میرا ماننا ہے کہ شمبھو لال ریگر نے صرف افرازل کا ہی قتل نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے آئین کا بھی قتل کر دیا ہے۔
راجستھان کے راجسمند میں بنگالی مزدور افرازل کی ایک دلت شمبھو لال ریگر عرف شمبھو بھوانی کے ذریعے کیے گئے وحشیانہ قتل سے میں ذاتی طور پر بہت تکلیف محسوسکر رہا ہوں، کوئی انسان کیسے اس بےرحمی سے کسی بےقصور، نہتےکو قتل کر سکتا ہے، یہ انتہائی پریشان کرنے والا غیر انسانی کام ہے، میں اس کی سخت مذمت کرتا ہوں اور شرمندگی کا اظہار کرتا ہوں کہ میں اس طبقے سے آتا ہوں، جس سے قاتل کا تعلق ہے۔
یہ اور بھی تکلیف دہ بات ہے کہ قاتل درندے نے اس برےکام کے لئے 6دسمبر کا دن چنا، جو بابا صاحب امبیڈکر کے آئینی کام کو یاد کرنے کا دن ہے، جس دن ہم لوگ منڈل میں دلت مسلم اور تمام لوگ ملکر خون کاعطیہ کر رہے تھے، اس دن دلت سماج کا ہی ایک شخص ملحقہ ضلع میں ایک بے قصور مسلمان کا خون بہا رہا تھا، یہ واقعہ میرے لئے شرمندگی کی وجہ بن گئی ہے، جس طریقے سے دھوکے سے بلاکر 50 سالہ افرازل کو مارا گیا، اس بزدلانہ کام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، میں قاتل دلت نوجوان شمبھو بھوانی پر لاکھوں لعنتیں بھیجتا ہوں اور خود کو قاتل کے کمیونٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے گنہ گار محسوس کرتا ہوں۔
آخر اس ملک کا دلت کس خودکش راہ پر جا رہا ہے؟ ہندو توا کا یہ بھگوا جہادی راستہ کیا دلت نوجوانوں کے لئے مناسب ہے؟ کیا بابا صاحب کی اولادوں کو آئین کو طاق پر رکھکر ایسے برےکام کرنے چاہئے؟ میرا ماننا ہے کہ شمبھو لال ریگر نے صرف افرازل کا ہی قتل نہیں کیا بلکہ ہندوستانی آئین کا بھی قتل کر دیا ہے، اس نے دلت اور مسلم جیسے مظلوم اور محروم طبقے کی دوستی کا بھی قتل کر دیا ہے، اس کے برےکام سے ان دونوں طبقوں کے درمیان کے جذبات کو ٹھیس پہنچا ہے۔یہ دکھ کی بات ہے۔
میرا ماننا ہے کہ یہ شمبھو لال نامی قاتل ایک مسلم مخالف نظریہ کے لوگوں کے ذریعے تربیت یافتہ دہشت گرد ہے، جس نے ہندوستانی جمہوریت کو چیلنج کیا ہے، اس کا کام ملک سے غدار ی کے خانے میں آتاہے۔ راجستھان پولیس اس کو محض ایک نشے کا عادی نوجوان کے ذریعے کیا گیا سرپھرا واقعہ مان رہی ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ کسی سرپھرے کا کام نہیں ہے، یہ اس زہریلے نظریہ کا نتیجہ ہے جو ملک کے نوجوانوں میں اپنے ہی ہم وطنوں کے متعلق نفرت بھر رہا ہے۔ یہ ہندو توا کی نفرت کی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک بےقصور پردیسی مسلمان کو ناحق ہی قتل کا شکار بناکر اس کو لو جہاد کے بدلے کی شکل دینے کی شرارت کی گئی ہے۔
افرازل کا قتل کسی رنجش یا رومانوی تعلق یا غصے کا نتیجہ نہیں ہوکر ایک مذہبی اقلیت اور اکیلے پردیسی شخص کا شکار کرنے جیسا ہے، جس کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک متعصّب ہندو نے اپنی بزدلی کا نشانہ بنایا، اس کا کوئی جرم نہیں تھا، اس کے قتل کو لو جہاد، اسلامی دہشت گردی، دفعہ 370اور رام مندر سے جوڑکر جس طرح سے اس کو’ ہندو شوریہ ‘ کا رنگ دیا گیا ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ قاتل شمبھو کی تربیت ہوئی ہے اور برین واش کیا گیا اور اس کے ذہن میں مسلمانوں کے لئے گہری نفرت بوئی گئی، غالباً کسی بھگوا کیمپ میں اس کو اس دہشت گرد واقعہ کو کرنے کی پوری ٹریننگ ملی ہے، ورنہ بغیر بات کوئی کسی محنت کش انسان کو کیوں نشانہ بناتا اور کیوں اس خوف ناک واردات کو لائیو کرنے کی گستاخی کرتا؟
آج راجسمند کا دورہ کرنے اور واردات سے متعلق ویڈیو دیکھنے اور حقائق کو سمجھنے کے بعد مجھے یہ واضح طور پر لگتا ہے کہ شمبھو لال ریگر نامی اس دلت نوجوان کے پیچھے مسلم مخالف نظریہ کا گروہ ہے، یہ عام قتل نہیں ہے، یہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا نتیجہ ہے، شمبھو نامی قاتل نہ صرف تربیت یافتہ ہے بلکہ اس کی زبان کا انداز بھی مکمل طورپر اس ملک کے ہندتووادی طاقتوں کی ہے، یہاں تک کہ قاتل درندے نے اپنے برےکام کو جائز ٹھہرانے کے لئے جو ویڈیو بناکر وائرل کیاہے، ان میں وہ بھگوا پرچم کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے، اس نے جو بھی باتیں کہی ہیں، وہ بھی سنگھ کے نظریے کی باتیں ہی ہیں، اس لئے اس کے ہندووادی تنظیموں سے رشتے کو انکار نہیں جا سکتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ اس واقعہ سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس ملک کے دلت نوجوانوں کو منصوبہ بند طریقے سے مسلموں کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے، دونوں طبقوں کے بیچ مستقل دشمنی اور عداوت کی بنیاد ڈالی جا چکی ہے، تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ دلت طبقے کے نوجوان اس آدم خور ہندو توا کی چپیٹ میں آ رہے ہیں اور وہ ایک خودکش ہندو توا کے مُہرا بنتے جا رہے ہیں۔
سب سے تکلیف دہ اور مایوسی کی بات یہ ہے کہ اس خطرہ کو بام سیف(دلت بہوجن مول نواسی سنگٹھن ) سمجھنے کو تیار نہیں ہے، اس لئے وہ راجسمند ضلع میں ہوئے افرازل کے بے رحم قتل کے خلاف کچھ بھی بول نہیں پا رہے ہیں، امبیڈکروادیوں کی یہ خاموشی ان کی عمومی بز دلی کو دکھاتی ہے، ان کی یہ خاموشی دلت سماج کو بھگوا جہاد کے خطرہ کی طرف دھکیل دےگی۔ میں دوبارہ راجسمند کے اس واردات کی سخت مذمت کرتا ہوں اور بےرحم قاتل شمبھو بھوانی کے خلاف سخت سے سخت کارروائی اور سزا کی مانگ کرتا ہوں، مغربی بنگال میں رہ رہے افرازل کی فیملی سے معافی مانگتا ہوں کہ ایک دلت نے یہ براکام کرکے ہم سب کو شرمندہ کیا ہے۔میں افرازل کی فیملی کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہوں اور ان کے انصاف کی لڑائی میں ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔
(مضمون نگار راجستھان میں مقیم سماجی کارکن اور صحافی ہیں۔)