گراؤنڈ رپورٹ

گراؤنڈ رپورٹ: کانگریس ہو یا بی جے پی، مسلمان اُن کو شہری سے زیادہ ووٹر نظرآتے ہیں؛گجراتی مسلمان

تقریباً11فیصد مسلم ووٹر بی جے پی اور کانگریس سے ناراض نظر آ رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جو ان کے تحفظ اور ترقی کی گارنٹی دے سکے۔

Photo:Reuters

Photo:Reuters

 گجرات خاص طور سے سورت میں مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ یہ آپ کو ان کی اکثریت والے محلوں میں جانے سے نظر آ جائے‌گا۔ سورت کے جس نان پورہ علاقے میں آپ کھڑے ہیں۔ یہ یہاں کے سب سے پرانے محلوں میں سے ہیں،لیکن ترقی یہاں سب سے بعد میں آتی ہے۔آپ بس صفائی، سڑک، بجلی، پانی کی حالت دیکھ لیجئے آپ کو مسلمانوں کی دقت سمجھ میں آ جائے‌گی۔ ‘یہ باتیں ہمیں آصف خلیفہ نے بتائی۔ آصف میٹرک فیل ہیں اور کانٹریکٹ پر نوکری کرتے ہیں۔ سورت کے نان پورہ محلے کی گلیوں میں جب آپ گھسیں‌گے تو یہ بےحد تنگ اور گندگی سے بھرے ہوئے ملیں گے۔ یہاں زیادہ تر کباڑی والے، گاڑیوں کے میکینک، فرنیچر اور کھانےپینے کی دکانیں ہیں۔ سڑکوں پر گریس، لکڑی کی چھیلن، مرغے  مرغیوں کے پنکھ نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر گلیوں میں کیچڑ جمع رہتا ہے۔

باہر سے آئے صحافیوں کو دیکھ‌کر لوگ گندگی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس علاقے میں لمبے وقت سے کانگریس سے جڑے رہے نوجوان لیڈر مقدر رنگونی اس بحث کو سڑک، صفائی، نالے سے آگے تعلیم اور نوکریوں تک لے جاتے ہیں۔ مقدر رنگونی کباڑ کا کام کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘صفائی کی حالت تو بری ہی ہے، تعلیم اور نوکریوں میں مسلمان کی حالت زیادہ خراب ہے۔ ہمارے علاقے کے 60 فیصد سے زیادہ مسلمان بےروزگار ہیں۔ آپ کو تقریباً ہر گھر میں پڑھےلکھے بےروزگار مسلم نوجوان مل جائیں‌گے۔ یہاں پر مسلمانوں کے ساتھ دوطرفہ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ زیادہ تر نجی کالجوں میں مسلم لڑکے  لڑکیوں کو ایڈمیشن دینے میں بہانے بازی کی جاتی ہے تو وہیں ذاتی کمپنیوں میں تو پن کوڈ دیکھ‌کر نوکریاں دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ‘مشرقی سورت کے سلم میں’ہندو ومسلم ایکتا سماج‘سے وابستہ مقدرآگے کہتے ہیں،’ہماری حکومت کو سورت میں مسلمان دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ نچلی سطح کی سرکاری نوکریوں میں بھی مسلمان بہت کم ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ سورت کے کسی بھی سرکاری آفس یا بڑے پرائیوٹ آفس میں مسلمان ایک فیصد سے زیادہ کام نہیں کرتے ہیں۔ تھک ہار‌کر  پڑھےلکھے نوجوانوں کو چھوٹاموٹا دھندا کرنا پڑتا ہے۔ ‘

کچھ ایسا ہی ماننا سورت کے کساڈ میں رہنے والے 70سالہ محمد وسیم کا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘بی جے پی کی حکومت نے ریاست میں پوری طرح سے مسلمانوں کے وجود کو ہی مسترد  کر دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ بی جے پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ ہمارے ووٹ کے بغیر جیت سکتی ہے۔ جب وہ ہمارے ووٹ کے بغیر جیت جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں اور مسلم علاقوں سے ہٹ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی ہے۔ اتناہی نہیں آپ دیکھیں‌گے تو مسلم اکثریت علاقوں میں بہت سارے آزاد امیدوار کو بھی اتارا جاتا ہے۔ان کو تھوڑے پیسے کی لالچ دیا جاتا ہے اور یہ مضبوط مسلم امیدوار کا ووٹ کاٹنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر لوگ ہماری ہی کمیونٹی کے ہوتے ہیں۔ ‘

surat

فی الحال ان بیانات سے الگ اگر ہم ریاستی حکومت کے دعووں کی بات کریں تو وہ الگ کہانی کہتی ہے۔ گجرات میں اقلیتی مالی اور ترقی کارپوریشن کی مالی امدادی اسکیم کا 400کروڑ روپیے کا فنڈ ہے۔ اس کا مقصد اقلیتوں کے لئے چھوٹے کاروباروں اور خودکارروزگار کے لئے 3 لاکھ روپیے تک کی مالی امداد مہیّا کرانا ہے۔وہیں، بی جے پی اقلیتی مورچے کے  ریاستی صدر صوفی محبوب علی چشتی کے مطابق، گجرات میں بی جے پی کے 200 سے زیادہ شہر ی کانسلر مسلم ہیں اور اس میں تقریباً 100 چیئرمین مسلم ہیں۔ حج پر جانے والے مسلمانوں کی سب سے زیادہ درخواست گجرات سے آتی ہیں۔ 2014 سے پہلے گجرات کا کوٹہ محض 4 ہزار تھا۔ 2014 میں جب نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو گجرات کے حج مسافرین کا کوٹہ ہرسال بڑھایا۔ گزشتہ تین سالوں میں یہ کوٹہ 4 ہزار سے بڑھ‌کر 15 ہزار پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کی حالت ملک کے دوسرے مسلمانوں سے بہتر ہے۔گجرات کی سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی 9 فیصدی حصہ داری، گجرات پولیس میں 10.5 فیصدی مسلمان اور گجرات میں مسلمانوں کی خواندگی شرح 80 فیصدی ہے۔حالانکہ ان باتوں سے الگ سورت کے زیادہ تر مسلم شہری کانگریس کو ہی ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ اس میں سے بہتوں کا یہ دکھ ہے کہ کانگریس نے ان کے ووٹ کا استعمال کیا لیکن ان کے لئے کیا کچھ نہیں۔فی الحال اب جب کانگریس کےنائب صدر راہل گاندھی سافٹ ہندوتوا کی طرف قدم بڑھاکر گجرات کے تقریباً  ہر مندر میں درشن کے لئے جا رہے ہیں تو یہ فکر اور بڑھ گئی ہے۔

سورت کے سینئر کانگریس رہنما سلیم بھائی کہتے ہیں،’گجرات میں مسلم بڑی تعداد میں کانگریس کو ووٹ کرتے ہیں۔ حزب مخالف میں ہونے کے  باوجود مجھے اپنی پارٹی کانگریس سے یہ شکایت ہے کہ وہ مسلموں کے مسائل کو لےکے سڑک اور اسمبلی میں اتنی زور سے آواز نہیں اٹھاتی جتنی زورسے اس کو اٹھانا چاہئے۔ میرا ماننا ہے کہ اس پارٹی میں بھی کچھ پھول چھاپ کانگریسی آ گئے ہیں۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی ہندو ہیں وہ ہندو مندروں میں جائیں اس سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ بس وہ مسلمانوں کا خیال رکھیں یہی بہت ہے۔ لیکن فکر یہ ہے کہ ہماری ہی پارٹی کے پھول چھاپ لوگ ایسا نہیں چاہ رہے ہیں۔ اب مغربی سورت میں 18ہزار مسلمان ہیں وہاں مسلم امیدوار کو ٹکٹ ملا ہے جبکہ مشرقی سورت  میں نوے ہزار ہیں اور یہاں ٹکٹ نہیں ملا ہے۔ یہ کانگریس کے ساتھ اصلی مسئلہ ہے۔ ‘

سورت میں ٹور اینڈ ٹریولس کا کاروبار کرنے والے ساجد جمال کہتے ہیں، ‘گجرات کا مسلمان بڑی تعداد میں کانگریس کو ووٹ کرتا ہے لیکن ابھی گجرات میں کانگریس کی حکومت نہیں ہے لیکن اگر حزب مخالف کے کردار میں دیکھیں تو کانگریس ہے۔ اس کے پاس چنے ہوئے نمائندہ ہیں لیکن وہ نمائندہ مسلمانوں کو ان کا حق دلا پانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ آپ پورا گجرات اگر ہندو مسلمان کے نظریے سے دیکھیں تو آپ کو جانبداری صاف نظر آئے‌گی۔ میں اس کے لئے صرف بی جے پی کو ذمہ دار نہیں مانوں‌گا۔ اس کے لئے کانگریس بھی اتنی ہی ذمہ دار ہیں۔ کئی بار لگتا ہے ہم کانگریس سے جو نمائندہ چن‌کر بھیجتے ہیں وہ بھی ہمارے طریقے سے خیال نہیں رکھتے ہیں۔ وہ بھی بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں۔ ‘

فی الحال گجرات میں گزشتہ  22 سال سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ سورت بلدیہ میں تو گزشتہ  تیس سالوں سے بی جے پی کا تسلط ہے۔ شاید اس سبب زیادہ تر مسلم محلوں میں لوگ بی جے پی کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ایسے میں سپورٹ کے لئے مسلم ووٹروں کو کانگریس میں ہی امید نظر آ رہی تھی۔ حالانکہ ان کی فکر یہ بھی ہے کہ چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی، مسلمان ان کو شہری سے زیادہ ووٹر نظر آتا ہے۔پورے گجرات میں قریب 11 فیصد مسلم رائےدہندگان ہیں۔ لیکن اس بار ان کی حالت بےچینی بھری ہو گئی ہے۔ زیادہ تر لوگ ایسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جو ان کے تحفظ اور ترقی کی گارنٹی دے سکے۔لوگ کانگریس اور بی جے پی سے ناراض ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے گجرات میں ایسا اختیار نہیں دیا ہے۔ فی الحال سورت کے مسلمان منجھدھار میں ہیں۔