‘جب میں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ یہ کوئی ایک پل،ایک گھنٹے، ایک دن، یا ایک ہفتے کا کام نہیں تھا۔ یہ تو برسوں سے چلے آ رہے سیاسی عمل کا اختتام تھا، اختتام بھی کیا کہئے کہ یہ عمل تو ابھی جاری ہے، سیاست آج بھی نفرتیں بانٹ رہی ہے۔’
ایک دھندلی سی یاد ہے۔میں بہت چھوٹا تھا۔ پاپا روز صبح کلینک نکل جاتے تھے اور شام کو لوٹتے تھے۔ لیکن یہ ان کا معمول نہیں تھا۔ایسے دن بھی آتے تھے جب وہ گھر پر ہمارے ساتھ دن بھر کھیلتےتھے۔میں دعا کرتا تھا ایسے دن روز آئیں۔ ان دنوں کو ‘کرفیو’والا دن کہا جاتا تھا۔جب کبھی یہ کرفیو کے دن دو تین روز لگاتار چل جاتے تھے تو پولیس کی گاڑیاں اعلان کرتی ہوئی گزرتی تھیں کہ کرفیو میں ڈھیل دی جائےگی۔چھوٹی سی عمر میں یہ بھی کسی عید سے کم نہیں تھا۔ پاپا کے ساتھ میں اور بڑے بھائی محلے کی دکان پر جاتے اور خریداری کرتے۔ دودھ کی گاڑیاں اور پولیس کا اعلان سب کتنا اچھا لگتا تھا۔
ایک بات جو یاد ہے وہ یہ کہ پاپا ممی اکثر کسی مسجد کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبار سے پتا چلتا تھا کہ کوئی بابری مسجد ہے رام مندر ہے اور کوئی رتھ ہے، اور ایک چیز ہے کارسیوک۔ میں اکثر ٹی وی پر رتھ دیکھتا اور سوچتا کی ایک دن میں بھی اس کی سواری کروں گا۔ آج سوچتا ہوں تو بس یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا کسی انسان کو اس رتھ پر نہ بٹھائے۔اس وقت والدین نے پاس کے ایک اسکول میں میراداخلہ کرایا کہ ‘کرفیو’کی حالت میں جلد گھر پہنچ سکوں۔پھر ایک دن سب لوگ گھر پر تھے، پاپا کلینک نہیں گئے تھے، پاس پڑوس کے سب لوگ گلی میں کھڑے بات کر رہے تھے۔ ریڈیو لگاتار چل رہا تھا۔ ایک غصہ، ایک ڈر، ایک عجب سی کیفیت تھی اس روز سب کے چہروں پر۔ کھانا شاید نہیں بنا تھا، ٹھیک سے یاد نہیں اب۔ پر ہاں اتنا یاد ہے کہ ‘بابری مسجد’ شہید ہو گئی یہ سب کہہ رہے تھے۔
آج میں جانتا ہوں کہ وہ دن 6 دسمبر 1992 تھا۔ یہ کوئی عام دن نہیں ہے، یہ بھارت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے ۔ جب میں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں، اور اپنے تاریخی مطالعےکو سامنے رکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ یہ کوئی ایک پل،ایک گھنٹے، ایک دن، یا ایک ہفتے کا کام نہیں تھا۔ یہ تو برسوں سے چلے آ رہے سیاسی عمل کا اختتام تھا، اختتام بھی کیا کہئے کہ یہ عمل تو ابھی جاری ہے، سیاست آج بھی نفرتیں بانٹ رہی ہے۔عام سوچ یہ ہے کہ بابری مسجد کو گرانے میں صرف بھاجپا، آرایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کا ہی ہاتھ تھا۔ لال کرشن اڈوانی، اشوک سنگھل جیسے نیتاؤں نے ہی ملک کی فضاؤں میں وہ زہر گھولا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ دنگوں میں جاں بہ حق ہوئے۔کانگریس، لیفٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس سے بری رکھا گیا ہے۔ پر کیا سچ میں ایسا ہے۔
1949 میں مسجد میں مرتی استھاپنا، 1986 میں مسجد کا تالا کھلنے اور 1992 میں مسجد گرائے جانے کے ارد گرد ہماری بحث ہوتی ہے۔اس موضوع کو بھارت کی تاریخ میں رکھ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بابری مسجد سیاسی مسئلہ کیسے بنا۔سیاستدانوں کو مذہب کی سیاست کا چسکا ایک لمبے تاریخی واقعات کے تجربے میں لگ چکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لئے راجیو گاندھی نے شاہ بانو کے کیس میں قانون بدلا۔اس کے عوض میں ہی ہندو ووٹ بینک کے لیے بابری مسجد کا تالا کھولا۔ غورطلب بات یہ ہے کہ اس سے نہ تو مسلمانوں کو تعلیمی یا معاشی سطح پر کچھ فایدہ ہوا اور نہ ہی ہندو کو۔سرکار روزگار مہیا نہیں کرا پا رہی تھی، اس ماحول میں نوجوان نسل کو فرقہ ورانہ تشدّد کا سہارا دے دیا گیا۔ کانگریس کی سرپرستی میں ہاشم پورہ اور میرٹھ میں پولیس نے مسلمانوں کو جاں بہ حق کیا اور اسکو دنگوں کا نام دیا۔ایسے میں باقی پارٹیاں اور لیڈر بھی یہ دیکھ رہے تھے۔ سنگھ نے اڈوانی کی قیادت میں ‘رام جنم بھومی’ کا مسئلہ اٹھا یا۔ اصل مقصد تھا، دھرم کے نام پر سیاست کرنا۔ کانگریس اب تک دو ناؤ پر سوار تھی، سنگھ پریوار کھل کر ہندو راشٹر کی بات کرنے لگا۔ لوگوں کے پاس اب نرم ہندوادیوں کے مقابل ‘گرم ہندتوا’ تھا۔ ایسے میں اڈوانی کا فارمولہ چل نکلا۔
راجیو گاندھی نے 1989 کے عام انتخابات کے لیے ریلی کی شروعات ایودھیا سے کی اور کہا کہ وہ ‘رام راجیہ’ لائیں گے۔ سنگھ نے موقع دیکھ لیا تھا۔ اڈوانی نے کہا وہ ‘رام مندر’بنائیں گے۔ اس دھرم کارڈ نے بھاجپا کو 88 سیٹ دلائی، پچھلے انتخابات میں انکے پاس فقط ایک سیٹ تھی۔ سنگھ کے منھ خون لگ چکا تھا۔ سرکار میں وہ حصہ دار ہوئے اور ‘رام مندر’ بنانے کے لئے رتھ یاترا شروع کی۔’لاٹھی گولی کھائیں گے، مندر وہیں بنائیں گے’کے نعرے کے ساتھ اڈوانی کا رتھ سومناتھ سے چلا اور جہاں سے گزرا فسادبرپاکرتا گیا۔اڈوانی کا رتھ بہار میں لالو پرساد یادو نے روک دیا ،لیکن کارسیوک ایودھیا پہنچ گئے۔ ان کارسیوکوں نے مسجد توڑنے کی کوشش کی جس پر سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے گولی چلوا دی۔ اس میں کارسیوک جاں بہ حق ہوئے۔ رتھ روکنے کے مسئلے پر ہی بھاجپا نے وی پی سنگھ کی سرکار کو گرا دیا۔ اب بھاجپا کو جیت قریب تر نظر آ رہی تھی۔
1991 میں انتخابات ہوئے۔ راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس نے ایک بار پھر سرکار بنا لی۔ اڈوانی ایک بار پھر کارسیوکوں کو لیکر چل پڑے۔ دو برس میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اتر پردیش میں اب بھاجپا کی سرکار تھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ تھے۔ صوبے کی سرکار نے مندر کے مسئلے پر ہی چناؤ جیتا تھا۔ کلیان سنگھ سرکار بابری مسجد کے چاروں طرف کی زمین کو سرکاری قبضے میں لے چکی تھی، تاکہ عدالت کا فیصلہ آنے تک وہاں مندر بنانا شروع کیا جا سکے۔ دوسری طرف وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اعلان کر چکے تھے کہ 6 دسمبر کو ہونے والی کارسیوا پھولوں کے ساتھ نہیں ہوگی بلکہ مسجد کو منہدم کر کے ہوگی۔ دیگر سیاسی پارٹیاں وزیراعظم نرسمہا راؤ سے یہ مانگ کر چکے تھے کہ کلیان سرکار کو برخاست کیا جائے۔ پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ کلیان سنگھ نے عدالت کو بھروسہ دلایا کہ مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جائےگا۔ راؤ نے بھی بھروسہ دلایا کہ ہر صورت حال سے نپٹنے کے لئے فوج تعینات کی گئی ہے۔
6 دسمبر 1992 بی بی سی نے گیارہ بجے صبح پہلا گمبد گرائے جانے کی خبر ریڈیو پر پڑھی۔ ملک کے امن پسند لوگ صدمے میں تھے۔ صوبے کی سرکار نے کچھ کیا اور نہ ہی راؤ سرکار نے۔ آخر انکو کچھ کرنا ہی نہیں تھا۔ شام 6 بجے تک پوری مسجد خاک میں ملا دی گئی۔
Categories: فکر و نظر