عورت کوئی چیز یا جسم محض نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اورزندہ سماجی اکائی ہے جس کوعزت کے ساتھ زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔
یہ کیسا سماج ہے جہاں زندہ انسان کی کوئی قیمت نہیں لیکن مردہ انسان کی عزت کی حفاظت کے نام پر لوگ سڑک پر اتر آتے ہیں، توڑپھوڑ کرتے ہیں، یہاں تک کہ تشدد کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں اور عورت کی عزت کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ برداشت نہیں کی جائےگی کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔لیکن جب راجستھان کے جھالاواڑ میں7سالہ نابالغ کے ساتھ اس کے ہی باپ نے بدکاری کی تو کہیں کوئی شور نہیں ہوا۔گڑگاؤں میں16سال کی لڑکی جو ایک ہسپتال میں علاج کے دوران بستر پر لاچار پڑی تھی، اس سے دو مرد نرسوں نے بدکاری کی کوشش کی۔
دہلی کے میکس ہسپتال نے وقت سے پہلے پیدا ہوئے دو جڑواں بچّوں کو مردہ بتاکر پالی تھین بیگ میں ڈالکر ان کے سرپرستوں کو سونپ دیا۔ آخری رسومات کے دوران پتا چلا کہ ان میں سے ایک بچہ زندہ ہے۔کولکاتہ کے ایک مشہور اسکول میں چار سال کی بچّی سے بدکاری کرنے کا معاملہ سامنے آیا، کیوں تب لوگوں کا خون نہیں کھولتا، ان کی حمایت میں کوئی آواز کیوںسنائی نہیں دیتی؟۔
حال ہی میں این سی آر بی کے ذریعے جاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ2015کے مقابلے 2016 میں ریپ کے واقعات میں 12.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور خواتین کے خلاف جرائم میں 2.9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعات کبھی اس نام نہاد مہذب سماج کی پریشانی یا فکر کا سبب کیوں نہیں بنتے؟۔
یومِ آئین ، یومِ انسانی حقوق، یومِ اطفال، یومِ خواتین اور بھی نہ جانے کتنے دن ایک طےشدہ تاریخ کو منا کر اپنے فرض کو نبھانے کا دعویٰ کرنے والا یہ سماج خود پر فخر محسوس کرتا نظر آتا ہے۔یہ سماج اپنی تاریخ اورتہذیب و ثقافت کی تعریف کرتے نہیں تھکتا لیکن اس میں رہنے والی ‘ آدھی آبادی ‘ کو تو انسان کا درجہ بھی حاصل نہیں ، اس کا کیا؟
وہ تو روز گلی، سڑک، دفتر، گھر میں کسی نہ کسی کے ذریعے استحصال کا شکار ہوتی نظر آتی ہے، پھر چاہے وہ2مہینے کی نوزائیدہ ہو یا3سال یا 12سال یا پھر 60 سال کی کوئی عورت۔ پھر نہ اس کا مذہب معنی رکھتا ہے، نہ ذات، نہ زبان، نہ اور کچھ۔شاید اسی لئے کوئی سیاسی جماعت یا پریشر گروپ بھی کوئی آندولن نہیں کرتا، نہ سماج کے لوگ دھرنا ،مظاہرہ کرتے ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2016 میں ایک دن میں ریپ کے 106 واقعات ریکارڈ کیے گئے اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے واقعات میں پچھلے سال کے مقابلے میں 82 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ہم خود کو جانوروں سےاشرف ثابت کرتے آئے ہیں لیکن کیا سچ میں ہم ہیں؟ یقینی طور پر چرند و پرندبھی کسی دوسرے کے بچوں کے تحفظ کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے، ہم سے زیادہ درد مندی اور انسانیت تو ان میں نظر آتی ہے۔
ہم اونچی سوچ کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کٹھ دلیلی، بے حسی، اور غیر انسانی صفات ہم میں گھر کر چکی ہیں۔ یہ کس طرح کی خاموشی ہے؟امرتیہ سین نے اپنی کتاب ‘ آرگیو منٹٹیو انڈین ‘ میں ذکر کیا ہے کہ ہندوستان میں دلائلو منطق کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ ہندوستانی رزمیہ بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہندوستانیوں کو بولنا بہت پسند ہے، پھر ان واقعات پر خاموشی کیوں؟
ایسا کہا جاتا ہے کہ دنیا میں نیوزی لینڈ پہلا ملک بنا جس نے 1894 میں عورتوں کو ووٹنگ کا حق دیا، اس کے بعد 1914 میں فن لینڈ اور ناروے نے، 1920 میں امریکہ نے اور 1928 میں برطانیہ نے عورتوں کو یہ حق دیا۔خواتین کو ذہنی طور پر آزاد بنانے کے لئے ان کی تعلیم، صحت اور امپاور منٹ کی پرزور وکالت کی گئی۔انگلس نے اپنی مشہور کتاب ‘ دی اوریجن آف دی فیملی پرائیویٹ پراپرٹی اینڈ دی اسٹیٹ ‘ میں خواتین کے استحصال کی اصل وجہ ذاتی جائیداد اور سرمایہ داری کی ترقی کو بتایا۔ان کے مطابق خواتین کی جسمانی اور جنسی محنت اولاد کی پیدائش، فیملی اور ذاتی جائیداد کی دیکھ بھال کے لئے کافی مانا جاتا ہے۔ذاتی جائیداد کے چلن اور مرد کے ہاتھوں جائیداد کی تشکیل نےعورت کے وجود کی شناخت کو حاشیے پر لا دیا۔علمی بحث و مباحثے سے خواتین کو ہمیشہ ہی الگ رکھا گیا تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد اور عورت میں برابری ہونی چاہئے لیکن برابری صرف برائے نام نہیں بلکہ حقیقی طورپر ہونی چاہئے۔ساتھ ساتھ سماج اورخاندان میں خواتین کو مردوں کی جائیداد اور جنسی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ مانے جانے کی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔مرد کے ذریعے اپنی ہر خواہش اس پر تھوپ دی جاتی ہے۔ ایسے میں عورت اپنےآپ کو فیملی میں محفوظ محسوس نہیں کرتی ۔اب وقت آ گیا ہے کہ سماج کی دوہری ذہنیت کو بدلا جائے۔ عورت کوئی چیز یا جسم محض نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اورزندہ سماجی اکائی ہے جس کوعزت کے ساتھ زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔
(جیوتی سڈانا کوٹہ میں سماجیات کی ٹیچر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر