ہندوستان میں اداروں کا دوہرا معیار بھی کشمیر میں جاری شورش اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
امید تھی کہ بحریہ کے سابق افسر اور مبینہ جاسوس کل بھوشن جادھو کی والدہ آوانتی اور اہلیہ چیتنا کی پاکستان آمد، خیر سگالی کی نوید ثابت ہوگی ۔ مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں منجمد برف کو پگھلنے میں مدد دینا تو دور کی بات، ان کا دورہ اور انکی قیدی جادھوسے ملاقات مزید کشیدگی کا باعث بن گئی ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج جب پارلیامنٹ میں بیان دے رہی تھی، تو حکومتی بینچوں سے پاکستان مردہ باد کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ پریس گیلری سے پارلیامنٹ کی کارروائی کو کور کرتے ہوئے پچھلے 19سالوں میں پہلی بار میں نے اراکین پارلیامان کا اس طرح کا برتاو دیکھا جو ماضی میں جنگ کرگل یا آپریشن پراکرم یعنی پارلیامان پر حملہ کے بعد سرحدوں پر فوجوں کے جماؤکے وقت بھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ چندی گڑھ سے رکن پارلیامنٹ کرن کھیر جو خیر سے ایکٹریس بھی ہے، اپوزیشن بنچوں پر فقرے کس رہی تھی، کہ وہ نعرے بازی میں ان کے ساتھ شریک کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟ جب مغربی بنگال سے بائیں بازو کے رکن محمد سلیم نے ان کو یاد دلانے کی کوشش کی ایوان کا وقار برقرار رکھنا ٹر یژری بینچوں کی ذمہ داری ہے اور نعرے بازی کے بجائے ان کا منصب بردباری دکھانے کا متقاضی ہے، تو کرن کھیر سمیت بی جے پی کے اراکین و وزیر ان پر پل پڑے۔
جب پاکستان نے ملاقات کی آفر دی تھی تو بھارت نے کئی شرائط رکھی تھیں، جن میں سے ایک یہ تھی کی پاکستان اہل خانہ کے تحفظ کیلئے ریاستی ضمانت یعنی Sovereign Guaranteeفراہم کرے۔ عام طور پر اسطرح کی ضمانت حکومتیں بین الاقوامی اداروں سے قرضوں کے حصول کیلئے دیتی ہیں۔ آخر پاکستان نے کس طرح اس شرط کی تکمیل کی؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ خیر جوں ہی پاکستانی وزارت خارجہ کے دفتر میں اہل خانہ کی ملاقات شروع ہوئی اور ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں، تو بھارت میں جیسے ایک طوفان آگیا۔ پتہ چلا کہ قیدی کل بھوشن اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ایک شیشے کی دیوار ہے اور وہ انٹر کام پر بات چیت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف صحافتی اقدار سے عاری چند پاکستانی صحافیوں نے بھی جس طرح کا سلوک اور سوالات داغے، بھارتی میڈیا جو پاکستان کی طرف سے انسانیت کے اظہار سے شاید خاصا سبکی محسوس کر رہا تھا اور احساس کمتری میں مبتلا ہوگیا تھا، کو بہانہ مل گیا۔ رہی سہی کسر بعد میں ہندوستانی وزارت خارجہ نے پوری کردی۔ پاکستان نے بھی جس طرح اس ملاقات کو ہینڈل کیا، وہ کسی بھی صورت میں لائق ستائش نہیں تھا۔ ملاقات کی اجازت دیکر واقعی پاکستان نے فراخدلی اور انسانیت کا مظاہر ہ کیا تھا، مگر وزارت خارجہ کے صدر دفاتر میں جیل جیسا سیٹ اپ یاماحول قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ سیکورٹی کے پورے ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ملاقات ایک نارمل ماحول میں بھی کرائی جاسکتی تھی۔بصورت دیگر یہ ملاقات جیل میں کرائی جانی چاہئے تھی۔ جیل کا اپنا ایک پروٹوکول ہوتا ہے۔ جیل کے اندر جانے کیلئے شایدکسی کو بھی جوتے، منگل سوتر، جیولیری وغیرہ اتارنے پر اعتراض نہیں ہوتا۔جیلیں ریاست کی طاقت اور دبدبہ کی علامت ہوتی ہیں، جبکہ وزارت خارجہ اسکی شوکت، سفارت کاری، انسانیت اور ہمدردی کے آؤٹ ریچ کو ظاہر کرتی ہے۔اس لئے سفارت کاری کی اس علامت کو طاقت و دبدبہ میں تبدیل کرانا کسی بھی صورت میں جائز نہیں تھا۔ 1400سال قبل انسانی تاریخ میں پہلی بار اسلام نے قیدیوں کے حقوق تسلیم کئے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت کسی بھی صورت میں ان حقوق کو پامال نہیں کرسکتی ہے۔
سشما سوراج نے کہا کہ ملاقات میں انسانیت اور خیر سگالی غائب تھی، مگر انہیں شاید معلوم نہیں کہ ان کی ناک تلے دہلی کی تہاڑ جیل میں ملاقات کا سسٹم اس سے کہیں بد تر ہے۔ یہ سسٹم اتنا فرسودہ اور دردناک ہے کہ اس کو بیان کرنے سے ہی کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ اس پر جیل حکام کا گستاخانہ اور ہتک آمیز رویہ جھیلنا رشتہ داروں کیلئے صبر آزما ہوتا ہے۔ ملاقات ایک چھوٹے سے ہال نما کمرے میں کرائی جاتی ہے۔ اس کمرے کے وسط میں تین فٹ کی بلندی تک اینٹوں کی دیوار ہے جس کے اوپر چھت تک سلاخیں اور لوہے کی باریک جالیاں لگی ہیں۔ تین فٹ کے فاصلے پر اس کے متوازی اسی طرح کی ایک اور تین فٹی دیوار اور چھت تک سلاخیں اور جالیاں ہوتی ہیں ۔ قیدی اور اسکے رشتہ دار اس دوہری دیوار کے دونوں طرف کھڑے ہوکر بات کرتے ہیں اور ان کے درمیان تین فٹ سے بھی زیادہ فاصلہ رہتا ہے ۔ ایک وقت میں 60قیدیوں کو ملاقات کیلئے لایا جاتا ہے اور دوسری طرف اوسطاً دو سے تین افراد ایک قیدی سے ملنے کیلئے موجود رہتے ہیں۔اب ذرا اس منظر کا تصور کیجئے کہ ایسے کمرے میں جہاں ہوا کا بھی ٹھیک سے گذر نہیں، تقریباً 200افراد جمع ہیں جو دوہری جالیوں اور سلاخوں کے ایک طرف کھڑے ہوکر دوسری جانب قیدیوں سے چیخ چیخ کرباتیں کر رہے ہیں اور اگزاسٹ پنکھوں کی کھڑکھڑاہٹ اس شور میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اس شور میں قیدی ملاقاتی کی غیر واضح سی آواز سنتا ہے اور جواباً اسے بھی چلا چلا کر اپنی بات کہنی پڑتی ہے۔
ملاقات کا منظر بہت جذباتی ہوتا ہے، بیشتر لوگ زار و قطار روتے رہتے ہیں، دوسری طرف تعینات محافظ قیدیوں کی کمر پر ہاتھ مار کر ٹائم ختم کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں، کبھی کبھی رشتہ داروں کی موجودگی میں ہی ان کو مارتے ہوتے گھسیٹ کر وہاں سے لے جاتے ہیں۔ اس طرح کی ملاقات قیدی اور ملاقاتی کیلئے ایک تلخ تجربہ بن جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری اہلیہ آنسہ کو مجھ سے ملاقات کی اجازت ملی ، ملاقات روم میں مجھے اسکا چہرہ ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ جب اسنے مجھ سے کشمیر ی میں کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اسی وقت ایک جیل افسرنے آکر ٹوکا کہ صرف ہندی میں بات کرو، ورنہ ملاقات ختم۔ میں نے جب اپنے حواس مجتمع کرکے اسکو بتایا کہ جیل میں داخلے کے وقت کس طرح میرا استقبال ہوا اور اندر کس طرح مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے، تو ایک سپاہی نے ملاقات ختم کرنے کا سگنل دے کر مجھے سپرینٹنڈنٹ اے کے کوشل کے کمرہ میں جانے کا حکم دیا۔ وہ غصہ میں بھرا ہوا تھا۔ چھوٹتے ہی کہا، کہ ’’تم اپنی بیوی کی کیا کہانی سنارہے تھے۔ تم کیا سمجھتے ہو؟ یہ کوئی گیسٹ ہاؤس ہے جہاں تمہارے ساتھ صاحبوں جیسا سلوک ہوگا؟ اس کے بعد مجھے بیر ک میں واپس بھیج دیا۔یہ بھار ت کی ایک ماڈل جیل ہے۔
جیل تو استبداد کی نشانی ہے، مگر ہندوستان کی غیر جانبدار عدلیہ کے سامنے بھی جب کشمیر کے حوالے سے کوئی معاملہ پیش ہوتا ہے تو قانون کی دیوی آنکھیں موند لیتی ہے۔ افضل گوروکی پھانسی ہو، پتھری بل کا واقعہ ہو یا 1984ء میں مقبول بٹ کو سولی پر چڑھانے کا معاملہ ، ہر بارہندوستانی عدالتوں نے دوہرا معیار اپنایا۔ سزائے موت پر عملدارآمد سے قبل گورو کے اہل خانہ کو اطلاع تک نہیں دی گئی۔ عدالت عظمیٰ نے پھانسی کی سزا سناتے وقت گو کہ استغاثہ کے دلائل کے پرخچے اڑائے اور کہا کہ وہ گورو کے جیش محمد کے ساتھ کوئی روابط ثابت کرنے میں ناکام ہوئے، مگر سماج کے’’ اجتماعی ضمیر کو مطمئن ‘‘کرنے کا جواز بتا کر اسکے لئے موت کی سزا کا فرمان سنایا۔ کچھ اسی طرح کا ڈرامہ 1984ء میں مقبول بٹ کی پھانسی کے وقت بھی ا سٹیج کیا گیا تھا۔ اسکی سزائے موت کی تصدیق ہائی کورٹ سے ہونا باقی تھی۔ وکیل مظفر بیگ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے رجسٹرار ملک شریف الدین سے باضابطہ سرٹیفکیٹ حاصل کیا تھاکہ ابھی تک مقبول بٹ کی سزائے موت کی توثیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ہندوستانی سپریم کورٹ نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ جب مظفر بیگ نے دہلی پہنچ کر سپریم کورٹ کے نامور وکیل کپل سبل کے ذریعے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ مقبول بٹ کے برادر غلام نبی بٹ کو ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سپیشل بنچ کے جج اور اس وقت کے چیف جسٹس چندر چوڑ کی عدالت میں کپل سبل نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے رجسٹرار کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے زوردار بحث کی اور کئی قانونی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کی توثیق کے بغیر کسی کو سزائے موت دینا قانون کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور مقبول بٹ پر جن جرائم کا الزام لگایا گیا وہ دونوں کشمیر میں ہی سرزد ہوئے تھے اس لیے اس کا اختیار جموں و کشمیر ہائی کورٹ کو ہی حاصل ہے۔ چونکہ وہ فیکس اور ای میل کا زمانہ نہیں تھا‘ اس لیے خیال تھا کہ اگر مرکزی حکومت جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے کسی طرح سے توثیق حاصل کر لیتی ہے تب بھی پھانسی کی سزا ہفتے بھر کے لیے تو ٹل ہی جائے گی۔ اس دوران مقبول بٹ کے وکیلوں کو قانونی کارروائی کرنے اور انہیں پھانسی کی سزا سے بچانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کپل سبل کی پْرزور بحث کے بعدہندوستان کے اٹارنی جنرل کھڑے ہوئے‘ ایک سادہ سا ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے پھانسی کی اجازت حاصل کر لی ہے ۔ کہتے ہیں کہ اٹارنی جنرل نے جو کاغذ پیش کیا‘ وہ محض ایک معمولی سا کاغذ تھا‘اس پر نہ تو کوئی مہر تھی اور نہ ہی کسی کے دستخط۔ حیرت اس وقت دوچند ہوگئی جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے رجسٹرار کے دستخط شدہ کاغذ کو نظرنداز کرکے اٹارنی جنرل کے پیش کردہ معمولی کاغذ کو تسلیم کرتے ہوئے سزائے موت کے التوا کی درخواست مسترد کر دی۔
ہندوستان میں اداروں کا دوہرا معیار بھی کشمیر میں جاری شورش اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر