فکر و نظر

6 دسمبرکو ایودھیا میں رام بھکتی اتنی نہیں تھی جتنی مسلمانوں کے خلاف نفرت

1992 کی چھ دسمبر کو جو لاکھوں ہندو ایودھیا میں جمع ہوئے وہ کیا اچانک ہی ایک متشدد بھیڑ میں بدل گئے؟ کیا اچانک ہی ان کے اندر ابال آ گیا اور انہوں نے مسجد مسمار کردی؟ کیا یہ لمحاتی وحشت تھی؟

Photo : PTI

Photo : PTI

6 دسمبر ہندوؤں کے لئے شرمندگی ، توبہ ،معافی، غور وفکراور  ماتم کا دن ہونا چاہیے؛ فخر کا اورشان  کا نہیں۔ خاص طور سے ان کے لئے جو خود کو رام کا بھکت کہتے ہیں۔ کیونکہ آج ہی کے دن پچیس سال پہلے ان کے نام پر ان کی طرف سے خود کو رام بھکتوں کی فوج کہنے والوں نے ایک ایسا گھناؤنا کار نامہ انجام دیا تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے ہندو مذہب کا سر ہمیشہ کے لئے کچھ جھک گیا۔ وہ کارنامہ بز دلی کا تھا،دھوکے بازی کا تھا اور اس سے بھی بڑھ‌کر اپنے پڑوسیوں کے خلاف دل کی کدورت، نفرت اور تشدد کا تھا۔

6 دسمبر،1992 کو کیا ہوا تھا، ہم یاد کر لیں۔ پورے ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں ہندو ایودھیا میں جمع ہوئے تھے۔ انھیں جمع کیا تھا لال کرشن اڈوانی کی قیادت والی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشو ہندو پرشد، بجرنگ دل، بھارتی جنتا پارٹی نے۔ ہندوؤں کو بتایا گیا تھا کہ ان کے  پیارے بھگوان رام کی پیدائش جس مقام پر ہوئی تھی اس پر غیرمذہب کے لوگوں  نے قبضہ کر لیا تھا اور اس پر ایک مسجد بنا لی تھی۔ ان کے قبضے سے بھگوان کے مقام پیدائش  کو آزاد کرانا ہر ایک ہندو کا مذہبی فریضہ ہے، یہ ہمیں بتایا گیا۔اس کے پہلے گھر گھر سے اینٹ جمع کی گئی اور ایودھیا لے جائی گئی تھی۔ کہا گیا تھا کہ آپ کی اینٹوں سے بھگوان رام کا شاندار مندر بنے‌گا۔

مندر وہیں بنائیں‌گے کا نعرہ جو دے رہے تھے وہ اسی سانس میں کہہ رہے تھے کہ مسجد کو کچھ نہیں کیا جائے‌گا۔ ہم نے ان سے یہ نہ پوچھا کہ وہیں مندر کیسے بن سکتا تھا جب ابھی وہاں مسجد ہے!تو کیا ہمارے رہنما آدھاسچ بول رہے تھے جس کو جھوٹ سے بھی بڑا گناہ کہا گیا ہے؟کیا آدھاسچ بولنے کی وجہ سے ستیہ مورتی یدھشٹھر کو سزا نہیں بھگتنی پڑی تھی؟

کیا ہم سبھی جانتے تھے ہماری طرف سے عدالتوں کو، نیشنل انٹیگریشن کونسل کو اور باقی سب کو جو یہ کہا جا رہا تھا کہ 6 دسمبر کو تو صرف علامتی کار سیوا ہوگی، وہ جھوٹ تھا اور اصل ارادہ کچھ اور تھا؟1992 کی چھ دسمبر کو جو لاکھوں ہندو ایودھیا میں جمع ہوئے وہ کیا اچانک ہی ایک متشدد بھیڑ میں بدل گئے؟ کیا اچانک ہی ان کے اندر ابال آ گیا اور انہوں نے مسجد مسمار کردی؟ کیا یہ لمحاتی وحشت تھی؟

پچیس سال بعد ہمارے اندر یہ جرٲت ہونی چاہیے کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ سب کچھ آدھاسچ تھا، کہ ہمارے رہنماؤں نے تیاری کر رکھی تھی کہ مسجد گرا دی جائے۔ یہ بھی کہ ہم میں سے جو ایودھیا میں جمع ہوئے ان کے دل میں رام بھکتی اتنی نہ تھی جتنی مسلمانوں کے خلاف نفرت تھی۔ ہم رام کے تئیں اپنی بھکتی کی وجہ سے اتنا نہیں اکٹّھا ہوئے تھے بلکہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے اور ان کو سبق سکھانے کے لئے جمع ہوئے تھے۔یہ سب کچھ ڈھکا چھپا نہ تھا۔ لال کرشن اڈوانی جو ٹویوٹا گاڑی کو رام رتھ کی شکل دےکر پورا ملک گھوم رہے تھے، ان کے قافلے اور ان کے جلسوں میں لگنے والے نعرے رام کی بھکتی کے جتنے نہ تھے اتنے مسلمانوں کو گالی دینے والے تھے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں اور تب بھی جانتے تھے کہ جس کو رام کاجنم استھل کہا جا رہا ہے، وہ ہمارے آباواجداد کے لئے کبھی تیرتھ کا مقام نہ تھا۔ بلکہ اس احتجاج کے پہلے ہم میں سے زیادہ تر نے اس کا نام بھی نہ سنا تھا۔ہم نے ایک جھوٹ کی تعمیر کی اور اس میں خود کو یقین دلایا۔

جھوٹ یہ تھا کہ 1949 کے نومبر کی ایک رات اچانک اس مسجد میں جس کو بابری مسجد کہتے ہیں، بھگوان رام للا کا مجسمہ ظاہر ہوا۔ایسے جھوٹ ہم چھوٹی چھوٹی سطح پر اپنے گاؤں گھر میں ہوتے دیکھتے آئے ہیں۔ اچانک کسی جگہ کسی دیوتا کے مجسمہ کا ظاہر ہونا، کسی کے گھر پیپل کا بروا دیکھ اس مقام کو مقدس مان لینا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ جائیداد، زمین ہڑپنے کے طریقے ہیں۔اس لئے جب رام للا کو مسجد کے اندر نمایاں کیاگیا تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ اس مسجد کو ہڑپنے کے لئے کیا گیا فریب ہے۔ جنہوں نے کیا تھا، ان کو یہ پتا تھا اور بعد میں بڑی شان سے ان سب نے یہ اعلان بھی کیا۔

ہمیں معلوم تھا کہ ہم فیض آباد اور ایودھیا کے اس علاقے کے مسلمانوں کی عبادت کے مقام کو ہڑپ رہے ہیں۔ وہ بھی اس نام پر کہ ہم رام کو ان کا جنم استھل واپس دلا رہے ہیں!

یہ ایک بڑا جھوٹ تھا اور گناہ تھا۔ کیونکہ ہم کسی اور کے مقدس مقام پر دھوکے سے قبضہ کر رہے تھے۔ کیا کسی اور کے مقدس مقام سے ان کو بےدخل کرنا مذہب ہے؟ کیا یہ ہندوہونا ہے؟ کیا یہ رام بھکت کا اخلاق ہے؟ فریب، جھوٹ کا سہارا لینا؟دوسری بات یہ کہ رام کے پیدائشی مقام کو آزاد کرنے کا غرورکیا اپنے آپ میں گناہ نہیں ہے؟کیا ہم کسی تیرتھ استھل پر کسی حملہ یا تشدد کے جذبہ سے جاتے ہیں یا بھکتی کے جذبہ سے؟ کنبھ ہو یا بیدھ ناتھ دھام، پہنچ‌کے ہمارے دل میں عاجزی اور عقیدت جاگتی ہے یا جیت کا غرور اور تشدد؟جو 6 دسمبر کو ایودھیا میں لال کرشن اڈوانی اور ان کے معاونین کے کہنے پر اکٹّھا ہوئے تھے، وہ ایک بار ذاتی تجزیہ کریں کس جذبے سے گئے تھے وہاں؟کیا ان میں بہادری تھی؟ پھر 6 دسمبر کے بعد ان میں سے زیادہ تر نے آزاد کرائے گئے مقام کے تحفظ کے لئے وہاں رکنے کی جرات کیوں نہ دکھائی؟ کیوں سارے رہنما پہلے ہنسے، ایک دوسرے کو گلے لگایا، شاباشی دی اور بعد میں رونی صورت بناکے کہنے لگے کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے برا دن تھا؟اور جھوٹ بول رہا تھا؟ اور کون جھوٹ پر اعتماد کر رہا تھا؟

جو ہو، یہ طے ہے کہ 6 دسمبر کے بعد سے ہم یہ کہنے کی حالت میں نہیں رہ گئے کہ ہم اس مذہب کو ماننے والے ہیں جس نے گاندھی کو پیدا کیا تھا، ایک ایسا مغرور ہندو جس کو دنیا کے تمام مذہبوں کے بڑےبڑے لوگوں نے تعجب اور کچھ حسد سے دیکھا تھا۔ عیسائی ہوں یا مسلمان، سب نے اس ہندو کو اپنے وقت کا سب سے بڑا عیسائی اور مسلمان مانا۔ جس نے ساری کمیوں کے باوجود اپنے مذہب کو چھوڑنے سے انکار کیا۔ جس نے کہا کہ اس کے لئے رام نام سے بڑی کوئی دوا نہیں ہے۔گاندھی کا ہندو مذہب بہادروں کا تھا۔اس میں ٹھگ، فریب، دھوکے اور بز دلی کی کوئی جگہ نہ تھی۔ اسی لئے جب انہوں نے جنوبی افریقہ میں بھی وہاں کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تو اپنا ہر قدم، ہر فیصلہ کھلے عام اعلان کیا۔ اپنی تحریک کے ایک ایک مرحلے کو انہوں نے شائع کیا اور حکومت کو پہلے سے بتاکے ہی اس کی مخالفت شروع کی۔

گاندھی نے کہا کہ مجھے کسی سے ڈر نہیں جب تک میرے پاس رام نام ہے۔ یہی پیغام انہوں نے اپنے عوام کو دیا۔ ہتھیار نہیں، تشدد نہیں، رام نام ہی تمہارا ہتھیار ہوگا اور رام نام ہی تمہارا محافظ ہوگا۔گاندھی کا رام کسی جغرافیہ میں قیدنہیں تھا۔ وہ کوئی دو ہاتھوں، دو پیروں والا نہ تھا۔ وہ عالمگیر جذبہ ہے۔تلسی نے رام کو جس ایشور کا اوتار کہا ہے، جس کو بیٹا کی شکل میں حاصل کرنے کو راجا اور رانی نے ہزاروں برسوں کی منّت کی، اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

NetiNeti_apoorvanand

جو نجانند کو درد کا بہانہ بناتا ہے، جو رام کے نام پر خود اقتدار  پرقبضہ‌کرنا چاہتا ہے، اس کی بربادی بھی لال کرشن اڈوانی جیسی ہی ہوتی ہے۔ ابھی بھی ان کے لئے وقت ہے کہ وہ سچ بولنے کی جرات پیدا کر سکیں۔ اڈوانی جو کریں وہ ان کا معاملہ ہے۔ انہوں نے جو ہم ہندوؤں کی عقل سلب کر لی تھی، آج چوتھائی صدی گزر جانے کے بعد ہم اپنی اس کمزوری کی وجہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر پرائے کی جائیداد سے ہم دولتمند ہوتے ہیں تو اس میں ہماری کیا بہادری ہے؟ ہم نے اپنے رام کو اپنی بےوقعتی کے لئے جو آڑ بنایا، اس کی کیا تلافی ہے، اس پر غوروفکر کریں۔