تقریباً سارے اداریوں اور کالموں کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ ایرانی حکومت ایک ملائی اوراستبدادی حکومت ہے، اور عوام کی بنیادی ضروریات سے نظر چرارہی ہے۔
عربی اخبارات بالخصوص سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبارات نے ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کو شہ سرخیوں کے ساتھ نمایاں طور پر پورے ہفتہ شائع کیا، مظاہروں کی تائید میں اداریے لکھے گئے ، اور کئی کئی کالموں میں خبریں چھاپی گئیں۔ بہت سے اخبارات مثال کے طور پر لندن سے شائع ہونے والے الشرق الاوسط، الحیاۃ اور ریاض سے شائع ہونے والے الریاض نے ان مظاہروں کو فارسی بہاریہ (Persian spring) اور عوامی انتفاضہ کا نام دیا۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار “الحیاۃ ” نے 3 جنوری 2018 کے شمارہ میں جمہوریہ اسلامیہ ایران کے مرشداعلیٰ خامنئی کا وہ بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے دشمن ملکوں پر مظاہرے کوبھڑکا نے کاالزام لگا یا ہے، ساتھ ہی ایرانی حکومت نے مظاہروں میں حصہ لینے والوں کو پھانسی پر لٹکانے کی دھمکی دی ہے۔
متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والا روزنامہ الاتحاد نے لکھا ہے کہ مظاہرہ کرنے والے ایرانی مرشد اعلیٰ خامنئی اور ان کی سربراہی کو ختم کرنے کے نعرے لگارہے ہیں، اخبار نے ایرانی اپوزیشن کی طرف یہ بیان منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ احتجاج موجودہ حکومت کے گرائے جانے تک جاری رہے گا۔
روزنامہ “الحیاۃ ” کے دو ایڈیشن شائع ہوتے ہیں، ایک لندن، برطانیہ سے اور دوسرا سعودی عربیہ سے،لندن ایڈیشن کے ایک جنوری 2018 کے ادارتی صفحہ پرعبد العزیز السوید ایران کے مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ بات بالکل صاف ہے ایرانی حکام اچانک بڑے پیمانے ہونے والے اورجلدہی پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والے مظاہروں اور اس میں بلند ہونے والے نعروں سے سے چونک گئے ہوں گے، جن نعروں نے ملائی حکومت کے رمزی “مرشد فقیہ ” کو نشانہ بنایا کیا، ان کی تصویروں کو جلایا گیا اور ان کے گدی چھوڑنے اور مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، جب کہ بعض حکومتی ذمہ داروں نے اس معاشی بحران کا ٹھیکرا روحانی حکومت کے سرپر پھوڑا اور انقلابی رہنما کو یہ کہہ کر بچانے کی کوشش کی گئی کہ اگر انقلابی رہنما کی ہدایات نافذ کی گئی ہوتیں تو یہ معاشی صورت حال سامنے نہ آتی۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر کیسے ایران جیسے کسی استبدادی حکومت کے خلاف اچانک اتنی قوت اور جرأت کے ساتھ مظاہرے ہوسکتے ہیں، جہاں حکومت اور اس کے تہ در تہ جاسوسی اداروں کی گرفت ایرانی معاشرہ پر کافی مضبوط ہے اور پورے معاشی نظام پر حکومت کا تسلط ہے ۔ اس کا ایک جواب یہ ہے عراق، لبنان اور یمن میں عربی سماجی تانے بانے کو توڑنے اور روسی فوجی طاقت کی پشت پناہی اور فرقہ پرست عناصر کی مدد سے شام میں کامیابی نے ایرانی حکومت اور حکام کو غرور میں مبتلا کر دیا تھا۔ جب کہ اس کامیابی کے حصول اور مبینہ جیت کی ایک بڑی قیمت ایرانی اقتصادیات کو چکانی پڑی اور اس کے لیے ایران کا ملائی نظام عوام سے وعدے پر وعدے کرتا رہا اور ملک کے ذرائع کو انقلاب ایکسپورٹ اور ملیشیاؤوں کو ہتھیار فراہمی میں لگاتا رہا۔ولایت فقیہ کے دعویدار نظام کی نگاہیں عرب ممالک میں اثرورسوخ پھیلانے پر لگی تھی، اور ایرانی عوام سے غافل تھی اورنظام کے مطمح نظر اپنی عزائم کی تکمیل کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔
7 جنوری 2018 کے ادارتی صفحہ پر مذکورہ “الحیاۃ “نے ایک کالم جویس کرم کا شائع کیا ہے۔ جویس کرم لکھتی ہیں ، پچھلے دوہفتوں سے ایران میں مظاہرے ہورہے ہیں، تبریز سے اصفہان تک ، اصفہان سے بندر عباس اور ملک کے دیگر شہروں تک مظاہرے پھیل چکے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا چاچکا ہے۔ سرکاری طور پر 21 افراد کےہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، وسیع پیمانے پر ہونے والے پر تشدد مظاہرے اور نعروں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے حالات اس سے زیادہ خراب اور پیچیدہ ہیں جتنا حکومت بتانے اور دکھانے کی کوشش کررہی ہے اور جواد ظریف ، جس کے لیے عرب ،مغربی ممالک، اسرائیل یا داعش کا ہاتھ بتارہے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ باہری ہاتھ کے ہونے کا اشارہ کرکے اور سازش کا الزام لگاکر ایرانی قیادت ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی ہے۔
عرب امارات سے شائع ہونے والا اخبار ” الامارات الیوم “نے بھی 3 جنوری 2018 میں سامی الریامی کا کالم بعنوان “ایران میں جو ہورہا ہے کیا وہ ایرانی حکام کے سمجھ میں آرہا ہے: شائع کیا ہے، اس کالم نے بھی ایران حکام پر وہی الزامات عائد کیے ہیں جو مذکورہ بالا کالموں میں گزرچکا ہے۔ تقریباً سارے اداریوں اور کالموں کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ ایرانی حکومت ایک ملائی اوراستبدادی حکومت ہے، یہ عوام کے مختص ذرائع کو دوسرے عرب ملکوں میں اپنے اثرورسوخ بڑھانے اور توسیع پسندانہ عزائم کے لیے استعمال کررہی ہے اور عوام کی بنیادی ضروریات سے نظر چرارہی ہے، حالات سے پریشان ہوکر اسی عوام نے حکمراں طبقہ کو سبق سکھانے کا عز م کیا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ ایرانی حکام کو ہوش کے ناخن لینے پر مجبور کرے اور ایران سیاسی مداخلت سے باز آکر عربی اور خلیجی ممالک کےساتھ ایک اچھے پڑوسی کی طرح رہے۔ اگر ایران اس عوامی غصہ کو وقتی طور پر دبانے میں کامیاب بھی ہوگیا تب بھی مسئلہ ختم نہیں ہونے جارہا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگاکہ مسئلہ اب شروع ہوا ہے اور اس مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایک ہی ترکیب ہے کہ ایران خارجی سیاست میں دخل اندازی بند کرے، دوسرے ممالک میں اختلافات کو شہ نہ دے اور اپنے کام سے کام رکھے۔
سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات نے اپنے معاشی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کرتے ہوئے یکم جنوری 2018 سے ویلو ایڈیڈ ٹیکس (ویٹ) نافذ کردیا ہے۔ خلیجی ممالک میں یہ دونوں پہلے ممالک ہیں جہاں پر یہ ٹیکس نافذ ہوا ہے،لیکن 2019 سے ویٹ نافذ کرنے کی تیاری دوسرے خلیجی ممالک میں بھی چل رہی ہے۔ سوموار اور منگل کی درمیانی شب میں اس کے لاگو ہونے کی وجہ سے ایندھن کی قیمتوں میں 127فیصد زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، پٹرول کی قیمتوں میں گراوٹ کے بعد پچھلے دوسالوں سے اس کی تیاری چل رہی تھی اور ایسا ان دونوں ملکوں نے ملکی آمدنی میں اضافہ اور خرچ میں کمی لانے کےلیے کیا ہے، واضح رہے کہ ابھی بھی کسی خلیجی ملک میں کوئی انکم ٹیکس کا نظام نہیں ہے اور حکام کے مطابق مستقبل میں اس کا کوئی اراداہ بھی نہیں ہے۔1 اور 2 جنوری 2018 کو یہ خبر خلیجی اور عربی ممالک سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات کی زینت بنی جس میں سے ایک الاقتصادیہ بھی ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے عربی جریدہ “الشرق الاوسط” کے مطابق ماسکو اور قاہرہ کے درمیان پھر سے ہوائی سروس بحال ہوجائے گی۔ بتاتے چلیں کہ اکتوبر 2015 سے روس اور مصر کے درمیان ہوائی خدمات اس وقت بند ہوگئی تھی جب ایک روسی طیارہ مصری سرزمین پر حادثہ کا شکار ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں 224 مسافر ہلاک ہوگئے تھے ۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق روس سے تھا ۔ اس حادثہ کی ذمہ داری داعش نے لی تھی۔
”الشرق الاوسط“کا ایک کالم جس کا تعلق ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان ہتھیار کے خریدوفروخت کی منسوخی ہے، اس میں سوسن الابطح ہندوستان پکاررہا ہے (India is calling) کے عنوان کے تحت لکھتی ہیں کہ نئے سال میں ایک خوبصورت خبر دیکھنے کو ملی کہ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ 500 ملین ڈالر کا اسلحہ معاہدہ منسوخ کردیا ہے اور اس خبر کا سب سے خوش کن پہلو یہ ہے کہ یہ منسوخی اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کے نئی دہلی آمد سے قبل عمل میں آئی ہے، اس سے پہلے نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی قرارداد کے خلاف ووٹ دیکر اسرائیل کو ایک صدمہ دیا تھا۔
( مضمون نگار نےجے این یو کےسنٹر آف عربک اینڈ افریقن اسٹدیز سے پی ایچ ڈی کیا ہے اور ان کی دلچسپی مشرق وسطی کے معاملات میں ہے۔)
Categories: فکر و نظر