یہ کوئی پیشن گوئی نہیں بلکہ ایک طرح کا تجزیہ ہے جو ہم 2017 میں ہوئی سیاسی اتھل پتھل کی بنیاد پرکر سکتےہیں۔
2017 بیت چکا ہے ۔اس سلسلے میں بہت ساری باتیں کہی جارہی ہیں اور کہی جاسکتی ہیں ،لیکن ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس سال ہندوستانی سیاست میں جو کچھ دیکھنے کو ملا اس کی بنیاد پر آنے والا سال کیسا ہوسکتا ہے؟ویسے یہ کوئی پیشن گوئی نہیں بلکہ ایک طرح کا تجزیہ ہے جو ہم 2017 میں ہوئی سیاسی اتھل پتھل کی بنیاد پرکر سکتےہیں۔
2018 میں ملک کی آٹھ ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں اور 2019 میں ملک کا عام انتخاب ہونا ہے۔ اس وقت ملک میں جس طرح کی سیاسی تہذیب کااثر ہے، اس کو دیکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ 2018 سیاسی طور پر کشیدگی اور ٹکراؤ کا سال رہےگا۔ صرف سیاست میں ہی نہیں، سماج اور مختلف طبقوںکے درمیان رشتوں کا تیکھا پن اور بڑھ سکتا ہے۔ اس کے اشارے ابھی سے ملنے لگے ہیں۔ کئی ریاستوں میں حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین یا عدم اتفاق رکھنے والوں کے ساتھ تلخی اور دشمنی کے ساتھ پیش آ رہی ہیں۔ کئی معاملوں میں تو قانون اور آئین کا بھی دھیان نہیں رکھا جا رہا ہے۔ انتخابی جیت کو اپنےاپنے حق میں کرنے کی سیاسی جماعتوں کی جدو جہد میں سماج اور کمیونٹی کے مابین رشتوں کا تانابانا بکھرتا نظر آ رہا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ نیا سال اس صورت حال سے ملک کو نجات دے۔ لیکن وقتکے اشارے بہت مطمئن نہیں کرتے۔
ابھی کچھ ہی دنوں پہلے مرکزی کابینہ کونسل کے دو ممبر اننت کمار ہیگڑے اور ہنس راج اہیر کے بیانات سے بھی مستقبل کے سیاسی منظرنامے کی جھنجھلاہٹ کے اشارے ملتے ہیں۔ ہیگڑے کا یہ بیان کہ ‘ ہم لوگ آئین بدلیںگے ‘ پہلی بار نہیں کہا گیا ہے۔ سنگھ پریوار سے جڑے کئی لوگ یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں ہر بات رکارڈ ہوتی جاتی ہے۔ یہاں یاد دلانا ضروری ہے کہ اس سے پہلے بی جے پی پالیسی این ڈی اے-1 کی واجپئی حکومت کے دور میں آئین کے تجزیہ کے نام پر باقاعدہ ایک کمیشن تشکیل دی گئی تھی۔ مگر اس دور میں بی جے پی کو اپنے زور پر مکمّل اکثریت نہیں حاصل تھی، حکومت چلانے کے لئے وہ اپنے اتحادیوں پر منحصر تھی۔ اس کے علاوہ اس وقت کے آر نارائنن جیسے سیکولر اور سائنسی مزاج کے دانشور ملک کے صدر تھے۔ ان دو وجہوں سے سنگھ پریوار کا آئینی تجزیہ یا اس میں مطلوبہ تبدیلی کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ سنگھ پریوار کی قیادت نے آئین کے آرٹیکل-370، مساوی ضابطہ اخلاق اور آئین کے پریمبل میں درج ہندوستان کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے جیسے کئی اہتماموں کو ختم کرانے کی ٹھان لی تھی۔ اس کوشش میں ناکام رہنے کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ایسے مدعوں کو سنگھ اور بی جے پی کی طرف سے اچھالا جاتا رہا۔ 2018 میں آئین کو لے کر نئے سرے سے تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی چاہےگی کہ اپنے اس ایجنڈے کو 2019 کے پارلیامانی انتخابات کو جیتنے کے بعد ہی وہ عملی جامہ پہنانے میں جٹے۔ اس کے لئے بی جے پی کو ہر حالت میں آئندہ پارلیامانی انتخابات بھی جیتنا ہوگا۔ تب تک ریاستوں میں جیت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو راجیہ سبھا میں بھی اس کو بڑی اکثریت مل جائےگی اور پھر وہ مطلوبہ آئینی ترمیم کے لئے قابل ہوجائےگی۔
حال کی لگاتار انتخابی فتوحات سے بی جے پی اور حکومت، دونوں اپنی کامیابیوں پر نہ صرف مسحور ہیں بلکہ مستقبل کے لئے مطمئن بھی نظر آ رہی ہیں۔ لیکن دونوں کے سامنے چیلنجز کم نہیں ہیں۔ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے،معیشت کو مضبوط کرتے ہوئے روزگار پیداوار کی بڑی پہل کرنا۔ اس معاملے میں حکومت کے اپنے اعداد و شمار اس کے دعووں کو کھوکھلا ثابت کرتے ہیں۔ زراعت، تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لئے، حکومت کو نئے مالیاتی اہتمام کرنے ہوںگے۔ بینکنگ کے شعبے کے چیلنجز بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ دیکھنا ہوگا، نئے سال میں ان شعبوں میں کیاکیا نئی پہل ہوتی ہے! اس سال کی طرح آئندہ سال بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ رشتوں کے معاملے میں بہت خوش کن اور خوش گوار نہیں دکھ رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان تو آزاد ہونےکے وقت سے ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو گئے لیکن حال کے دنوں میں ہندوستان کے رشتے مالدیپ، سری لنکا اور نیپال جیسے قریبی ممالک سے بھی لگاتار خراب ہوئے ہیں۔ انتخابی سال یا انتخابی تیاری کے سال میں ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں کے بہتر ہونے کی گنجائش کم دکھتی ہے۔ اگر بہتر ہو جائے تو دونوں ممالک کے عوام کے لئے بڑا تحفہ ہوگا۔ اقتصادی مورچے پر ہندوستانی معیشت میں بڑی کامیابی کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ مگر اس کا فائدہ کیا عوام کو ملےگا؟ کیا ہمارا Human Development Index بہتر ہوگا، تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھےگی؟ کیا روزگار کی توسیع ہوگی؟ فی الوقت، دنیا کے 180 ممالک کی فہرست میں Human Development کے معاملے میں ہندوستان کا مقام 131 ہے۔ عدم مساوات کے معاملے میں یہ اعداد و شمار اور بھی بڑھا ہوا ہے۔ 180 ممالک کی فہرست میں ہندوستان 135 نمبر پر ہے۔ شیئر بازار اور سینسیکس کی اچھال کچھ بھی بتائیں، عوام کے لئے اشارہ بہت مثبت نہیں ہے۔
نئے سال میں ‘ آدھار ‘ کا مدعا اور گرما سکتا ہے۔ پارلیامنٹ سے عدالت تک مسئلے نئے سرے سے اٹھ سکتے ہیں۔ آخرکار عدالتی سطح پر ہی اس مسئلے کے حل کے لئے ملک کو انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن جس طرح حکومت کی طرف سے پرائیویسی کے بنیادی شہری حقوق کو لگاتار نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس کے اشارے بہت اچھے نہیں ہیں۔ اس سے عام شہریوں کی تمام طرح کی ذاتی اطلاعات کے نہ صرف عوامی ہو جانے بلکہ ان کے وابستہ مفادکے ذریعے اپنے مفاد میں استعمال کے بہت سے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔ 2018 میں جن 8 ریاستوں کرناٹک، میگھالیہ، ناگالینڈ، میزورم، ترپیورہ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں انتخابات ہونے ہیں۔ سال کے شروع میں جن چار ریاستوں میں انتخاب ہونا ہے وہ ہیں کرناٹک، ناگالینڈ، میگھالیہ اور ترپیورہ۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ گجرات انتخاب ختم ہونے کے اگلے ہی دن وزیر اعظم مودی میگھالیہ کے دورے پر گئے۔ ادھر، بی جے پی کے صدر امت شاہ بھی کرناٹک کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کرناٹک سے مرکزی کابینہ کونسل کے ممبر اننت ہیگڑے نے آئین بدلنے سے متعلق متنازع بیان دےکر ماحول کو گرما دیا ہے۔ وہ اور ان کی پارٹی ٹیپو سلطان جیسے برٹش مخالف جنگجو کے یوم پیدائش منانے کے کرناٹک حکومت کے فیصلے کے خلاف لگاتار مہم چلاتے رہے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ کرناٹک میں عوام کے بنیادی مدعوں کی قیمت پر ایسے غیر ضروری اور اشتعال انگیز مسائل کو انتخاب کے دوران زیادہ اچھالنے کی کوشش کی جائےگی۔ گجرات انتخاب میں تشہیری مہم کی نچلی سطح سے بھی لگتا ہے کہ خاص طور پر کرناٹک اور تریپورہ میں ماحول کشیدہ رہےگا۔ کرناٹک کانگریس حکومتی ریاست ہے جبکہ ترپیورہ ماکپاحکومتی۔ کسی نہ کسی طرح، دونوں ریاستوں میں بی جے پی اپنی حکومت بنانے کے لئے کافی وقت سے پریشان ہے۔ کرناٹک ملک کی محض ایک بڑی ریاست ہے، جہاں اس وقت کانگریس حکومت میں ہے۔ زیادہ تر بڑی ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ ایسے میں وہ بھی اپنی حکومت والے صوبے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرےگی۔ راہل گاندھی کی قیادت کا سب سے سخت امتحان کرناٹک میں ہی ہوگا۔
2017 میں بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کی وسیع مورچےبندی کی باتیں تو ہوئیں پر وہ انجام تک نہیں پہنچیں۔ ترنمول خاتون رہنما اور بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے 2019 کے مدنظر حزب مخالف کی بڑے پیمانے پر گولبندی کی ضرورت پر زور دیا۔ حزب مخالف اتحاد کے دوسرے اہم پیروکار رہے لالو پرساد یادو اب چارا گھوٹالہ کے معاملے میں جیل جا چکے ہیں۔ جنوب کے عظیم اور ڈی ایم کے سپریمو کروناندھی لمبے وقت سے بیمار چل رہے ہیں۔ دیگر جماعتوں کے درمیان اس مدعے پر گہرے داخلی انتشار ہیں۔ ملک کی دو ریاستوں میں حکومت کرنے والی مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے پولت بیورو میں ہی ابتک اتفاق نہیں بن سکا ہے۔ یوپی کی دو بڑی حزب مخالف پارٹیاں سپا اور بسپا اب بھی ایک دوسرے سے دوری بنائے ہوئی ہیں۔ بیتے کچھ سالوں سے ان دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو جانچ ایجنسیوں کا ڈر ستاتا رہتا ہے۔ ان کے رہنماؤں پر بد عنوانی کے کئی معاملے زیر التوا بتائے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اپنے سیاسی مفادات پر بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسے دور میں حزب مخالف اتحاد کا سارا دارومدار کانگریس پر ہے۔ کیا راہل اپنی ماں سونیا گاندھی کے نقشےقدم پر چل سکیںگے؟ کیا وہ 2004 کی طرح یو پی اے جیسا ایک نیا فعال اور مضبوط پلیٹ فارم تیار کر سکیںگے؟ اور کیا ایسا کوئی مورچہ عوام کے درمیان مقبولیت حاصل کر سکےگا؟ 2018 میں ان سوالوں کا بھی جواب ملےگا۔ دیکھنا ہوگا کہ نئے سال میں اہم حزب مخالف پارٹی کانگریس کسی بڑے حزب مخالف اتحاد کی زمین تیار کر پاتی ہے یا نہیں! اگر ایسا نہیں ہوتا تو وزیر اعظم مودی کی بی جے پی کی جیت کے تانگے کو روکنا فی الحال تو ممکن نہیں دکھتا۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر