کون سی پارٹی اس انتخاب میں بازی مارےگی یہ تو 18 دسمبر کو پتا چل جائےگا، لیکن صرف ٹرن آؤٹ کی بنیاد پر اس انتخاب کی پیشین گوئی کرنا شاید جلدبازی ہوگی۔ چلتے چلتے ایک آخری بات ؛ گجرات میں ہی 1980 کے انتخاب میں 1975 کے اسمبلی انتخاب کے مقابلے رائے دہندگی میں 12 فیصد کی کمی آئی تھی۔
گجرات الیکشن کے پہلے مرحلے میں شام پانچ بجے تک تقریباً 68 فیصد ووٹ پڑے، جو کہ 2012 کے 71 فیصد سے تھوڑا کم ہے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ کے کم رہنے کی الگ الگ طرح سے وضاحت ہو رہی ہے۔ کچھ جانکاروں کا ماننا ہے کہ اگر ووٹر ٹرن آؤٹ پہلے کے مقابلے میں بڑھا تو اس کو حکومت کے خلاف غصے کی لہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور حکومت بدل جاتی ہے۔ 2014 لوک سبھا انتخاب اور اسی سال اتّر پردیش کے انتخاب میں یہ دیکھنے کو بھی ملا۔ لیکن ہر بار ایسا ہو اس کی گارنٹی نہیں۔ 2012 کے گجرات انتخاب کو ہی دیکھیں تو 2007 کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ رائے دہندگی ہوئی لیکن حکومت نہیں بدلی۔
ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اگر کم رائے دہندگی ہوئی ہے تو حکمراں پارٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ دلیل ہے کہ کم رائے دہندگی کا مطلب ہے کہ لوگوں میں موجودہ حکومت کے خلاف کوئی خاص غصہ نہیں ہے یا پھر حزب مخالف پارٹی رائےدہندگان میں کوئی جوش نہیں جگا پائی۔ گجرات میں ہی 2002 کے مقابلے 2007 میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں 2 فیصد کی گراوٹ تھی اور پھر سے بی جے پی نے حکومت بنائی تھی۔ اس بنیاد پر ایک بار پھر گجرات میں لگاتار چھٹی بار بی جے پی کی حکومت بننے کا امکان جتایا جا رہا ہے۔
بہر حال، گجرات انتخاب کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن رائے دہندگی کے دن ہم نے گجرات کے ہی کچچھ ضلع کے کچھ گاؤں میں لوگوں سے بات کی۔ اس کے علاوہ راجکوٹ ضلع کے ایک گاؤں کے لوگوں سے بھی ہماری بات ہوئی۔ اس گاؤں میں ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی 27 نومبر کو ہوئی ریلی سے پہلے گئے تھے اور ایک بار پھر رائے دہندگی کی شام پر وہاں دوبارہ گئے تاکہ یہ جان سکیں کہ پہلے مرحلے کی انتخابی تشہیر ختم ہونے کے بعد لوگوں کے خیالات میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے یا نہیں؟ شروع کرتے ہیں کچچھ ضلع سے:
شام 5 بجے کے پاس راپڑ، کچچھ ضلع کے ایک گاؤں میں کچھ لوگ چبوترہ پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ان سے بات کرنی شروع کی۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ انتخاب 50-50 ہے۔ انہوں نے وہیں ووٹ کیا تھا جہاں وہ پہلے کرتے تھے یعنی بی جے پی کو۔ کچھ منٹ بات کرنے کے بعد ایک گاڑی آئی، اس شخص نے ہمیں بتایا کہ آپ ان سے (گاڑی چلا رہے شخص سے) بات کیجئے، وہ زیادہ بتا پائیںگے۔ وہ ہمارے جان کار ہیں اور ایم ایل اے کے قریبی ہیں (موجودہ ایم ایل اے بی جے پی سے ہے)۔
ہم نے گاڑی والے شخص سے بات کی۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ سیٹ وہ 5000 سے 8000 ووٹ سے جیت جائیںگے، اور ریاست میں اس بار بھی بی جے پی کی حکومت بن جائےگی، ہاں سیٹیں ضرور کچھ کم ہو جائیںگی۔ لوٹتے ہوئے ہم نے پھر گاؤں کے کچھ اور لوگوں سے بات کی اور پوچھا کہ اس بار کیا حالت رہےگی انتخاب میں؟ انہوں نے کہا، یہ سیٹ مشکل ہے، کیونکہ بہت لوگوں نے کانگریس کو ووٹ دے دیا۔ میں نے پوچھا-” اور آپ نے کہاں ووٹ دیا “؟ ‘ کانگریس ‘ ان کا جواب تھا۔
اب بات راجکوٹ کے اس گاؤں کی جہاں ہم پچھلے مہینے کی 26 تاریخ کو گئے تھے۔ اس گاؤں کے لوگ اپنی خراب معاشی حالت کے چلتے حکومت سے ناراض تھے۔ گاؤں والوں میں بیشترکسان تھے جو الگ الگ ذاتوں سے تھے۔ وہ تمام پہلے بی جے پی کو ووٹ کرتے تھے لیکن اس بار کانگریس کو ووٹ کرنے کا دل بنائے ہوئے تھے۔ قتل کی رات یعنی ووٹنگ والے دن سے قبل شام کو ہم پھر سے اس گاؤں میں گئے اور جاننے کی کوشش کی کہ کہیں انتخابی تشہیر ختم ہوتے ہوتے ان کا دل تو نہیں بدل گیا۔ جواب نہیں میں ملا۔ آج شام کو پھر سے ان میں سے کسی کو فون ملایا، جواب ملا کہ ووٹ وہیں دیا جہاں پہلے طے کر لیا تھا، یعنی کانگریس کو۔
مگر ایسا ایک دم نہیں ہے کہ ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملا ہو جس نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہو۔ بہت سارے ایسے لوگ بھی ملے جنہوں نے کھلکے کہا کہ بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جو پہلے کانگریس کو ووٹ دیتا رہا ہو اور اس بار بی جے پی کی حمایت میں چلا گیا ہو۔ یہ تین مثالیں یہاں دینے کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ کانگریس جیت رہی ہے۔ ویسے بھی کچھ مثالوں کے ذریعے ایک ریاست کے انتخاب کی پیشین گوئی کرنا درستہے، وہ بھی اس ریاست میں جہاں پر حکمراں پارٹی پچھلے 22 سالوں سے حکومت میں ہو، حزب مخالف کمزور ہو اور ملک کے وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے چانکیہ مانے جانے والے نیشنل لیڈر وہیں سے آتے ہوں۔
کون سی پارٹی اس انتخاب میں بازی مارےگی یہ تو 18 دسمبر کو پتا چل جائےگا، لیکن صرف ٹرن آؤٹ کی بنیاد پر اس انتخاب کی پیشین گوئی کرنا شاید جلدبازی ہوگی۔ چلتے چلتے ایک آخری بات ؛ گجرات میں ہی 1980 کے انتخاب میں 1975 کے اسمبلی انتخاب کے مقابلے رائے دہندگی میں 12 فیصد کی کمی آئی تھی۔ لو ٹرن آؤٹ والے اصول کے مطابق موجودہ حکومت کو ٹکنا چاہیے تھا لیکن اس کے الٹ حکومت بدل گئی تھی۔
(مضمون نگاراشوکا یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں اور ملک کے کئی ریاستوں میں انتخابی تجزیے کا کام کر چکے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر