1993کے بم دھماکو ں کے لیے روبینہ میمن کو صرف اس بنیاد پر سزا ہوتی ہے کہ دھماکوں کے لیے استعمال کی گئی ایک کار اس کے نام پر تھی توسادھوی کو کیوں نہیں سزا مل سکتی؟
مالیگاؤں غصے میں ہے اورغمزدہ بھیمگر مایوس نہیں ہے۔غم اورغصہ اس بات کا ہے کہ 28؍ستمبر2008ء کے روز،رمضان المبارک کے مقدس ایاّم میں شہر کے بھکّوچوک پرجو بلاسٹ ہواتھا …….جس نے سو کےقریب افراد کو مجروح کیا اورسات افراد کو موت کی نیند سلا دیاتھا……اس کے قصورواروں ،سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اورلیفٹننٹ کرنل پروہت اینڈکمپنی کی’آزادی‘کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں،ان پر سے دہشت گردی کے خلاف بنایاگیا سخت ترین قانون’مکوکا‘ہٹاکران کے اعترافِ جرم کی دھار کو کند کیا جارہاہے اورساری تفتیشی ایجنسیاں متحد ہو کر مقدمے کو اس طرح سے کمزورکر رہی ہیں کہ جب عدالت میں اس پر بحث ومباحثہ ہوتوکمزور شہادتیں اپنے سامنے دیکھ کر منصف مقدمے کو خارج ہی کردے……اورغم وغصہ اس لیے بھی کہ ریاست کی بھگوا فڈنویس سرکارآنکھیں بند کرکے بھگوا ملزمین کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے نظرآتی ہے۔
مگر مایوس نہیں ہے،ایک تواس لیے کہ مایوسی حرام ہے ،اوراس لیے بھی کہ عدالت سے بہرحال کچھ امید بندھی ہے کہ اس نےاین آئی اے کی اس دلیل کو بہرحال تسلیم کرلیاہے کہ سادھوی اورپروہت اپنی ٹولی سمیت ملک کو’ہندو راشٹر‘بنانے کے لیے کوشاں تھے اوراسی سبب سے انہوں نے مالیگاؤں میں بم دھماکہ کیا تھا……اور تھوڑی سی اُمید اس لیے بھی بندھی ہے کہ سادھوی کو دی جانے والی این آئی اے کی ’کلین چٹ‘کو نظراندازکرتے ہوئے عدالت نے پروہت سمیت سادھوی کے خلاف بھی مالیگاؤں بم بلاسٹ کی مجرمانہ سازش رچنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کی اجازت دی ہے۔
ایک اہم سوال ہے ‘بلکہ تین اہم سوال ہیں۔سادھوی اورپروہت اورراکیش دھاوڑے پر سے ’مکوکا‘ جیسے سخت قانون کو ہٹایا کیوں گیا؟’مکوکا‘ہٹنے کے مقدمے پرکیا اثرات مرتب ہونگے ؟اورکیا’مکوکا‘کا ہٹنا کسی معنی میں سادھوی اورپروہت اینڈکمپنی کے دہشت گردی کے الزامات سے بری ہونے کاسبب بن جائے گا؟
اگرگلزار احمد اعظمی سکریٹری،قانونی امداد سیل جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشدمدنی)کی بات مانیں تو’مکوکا‘کے ہٹنے کے کچھ اثرات مرتب ضرور ہو سکتے ہیں مگربہت زیادہ نہیں۔مالیگاؤں بم بلاسٹ 2008ء معاملے میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر’مداخلت کار‘کی حیثیت سے شامل ہے۔جمعیۃ کے وکلاء کا پورا پینل مقدمہ لڑرہاہے لہٰذا قانونی امداد سیل کے سکریٹری کی حیثیت سے گلزار احمد اعظمی کی پورے معاملے پرگہری نظرہے۔وہ بتاتے ہیں’’کسی پر’مکوکا‘عائد کرنے کے لیے لازمی ہے کہ اس کے خلاف ایک سے زائد چارج شیٹ ہوں،اگرکوئی گروپ ہے توکسی ایک فردپر بھی اگر تین چارج شیٹ عائد ہیں توپورے گروپ پر’مکوکا‘قانون کا اطلاق ہوسکتا ہے۔مگر اس کیس میں سادھوی یا پروہت کسی پر بھی پہلے سے کوئی چارج شیٹ داخل نہیں تھی لہٰذا سپریم کورٹ نے پروہت کی درخواست ضمانت سنتے ہوئے کہا کہ ’مکوکا‘کا اطلاق مشتبہ ہےلہٰذا’مکوکا‘کورٹ فیصلہ کرے کہ ملزم پر’مکوکا‘کا اطلاق ہو سکتا ہے یا نہیں۔اور’مکوکا‘کورٹ نے سپریم کورٹ کی بات سن کر ’پروہت‘پر سے’مکوکا‘ہٹا دیا۔سادھوی پرسے’مکوکا‘ ہٹا۔ اور اب ’مکوکا‘ہٹنے کے بعداس معنی میں کیس پر قدرے منفی اثرات پڑسکتے ہیں کہ’مکوکا‘کی صورت میں ملزم کا ڈی سی پی یا مجسٹریٹ کے سامنے جو اقبالیہ بیان ،اعترافِ جرم کے طور پر تسلیم کیا جاتاتھا‘اب تسلیم نہیں ہوگا۔یعنی متاثرین کو ملزمین کے اعترافِ جر م کا فائدہ نہیں پہنچ سکے گا اسی طرح ملزمین پر بھی انکا اعترافِ جرم اب بے اثرہی رہے گا۔لیکن یو اے پی اے اورتعزیرات ہند کی جن دفعات کے تحت مقدمہ چلے گا اگراس میں بھی استغاثہ نے گواہوں سے صحیح طور پر گواہی کرادی توپروہت اورسادھوی پھانسی سے نہیں بچ سکتے۔‘‘
پرسوال یہی ہے کہ کیا استغاثہ گواہی صحیح طور پر کرائے گا!
اگرماضی قریب پرنظرڈالی جائے توپتہ چلتاہے کہ اس کیس کی ایک اہم سرکاری وکیل روہنی سالیان پردباؤتھا کہ’تم اس کیس کو ہلکا کرو‘یعنی گواہوں کے بیانات اس طرح سے لو کہ ملزمین کو فائدہ پہنچے۔ مگر روہنی سالیان نے کیس کے سرکاری ’ذمے داروں‘کی بات نہیں مانی۔اورایسا نہیں کہ یہ سب سرگرمیاں مرکز اورریاست میں سرکاروں کی تبدیلی کے بعدہی شروع ہوئیں اور استغاثہ کارویہ بدلا،بلکہ بھگوا سرکاروں کے قیام سے پہلے بھی ایسا دباؤ تھا۔بقول گلزار احمد اعظمی’’جس دن سادھوی پرگیہ کو گرفتار کیاگیاتھا اس کے دوسرے ہی روز اڈوانی اوربی جے پی کے دوسرے لیڈروں نے اس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی تھی اوران سے زوردے کر کہا تھاکہ ’سادھوی بے گناہ ہے‘اوردیکھئے کہ اس ملاقات کے بعد اے ٹی ایس کے آنجہانی سربراہ ہیمنت کرکرے کو ’من موہن سنگھ نے طلب بھی کیااوراس کےبعدہی سے کرکرے تھوڑاپریشان رہے،ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب’کرکرے کے قاتل کون؟‘میں تو یہ واضح اشارہ بھی کیاہے کہ یہ جو2008ء کے مقدمے میں ملوث افراد اور ٹولے ہیں وہ بھگوا تنظیمیں اور ان کے کارکنان ہی ہیں۔‘‘گلزار اعظمی اس پورے معاملے میں من موہن سنگھ کی حکومت کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں’’کرکرے کی ہمت کو پست کرنے میں منموہن سرکار کا ہی ہاتھ تھا،کرکرے نے خو دکہا تھا کہ ’مجھ پر دباؤڈالا جارہاہے کہ محتاط ہوکر کام کرو۔‘کانگریس کے لوگ بھی مخلص نہیں تھے وہ بھی یہ مانتے تھے کہ یہ سادھوی اورپروہت واقعتاً مجرم نہیں ہیں۔سب کو دودھ کا دھلا ہی سمجھ رہے تھے۔یہ توجمعیۃ علماء مہاراشٹر کے وکلاء کی ٹیم تھی جس نے ان ملزمین کی نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک ،جب جب ضمانت کی درخواست گئی،مخالفت کی اورانہیں ضمانت لینے نہیں دی۔مالیگاؤں بلاسٹ کے ایک شہید سیّداظہرنثار بلال کے والد سیّدبلال نثاراس معاملے میں مداخلت کارہیں ہم اپنے وکلاء کی ٹیم سے ان کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘
سیّدبلال نثاربھی یقینا غصے میں اورغمزدہ ہوں گے۔
جواں سال بیٹا شہیدہوا‘منموہن سرکار نے کرکرے کی ہمت پست کی اوراب تومرکز اورریاست میں بھگوا سرکاریں ہی ہیں جن کی ’مرضی‘سے اے ٹی ایس اوراین آئی اے نے سارے کیس کی روح ہی نکال لی ہے۔گلزار اعظمی کادعوی ٰ ہے’’ایجنسیوں نے ازخودجا کر گواہوں سے ملاقاتیں کیں اوریہ اعلان کیاکہ گواہ منحرف ہو گئے ہیں اوراسی بنیاد پر عدالت سے کہا کہ ملزمین پر مقدمہ نہ چلایا جائے،سادھوی کو’کلین چٹ دی‘لیکن یہ جو ’مکوکا‘کورٹ کے جج ایس ڈی ٹکولے انہوں نے اس’کلین چٹ ‘کو قبول نہیں کیا اس لیے این آئی اے کی’کلین چٹ ‘کا کیس پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔پراتنا ضرور ہے کہ اب سارا دارومدارگواہوں کے بیانات پرہے کیونکہ ’مکوکا‘ہٹنے کے بعداقبالیہ بیان کو اب اعترافِ جرم کے طور پرثبوت نہیں مانا جاسکتا۔‘‘
یعنی کہ اگرگواہوں نے صحیح گواہی دی تب ہی سادھوی اورپروہت اوران کی ٹولی کو سزاملنا ممکن ہوسکتا ہے۔اسی لیے جمعیۃ علماء کی گواہوں پر نظرہے۔اس کیس میں جمعیۃ علماء کے ایک وکیل ایڈوکیٹ شاہد ندیم کے مطابق’’پانچ گواہ منحرف ہوئے لہٰذاسادھوی کو ضمانت ملی اس لیے اب یہ ضروری ہے کہ کوئی گواہ منحرف نہ ہو،مگراس کیس میں ایسے گواہ بھی ہیں جوInfluenceہو سکتے ہیں،منحرف ہو سکتے ہیں،عدالت میں کہہ سکتے ہیں کہ پولیس نے ان سے زبردستی بیانات لیے تھے،اسی لیے گواہوں کا تحفظ اب ضروری ہے ۔اورتحفظ کی ذمے داری استغاثہ کی ہے لہٰذا استغاثہ کو چاہیے کہ گواہوں کو منحرف ہونے نہ دے۔‘‘
اس سارے کیس میں ایک’دلچسپ‘اور’قابلِ افسوس‘بلکہ’شرمناک‘کردا رریاستی سرکار کابھی ہے۔گلزارا عظمی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں’’این آئی اے نے مالیگاؤں2006 کے لوگوں کو بھی ’کلین چٹ ‘دے رکھی ہے جس کی بنیاد پر وہ مقدمے سے ڈسچارج کیے گئے ہیں لیکن ڈسچارج کیے جانے کے عمل کو اے ٹی ایس نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے جب کہ سادھوی اورپروہت کے معاملے میں این آئی اے توخاموش ہے ہی اے ٹی ایس بھی خاموش ہے،سادھوی اورپروہت کی درخواست ضمانت کی مخالفت ان دونوں ہی ایجنسیوں کے وکلاء نے نہیں کی تھی صرف جمعیۃ کے وکلاء ہی نے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کیا لیکن چونکہ مدعی حکومت ہے اوراستغاثہ عدالت میں درخواست ضمانت کی مخالفت کے حق میں قطعی نہیں تھا اس لیے ’کلین چٹ‘بھی ملی اورضمانت بھی۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ حکومت ان بھگوا قصورواروںکو ملزم یا مجرم سمجھتی ہی نہیں ہے،بس چلے توانہیں چھوڑدیا جائے لیکن چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے یوں چھوڑبھی نہیں سکتے اسی لیے گواہوں کو کمزورکرنے کی کوشش ہوگی۔ہمارا یہ سوال ہے کہ جو سرکار2008کے ملزمین کے ڈسچارج کے خلاف عدالت گئی وہ کیوں سادھوی اورپروہت اینڈکمپنی کو ملنے والی ’کلین چٹ‘ضمانت اور’مکوکا‘ہٹانے کے خلاف عدالت نہیں گئی ہے؟‘‘
سادھوی اورپروہت کی ضمانت کے بعدایک سوال یہ بھی اٹھ رہاہے کہ اگریہ مان لیا جائے کہ یہ بم بلاسٹ کے اصلی مجرم نہیں ہیں توپھر اصلی مجرم کون ہیں؟گلزارا عظمی کاکہنا ہے ’’اس سوال کا جواب تواین آئی اے اوراے ٹی ایس کودینا ہے،وہ بتائیں کہ مجرم اگریہ نہیں ہیں توکون ہیں؟1993ء کے بم دھماکو ں کے لیے روبینہ میمن کو صرف اس بنیاد پر سزا ہوتی ہے کہ دھماکوں کے لیے استعمال کی گئی ایک کار اس کے نام پر تھی توسادھوی کو کیوں نہیں سزا مل سکتی جس کے نام پر بھکوچوک دھماکے میں استعمال کی گئی موٹرسائیکل تھی!شاید اس لیے کہ روبینہ میمن پرمعاملہ سخت ترین قانون ’ٹاڈا‘کے تحت تھا اورسادھوی پر سے تواب ’مکوکا‘بھی ہٹادیاگیا ۔سرکار کی نیت ہی یہ ہے کہ ملزمین سزا سے بچ نکلیں،میں مزید بتادوں کہ اکشردھام مندردہشت گردانہ حملے سمیت کئی معاملات میں مسلمانوں کو باعزت بری کیاگیاہے اورسپریم کورٹ نے سوال کیاہے اورحکم بھی دیا ہے کہ پولیس اصل مجرموں کو کیوں تلاش نہیں کرتی،انہیں تلاش کرے،مگر حکومت کا مقصدتومسلمانوں کو پریشان کرنا ہے مجرموں کو گرفتار کرنانہیں ہے۔‘‘
ایڈوکیٹ شاہد ندیم کا تعلق مالیگاؤں سے ہی ہے۔وہ بتاتے ہیں ’’مالیگاؤں کے لوگ روہنی سالیان کے بیان سے پہلے ہی دلبرداشتہ تھے ‘ریاست کی بی جے پی سرکار نے تواول روز ہی سے کہنا شروع کردیاتھا کہ یہ جولوگ گرفتار ہیں یہ دہشت گرد نہیں ہیں اوراب سادھوی اورپروہت پر سے’مکوکا‘کاہٹنا مالیگاؤں والو ں کے لیے مزید غصے اورغم کاسبب بنا ہے،لیکن ہم مایوس نہیں ہیں،امید رکھتے ہیں کہ مقدمہ کئی سال چلے گا بھلے ملزمین ضمانت پر باہررہیں اورایک اُمید یہ بنی ہوئی ہے کہ انہیں سزا ملے گی ……اور سزا ملے گی تب ہی مالیگاؤں کے وجودپرلگا زخم بھرے گا اوردہشت گردی کا جو داغ لگاہے وہ مٹے گا،ابھی یہ دھبہ مکمل طورپر دھلا نہیں ہے،مگر ایک دن یہ ضروردھل جائے گا۔‘‘
Categories: فکر و نظر