میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔پہلی اور دوسری چال سے بھلے بی جے پی کو امید کے مطابق فائدہ نہ پہنچا ہو، لیکن تیسری چال کچھ حد تک کامیاب رہی ہے۔

دی وائر نے مختلف اقتصادی حیثیت والے کئی پاٹیداروں سے بات چیت میں محسوس کیا کہ وہ بی جے پی کی طرف جھک رہے ہیں۔احمد آباد اور گاندھی نگر میں تمام نوجوان طبقہ کے پاٹیداروں سے بات چیت کے دوران جو کچھ باتیں سننے میں آئیں، ان میں سے کچھ اس طرح تھیں :’ بی جے پی کو ایک اور موقع دیا جانا چاہئے ‘ یا ‘ کانگریس صرف مسلمانوں کے لیے کام کرے‌گی۔ ‘

شہروں میں ہندو بنام مسلم کی سیاست ابھی بھی پھل پھول رہی ہے۔ لیکن، اس شہری تاریخ کے متوازی گجرات کے گاؤں میں غصے اور ناامیدی کی کہانی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔پاٹیداروں کے غصے کو صرف ایک بااثر کمیونٹی کا رد عمل کہہ‌کر  خارج کر دینے سے ایک ایسی حکومت کی بڑی ناکامی چھپ جاتی ہے، جس کا سماجی پیمانوں پر مظاہرہ کافی مایوس کن رہا ہے۔