’جب تک گاؤں میں کھیلتی تھی تب تک میرے گاؤں کے لوگوں اور رشتہ داروں کو اتنی دقت نہیں تھی۔ لیکن جب کھیلنے کے لئے باہر جانے لگی،اس دوران مجھے جینس اور ہاف پینٹ پہننا پڑا تو مذہب کے نام پر لوگوں کی ناراضگی سامنے آنے لگی۔‘
ہندوستانی خاتون ٹیم گزشتہ مہینے ایران میں ہوئے ایشین کبڈی چمپین شپ میں ایک بار پھر فاتح بنی۔ چمپین شپ میں ہندوستانی مرد ٹیم کے سر بھی جیت کا سہرا بندھا۔ مردوں کا یہ دسواں تو خواتین کا پانچواں چمپین شپ تھا۔ ہندوستانی خاتون ٹیم میں صرف ایک مسلم خاتون کھلاڑی بہار کی شمع پروین تھیں۔ شمع نے بہار کے پٹنہ ضلع کے ایک گاؤں دریاپور سے چمپین بننے تک کا سفر طے کیا ہے۔شمع ٹیم میں ریڈر اور ڈیفنڈر دونوں ہی کرداروں کو نبھاتی ہیں۔ کبڈی کے کھیل میں ایشین چیمپین شپ ایک طرح سے ورلڈچمپین شپ جیسا ہی مرتبہ رکھتی ہے کیونکہ اس کھیل کی بڑی بڑی ٹیمیں ایشیا سے آتی ہیں۔
دی وائر نے جب شمع سے پوچھا کہ اس چیمپین شپ میں ان کے لئے سب سے یادگار اور رومان پرور لمحہ کیا تھا، تو انہوں نے کہا، “ملک کے لئے کھیلنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا اور یہی میرے لئے سب سے بڑی بات تھی۔اس چمپین شپ سے مجھے کئی تجربےہوئے جو آگے کام آئیںگے۔ “وہیں چمپین شپ سے جڑی سب سے اچھی بات شیئرکرتے ہوئے شمع کہتی ہیں، “پاکستان، ایران جیسے مسلم ممالک کی لڑکیوں کو کھیلتے دیکھکر بہت اچھا لگا۔ ان ممالک کے مقابلے ہندوستان کی مسلم لڑکیاں بہت پیچھے ہیں۔ کھیل میں مسلم لڑکیاں کم سامنے آ رہی ہیں، یہ بدقسمتی ہے۔ “
شمع کو ایک ساتھ ڈھیر ساری مسلم لڑکیوں کو کھیلتے دیکھنا اس لئے بھی اچھا لگا کیونکہ ایک لڑکی،خاص طورسے مسلم سماج سے آنے والی لڑکی کی وجہ سے اس نے خود اپنے رشتہ داروں اور سماج کے طعنوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔ وہ بتاتی ہیں،”جب تک گاؤں میں کھیلتی تھی تب تک میرے گاؤں کے لوگوں اور رشتہ داروں کو اتنی دقت نہیں تھی۔ لیکن جب کھیلنے کے لئے باہر جانے لگی،اس دوران مجھے جینس اور ہاف پینٹ پہننا پڑا تو مذہب کے نام پر لوگوں کی ناراضگی سامنے آنے لگی۔”
شمع کی کہانی عامر خان کی مشہور فلم دنگل سے تھوڑی ملتی جلتی ہے۔ اس فلم کے بارے میں شمع کہتی ہیں یہ فلم دیکھکر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ میری ہی کہانی ہے۔شمع کے پہلے کوچ ان کے والد محمد الیاس رہے ہیں۔ الیاس نے اپنی تینوں بیٹیوں حنا، شمع اور سلطانہ کو کبڈی کے میدان میں اتارا۔ حنا نے بھی قومی سطح تک کے ٹورنامینٹس میں حصہ لیا ہے۔ دی وائر نے جب ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو بہار کا مہاویر سنگھ فوگاٹ کہا جا سکتا ہے؟
اس کے جواب میں الیاس کہتے ہیں، “میری کہانی مہاویر سنگھ جیسی ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ مہاویر فوگاٹ سے میری کہانی الگ ہے کیونکہ ایک تو میں کوئی پیشہ ور کھلاڑی نہیں اور دوسرا یہ کہ میں نے بیٹوں کے رہتے بیٹیوں کو آگے بڑھایا۔ لیکن ان سے میری کہانی اس لئے ملتی ہے کہ مجھے بیٹیوں کو یا یوں کہیے کہ لڑکیوں کو کھیل میں آگے بڑھانے میں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ “
الیاس کے ذریعے بیٹیوں کو اس کھیل میں اتارنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ انھوں نے 1992 میں اپنے گاؤں میں دوستوں کے ساتھ مل کر کھیل سمیت دوسرے پروگرام کا انعقاد شروع کیا تھا۔یہ سلسلہ 2001 تک مسلسل چلا۔ اس میں ان کے گاؤں کے آ س پاس کے علاقے سے لڑکیوں کی کبڈی ٹیم تو آتی تھی لیکن انھیں اس بات کا ملال رہتا تھا کہ ان کے گاؤں کی کوئی خاتون کبڈی ٹیم اس میں حصہ نہیں لیتی۔ ایسے میں انھوں نے کافی کوشش سے اپنے گاؤں کی لڑکیوں کی ٹیم تیار کی لیکن یہ ٹیم بھی بنتی بگڑتی رہی۔ وقت کے ساتھ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی میدان میں اتارا۔
وہ آگے کہتے ہیں، “سال 2001 کے بعد کھیلوں کا انعقاد باقاعدہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس بیچ اپنی بیٹیوں، خاص کر شمع کے کھیل سے میری خاتون ٹیم بنانے کا سویا ہوا خواب پھر جاگا۔ اس میں،میں کامیاب بھی رہا۔ گھر اور سماج نے مذہب کے نام پرروکنا چاہا لیکن میں نے مخالفت کے باوجود اپنی بیٹیوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ لیکن میری سوچ کبڈی ٹیم بنانے اور ان کو چلانے بھر کی تھی۔ میری بیٹی ایشین چمپین شپ کا میڈل میرے گلے میں ڈال دےگی یہ تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ “
اپنے ذریعے سامنا کئے گئے چیلینجز کے بارے میں شمع بتاتی ہیں، “شروعات میں گاؤں میں لڑکیوں کے کھیلنے کے لئےمیدان نہیں مل پایا۔ ہم گاؤں میں درجن بھر میدانوں میں کھیل چکے ہیں۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ لوگوں نے ہمارے میدان پررفع حاجت کے لیے استعمال کر لیا۔ میدان پر بلیڈ اور کانچ کے ٹکڑے پھینکے ملتے تھے۔ کبڈی کھیلنے والی لڑکیاں اور ان کی مدد کرنے والے میرے والد گاؤں والوں کی نظروں میں دنیا کے سب سے بےکار لوگ تھے۔ لیکن میری کامیابی کے بعد ان کی نظر اب الٹ گئی ہے۔ایک الگ ہی شکل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ابھی میں ایران سے جیتکے آئی تو انہوں نے میرا پرجوش استقبال کیا۔ اب سب مجھے مبارکباد دیتے ہیں۔ “
جب شمع نے ریاستی سطح کے ٹورنامینٹس میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت کا سب سے یادگار لمحہ 2009 میں بھوج پور میں کھیلے گئے سب جونیئر ٹورنامینٹس کا ہے۔ تب بہار کبڈی یونین کے سکریٹری کمار وجے نے شمع کے کھیل کو دیکھکر ان کو سو روپیے کا انعام دیا تھا۔کھیل سے جڑی پہلی بڑی خوشی شمع کے لئے یہی تھی۔ شمع اور ان کے والد محمد الیاس دونوں ہی شمع کی کامیابی میں کمار وجے کو سب سے اہم مانتے ہیں۔
شمع ایک پروفیشنل کھلاڑی کے بطورخواتین کی پروکبڈی لیگ کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی پڑھائی بھی پورا کرنا چاہتی ہیں۔ ابھی وہ گریجویشن دوسرے سال کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ ایشین کبڈی چمپین شپ سے آنے کے ٹھیک بعد انہوں نے گریجویشن دوسرے سال کے امتحان دئے۔ شمع نے بتایا کہ وہ کچھ وقت کے لئے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم آل انڈیا اسٹوڈینٹس فیڈریشن سے بھی جڑی رہیں لیکن فی الحال اب ان کا پورا فوکس کھیل پر ہے۔
کبڈی کے کھیل میں زیادہ سے زیادہ لڑکیاں سامنے آئیں، اس کے لئے ضروری چیزوں کے بارے میں بتاتے ہوئے شمع کہتی ہیں، “سب سے پہلے تو پیرینٹس لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے کا موقع دیں۔ گاؤںسماج ان کو کھیلنے کے لئے محفوظ میدان دے۔ محفوظ میدان لڑکیوں کو اس کھیل میں آگے بڑھانے کی پہلی ضرورت ہے۔ اور جو اس کھیل میں آنا چاہتی ہیں وہ پورے جنون کے ساتھ آئیں۔ “
Categories: گراؤنڈ رپورٹ, ویڈیو