خبریں

2017کو فیک نیوز کا سال بھی کہا جاسکتا ہے

فسطائی طاقتوں نے اس برس سب سے زیادہ مسلمانوں اور سیکولرلوگوں کو اپنے نشانے پر رکھا۔

FakeNews_Patra

2017انڈین ہسٹری کانگریس کے 70 ویں اجلاس میں پروفیسر عرفان حبیب نےحقائق کے برعکس  تاریخ کی  تشکیل پر افسوس کا اظہار کیا۔ پروفیسر حبیب  جس طرح ماضی کے تحفظ کے لئے فکرمند ہیں ، اسی طرح حال کا تحفظ بھی آج کے فیک نیوز کے دور میں بہت ضروری ہو گیا ہے۔ فیک نیوز کا ٹرینڈ (trend) ملک کی سیاست اور سماجی قدروں کو پامال کرنے کی بڑی طاقت رکھتا ہے اور مستقبل میں اس سے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک طرف تو سیاسی پارٹیوں کے لیڈر فیک نیوز کی اشاعت میں ملوث پائےگئے تو دوسری طرف سرکاری محکموں اور دفتروں نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو درکنار کرتے ہوئے جھوٹی تصویروں اور خبروں سے غلط تصورات کی تشکیل کی !  ما بعد صداقت یعنی پوسٹ ٹروتھ کے اس دور میں ماضی اور حال دونوں کا صحیح تصور ہونا بیحد ضروری ہے۔

سال بھر کی فیک نیوز کو ہم یوں تقسیم کر سکتے ہیں :

  1. ریاستی انتخابات کے دور میں سیاسی پارٹیوں کا پروپیگنڈا
  2. مسلمانوں اور سیکولر قدروں کے خلاف پروپیگنڈا
  3. میڈیا کی جانبدارانہ رپورٹنگ
  4. سرکاری محکموں ، پارلیامانی اراکین اور سیاسی لیڈروں کے ذریعہ ہونے والی فرضی خبروں کی اشاعت
  5. غلطی یا بھول سے فیک نیوزکی تبلیغ و اشاعت
  6. فیک نیوز کے متفرق (miscellaneous) معاملات

FakeVsReal

سال بھر  ریاستی انتخابات کا زور رہا کیونکہ گجرات، ہماچل پردیش، اتر پردیش میں ودھان سبھا کے الیکشن ہوئے۔ ان انتخابات میں سیاسی  پارٹیوں کے آئی ٹی سیل اور پارٹی کارکنوں نے مخالف پارٹی کے خلاف بہت پروپیگنڈا کیا۔ پروپیگنڈا اور فیک نیوز کے معاملات سب سے زیادہ بی جے پی اور کانگریس کی طرف سے سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیں :فیک نیوز پر دی وائر اردو کا ویکلی راؤنڈ اپ

کانگریس پارٹی کے حمایتیوں نے ABP نیوز کے سروے کو غلط طریقے سے پیش کیا ۔ اے بی پی  نیوز نے اپنی ویب سائٹ پر 30 اگست 2017 کو گجرات الیکشن کے تعلّق سے ایک اوپینین پول کی ویڈیو اپلوڈ کی تھی ۔ اس ویڈیو میں ایک سروے کے حساب سے بی جےپی کو 144-152سیٹیں اور کانگریس کو 26-32 سیٹیں مل رہی ہیں۔ یہ سروے اے بی پی  نیوز اور لوکنیتی (سی ایس ڈی ایس) نے کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر بی جے پی اور کانگریس کی سیٹوں کو آپس میں تبدیل کر دیا گیا اور اس افواہ کو عام کیا گیا کہ سی ایس ڈی ایس کے سروے میں بی جے پی کو شکست ہونے والی ہے۔

ودیا ساگر سیتو کے افتتاح ، سا بق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کامبینہ طور پر  سونیا گاندھی کی قدم بوسی کرنا اور و بدنام کرنے سے متعلق فیک نیوز بہت عام رہی ۔انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق راہل گاندھی گجرات میں اپنی تقریر کے بعد غلطی سے عورتوں کے واش روم میں داخل ہو گئے  ، گجراتی زبان میں جو لکھا تھا اس کو راہل سمجھ نہیں پائےجس کی وجہ سے راہل کو وہاں موجود لوگوں کے سامنے ذلّت اٹھانی پڑی !  اس بات کو بی جی پی  کے لوگوں نے خوب پھیلایا۔ اس کے برعکس حقیقت کچھ اور نکلی۔

اس کے علاوہ نریندر مودی  اور راجناتھ سنگھ کی جھوٹی تصویروں کا عام کیا جانا ،  اس تصویر کا وائرل ہونا جس میں راہل گاندھی ایک بچے کو گود میں لئے ہوئے ہیں اور اس بچے کی ٹی شرٹ پر بی جے پی کا انتخابی نشان کمل کا پھول بنا ہوا ہے، راہل گاندھی کے خلاف یہ پروپیگنڈا کہ اگر کانگریس گجرات میں جیتی تو وہ ایک ایسی مشین لگائیں گے جو آلو کو سونے میں تبدیل کر دیگی ، راہل گاندھی کا سومنات مندر میں غیر مسلم کے رجسٹر میں دستخط کرنے جیسی خبریں بہت عام رہیں ۔ گجرات ہی  کے تعلّق سے ایک ویڈیو وائرل کی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کانگریس گجرات میں  عوام کے ووٹ خرید رہی ہے، اور پیسہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک پرانی ویڈیو تھی جس کا گجرات سے کوئی تعلّق نہیں تھا ، اس میں آواز کو ایڈٹ کر دیا گیا تھا۔

اس طرح سوشل میڈیا میں سیاسی فیک نیوز میں راہل گاندھی اکثر نشانے پر نظر آئے !

FakeNews_Shankhnad

فسطائی طاقتوں نے اس برس سب سے زیادہ مسلمانوں اور سیکولرلوگوں کو اپنے نشانے پر رکھا۔ اس میں فسطائی تنظیموں اور زعفرانی فکر کی میڈیا اور ویب سائٹ پورٹلوں کا بڑا کردار رہا۔  مسلمانوں  کو عالمی سطح پر بھی نشانہ بنایا گیا ! روہنگیا مسلمانوں کے خلاف سدرشن چینل، شنکھ ناد اور دینک بھارت جیسے پورٹلوں نے خوب زہر پھیلایا۔ گوری لنکیش کے تعزیتی مجلس کا سہارا لیکر سیکولر صحافی رویش کمار کو بدنام کیا گیا، پنجاب میں ایک سردار کا مبینہ طور پر مسلمانوں  کو بھگا دینا، کیرل میں ایک تھانے میں SHO کا برقع نشیں خواتین کی ورک شاپ میں تصویر لینے پر یہ بدنام کرنا کہ کانگریس اور لیفٹ ملک کو اسلامک اسٹیٹ میں بدل رہے ہیں ، اتر پردیش کے بھدوہی ضلع میں سوامی وویکانند کے مجسمے والا معاملہ، ٹام موڈی کے ٹوئٹ پر مارکسسٹ تنظیموں کو نشانہ بنانا ، غازی آباد میں ایک الیکشن ریلی میں لگنے والے نعروں کو یہ منسوب کرنا کہ وہ نعرے پاکستان کی حمایت میں لگے تھے، اور سیاسی رہنما کمال اختر کو بدنام کرنے جیسے متعدد معاملات سوشل میڈیا میں سامنے آئے جن کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا تھا۔

سال بھر کی فیک نیوز پر نگاہ رکھنے پر معلوم ہوگا کہ ذمّہ دار میڈیا ہاؤس اور نیوز ایجنسیوں نے بد عنوانی  کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ فسطائی پورٹلوں کے علاوہ مین اسٹریم آن لائن میڈیا بھی اس میں ملوث رہا جس میں ری پبلک ٹی وی  اور اے این آئی سب سے اوپر رہے ، ان کے علاوہ دی ہندو، انڈین ایکسپریس اور NDTV جیسے اداروں سے بھی فیک نیوز کی اشاعت ہوئی۔ NDTV، دی ہندو اور انڈین ایکسپریس جیسے ذمّہ دار اداروں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور خبروں  کو ہٹا لیا۔

FakeNews_Ministers

سرکاری محکموں ، ممبر پارلیامنٹ اور سیاسی لیڈروں کے ذریعہ  ہونے والی فرضی خبروں کی اشاعت  ملک کے جمہوری نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے جب کہ نریندر مودی خود منموہن سرکار کی اسکیموں کو ‘مودی سرکار’ کا لیبل لگا کر پرچار کر رہے ہوں، رو-رو فیری کے افتتاح پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہو کہ یہ دنیا میں اپنی طرح کی سب سے پہلی خدمت ہے جو مودی سرکار نے شروع کی ! انکے علاوہ امریکی سڑکوں کو ٹرانسپورٹ وزارت کی ویب سائٹ پر استعمال کیا جانا، ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر اسکیم کا سہرا مودی سرکار کے سر پر باندھا جانا، کرن کھیر کا روسی فوجیوں کو ہندستانی کہنا ، مدھے پردیش کے وزیر ا علیٰ شیوراج چوہان کا صوبے کے روڈ اور سڑکوں کا امریکا سے اچّھا کہنا،   نوبل اکنامسٹ رچرڈ تھلر کے ٹوئٹ کو نوٹ بندی کی کامیابی کے طور پر بیجا استعمال کرنے جیسے  معاملات ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک کے جمہوری ادارے اور ان میں موجود افراد کس قدر بیزارہیں !

انکے علاوہ کچھ معاملات ایسے بھی نظر آئے جہاں فیک نیوز کی اشاعت از خود نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ اتفاقا ً ہو ا ! اس میں کرن بیدی اور ششی تھرور کے ٹوئٹ شامل کئے جا سکتے ہیں۔ کرن بیدی نے ایک ویڈیو اپلوڈ کیا تھا جس میں ایک بوڑھی عورت گربا  کر رہی تھی جس کو بیدی نے نریندر  مودی کی والدہ قرار دیا  تھا ! ششی تھرور سے بھی یہی خطا ہوئی جب وہ ایک فنکارہ کے فن کو تسلیم کرتے ہوئے غلط تصویریں اپلوڈ کر گئے تھے۔

فیک نیوز اور پروپیگنڈا کے حوالے سے جو بات قابل غور ہے، وہ یہ ہے کی فسطائی طاقتوں نے جتنا زور لگایا ہے اتنی ذمّہ داری سے پولیس ایڈمنسٹریشن نے کام کیا ہے ۔ پولیس اور عوام کو با خبر رکھنے میں کچھ ویب سائٹوں کی خدمات کو تسلیم کرنا ہوگا جن میں الٹ نیوز، سوشل میڈیا ہوَش سلیر اور بوم لائیو جیسے آن لائن اداروں کا نام قابل ذکر ہے ۔

 (مضمون نگار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ )