جاسوسی شاید دنیا کے قدیم تر پیشوں میں سے ایک ہوگا۔ سرد جنگ کے دوران امریکی اور سوویت یونین کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے کارناموں پر تو کئی فلمیں بن چکیں ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔
ملک کا نظم و نسق صحیح رکھنے اور پر اعتماد گورنننس کویقینی بنانے کیلئے کسی بھی حکومت کیلئے عوامی راوبط برقراررکھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہونے والے تغیرات سے بھی آگاہی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ موجودہ عالمی نظام میں جہاں ملکی مفادات سرحدوں سے باہر تجاوز کرتے ہوں، ایک پختہ اور قابل اعتماد انفارمیشن سسٹم کا ہونا لازمی ہے۔ جیسا کہ 1991میں فارن ٹریڈ ہندوستان کی جی ڈی پی کا محض15.6فی صد ہوا کرتا تھا، جو اب بڑھ کر 51فیصد ہوگیا ہے ۔ اور اسکا بڑھا حصہ ساوتھ چائنا سمندری علاقوں ، انڈونیشیا، ملیشیا اور سنگاپور کے آبنائے ملاکا سے ہوکر گذرتا ہے۔ اسلئے ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کیلئے لازم ہے کہ اس خطے پر خصوصی توجہ دیکر کسی بھی کرائسس کی قبل از وقت نشاندہی کر کے، حکام کو اس کی پیش بندی کا موقعہ دیں، کیونکہ ملک کی معیشت ا ور استحکام کا دارومدار ان سمندر ی گزرگاہوں کی سیکورٹی اور آزادانہ آمد و رفت پر منحصر ہے۔
ہندوستان کے تقریباًسبھی وزرائے اعظم صبح سویرے دو انٹلی جنس سربراہوں سے الگ الگ بریفنگ لے کر اپنا دن کا کام کاج شروع کرتے آئے ہیں۔اس کے علاوہ پریس انفارمیشن بیورو قومی اورعلاقائی اخباروں میں چھپی خبروں ، اداریوں اور کالموں کا ایک مدلل خلاصہ ان کو صبح سویرے فراہم کراتا ہے۔ہندوستان میں آئی بی یعنی انٹلی جنس بیورو، ملکی انٹلی جنس (خفیہ معلومات و اطلاعات) کے حصول کی انچارج ہے ، جبکہ ریسرچ اینڈ اینا لیسیس ونگ (RAW) کا دائرہ بیرونی ملکوں سے خفیہ اطلاعات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ خصوصاً اس کا سیدھا ہدف پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک ہیں۔یعنی اپنی میز پر بیٹھنے یا کوئی میٹنگ اٹینڈ کرنے سے قبل ہندوستانی وزیراعظم کو اس دن کے ملکی اور غیر ملکی حالات و واقعات اور ان کی نہج کا بھرپور ادراک ہوتا ہے۔ اگر وزیراعظم دورہ پر ہے، تو دونوں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی ان کے ہم رکاب ہوتے ہیں اور وہ انہیں پل پل کی خفیہ اطلاعات پہنچاتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ وزیر اعظم ہاوس کے لان میں واک کرتے ہوئے وہ صبح 6 اور 7 بجے کے درمیان خفیہ ایجنسیوں کے سربرراہان ان کو بریف کرتے تھے۔ یہ پریکٹس ان کے جانشین من موہن سنگھ نے بھی جاری رکھی۔ مگر اب بتایا جاتا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کی بریفنگ اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جولائی 2001میں آگرہ چوٹی ملاقات سے قبل20جون کو صبح سویرے واجپائی نے جنرل پرویز مشرف کو فون کرکے صدر کاعہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ تب تک مشرف نے فائل پردستخط ہی نہیں کئے تھے۔یہ واجپائی کی زبان پھسل گئی تھی یا وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ انکی خفیہ ایجنسی کس حد تک پاکستان یا مشرف کے اندرون خانہ اثر و رسوخ رکھتی ہے ہنوز جواب طلب ہے۔
ریاستوں کیلئے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی ٹوہ لینا لازمی ہوتا ہے۔ جاسوسی شاید دنیا کے قدیم تر پیشوں میں سے ایک ہوگا۔ سرد جنگ کے دوران امریکی اور سوویت یونین کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے کارناموں پر تو کئی فلمیں بن چکیں ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ یہاں حکومتی اور عوامی حلقوں میں یہ اعتراف تو ہے، کہ کل بھوشن جادھو پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے کا مرتکب ہوسکتا ہے، مگر اس ایشو کو کشیدگی کی وجہ بنانا سیاسی اور سفارتی دیوالیہ پن کا بد ترین مظاہر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاسوسی اور جاسوسوں کو پکڑنے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنا ان ممالک کا وجود۔ خود ہندوستان کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوول راء نے جاسوسی اور خفیہ اطلاع فراہم کروانے میں خاصا نام کمایا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے 7سال تک پاکستان میں RAW کے انڈر کور ایجنٹ کے بطور کام کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار لاہور کے داتا دربار میں ایک باریش معمر مولوی نما شخص نے کونے میں لیجاکر ان سے استفسار کیا، کہ کیا وہ ہندو ہیں؟ یہ سن کر دوول کو لگا کہ اس کا گیم اب ختم ہوگیا ہے اور یہ شخص شاید پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ااہلکار ہے۔مگر اپنے دفاع میں اس نے زور و شور سے ہندو ہونے سے انکار کیا۔ مولوی نما شخص نے جواب دیا کہ وہ بھی ہندو ہے اور مسلمانو ں کے بھیس میں ہے، اس نے دوول کو ہدایت دی کہ وہ اپنے چھیدے ہوئے کانوں کا کوئی علاج کرے ، ورنہ اس شناخت سے وہ مشکل میں پڑسکتا ہے۔ دوول نے بعد میں سرجری کے ذریعے کانوں کے سوراخوں کو بند کروایا۔ مگر اکثر نجی ملاقاتوں میں وہ افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ نہ ہی وہ اس پاکستانی ہندو نما مولوی کا شکریہ ادا کرسکے نہ ہی اسکی کوئی مدد کرپائے، جس نے انکو گرفتار ہونے اور کل بھوشن جادھو بننے سے بچایا۔
ہندوستان کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب A Feast of Vultures میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت دوول بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ دوول ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے جس کا مقصد کراچی میں آپریشن کرکے 1993ء کے ممبئی دھماکوں میں ملوث گینگسٹر داؤد ابراہیم کو ٹھکانے لگانا تھا۔ 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں ملٹری آپریشن سے قبل دوول نے انتہائی جرات اور مہم جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عبادت گاہ میں موجود سکھ انتہا پسندوں کے ٹھکانوں اور ان کی ملٹری استعداد کی بھر پور معلومات حاصل کی تھیں جس کے لئے ان کو اعلیٰ ایوارڈ کیرتی چکر سے نوازا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے یونٹ نے ایک وائر لیس مسیج کو ڈی کوڈ کر دیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کوئی افسر گولڈن ٹمپل میں انتہا پسندوں کی فوجی تنصیبات کا جائزہ لینے اور قلعہ بندی کرنے کا مشورہ دینے آرہا ہے۔چونکہ یہ تقریباً طے تھا کہ ہندوستانی فوج اب کسی بھی وقت عبادت گاہ کے کمپلیکس پر چڑھائی کرنے والی ہے، دوول نے آئی ایس آئی کا ہی افسر بن کر عبادت گاہ تک رسائی حاصل کرکے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ریٹائرڈ میجر جنرل شہبیگ سنگھ سے اکال تخت میں ملاقات کرکے فوجی تیاریوں اور قلعہ بندیوں کا بھر پور جائزہ لے کر اور اس کا خاکہ ذہن میں بنا کر باہر آگیا۔ ان کی اس مہم جوئی سے فوج کے لئے گولڈن ٹمپل پر حملہ کرنے میں خاصی سہولت ہوگئی۔ فوج کو معلوم تھا کہ پانی کی ٹنکی کے اوپر اینٹی ایئرکرافٹ اور اینٹی ٹینک گن چھپی ہوئی ہے۔ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کی تاریخ میں رویندر کوشک بھی افسانوی حثیت اختیار کر چکا ہے۔ محض 23سال کی عمر میں راء کے ا نڈر کور ایجنٹ کے بطور نبی احمد شاکر کے نام سے اسکو پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔ 1979سے 1983تک اسنے انتہائی حساس معلومات کا خزانہ ہندوستان کو فراہم کرایا۔ خود آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی اسکو سیاہ ٹائیگر کے نام سے یاد کرتی تھی۔ کوشک پاکستانی فوج میں بھرتی ہوگیا تھا۔ 1983میں RAW کے ایک اور ایجنٹ عنایت مسیح کی گرفتاری کی وجہ سے اسکا بھانڈا پھوٹ گیا اور 1985میں جادیو کی طرح اسکو موت کی سزا سنائی گئی۔مگر اس پر کبھی عملدرامد نہیں ہوسکا اور نومبر 2001 میں حرکت قلب بند ہونے اور ٹی بی کی وجہ سے ملتان جیل میں اسکی موت ہوگئی۔
70کی دہائی کے اواخر تک ہندوستان اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کا اشتراک اور محور پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ہندوستان کیلئے تویہ خطرہ تھا ہی، اسرائیل اسکو اسلامی بم سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں پلوٹونیم ری پررسیسنگ کی جانکاری تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ پاکستانی سائنسدان یورونیم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ مگر کہاں او ر اسکا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔منصوبہ تھاکہ پلانٹ کا پتہ چلتے ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد ہندوستانی سرزمین سے فضائی کاروائی کرکے اسکو تباہ کردیگا۔ جیسا کہ بعد میں 1981 میں اسنے اسی طرح کا آپریشن کرکے عراقی نیوکلیر ریکٹر کو تباہ کردیا۔ RAW کے ذمہ اس پلانٹ کا پتہ لگانا تھا۔ جب کئی آپریشنز ناکام ہوئے، تو بتایا جاتا ہے، کہ ہندوستانی خفیہ اہلکاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکھٹے کرنے شروع کر دیئے۔ ان کو ٹسٹ ٹیوبوں میں محفوظ کرکے لیبل لگا کر ہندوستان بھیجا جاتا تھا، جہاں انتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سال ہا سال چلے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یورینیم ۔235 کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ اور یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان 90فیصد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو بم بنانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کیلئے 4یا5فیصد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے۔اور یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔مگر تب تک ہندوستان میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔
1978میں نئے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب RAW کے افسران یہ منصوبہ لیکر پہنچے، تو انہوں نے نہ صرف اسکی منظوری دینے سے انکار کیا، بلکہ صدر ضیاء الحق کو فون کرکے بتایا، کہ ہندوستان کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے۔ RAW نے ڈیسائی کو اسکے لئے کبھی معاف نہیں کیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نے پاکستانی صدر کو یہ بتا کر RAW کے ایجنٹوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا۔ اور اس کے بعد کئی برسوں تک RAW اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ڈیسائی واحد شخص ہیں ، جنہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ’’نشان پاکستان‘ اورہندوستان کے اعلیٰ ترین ایواڑ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ ڈیسائی کے اس قدم سے پاکستان نے نہ صرف کہوٹہ کو فضائی حملوں سے محفوظ کیا، بلکہ پس پردہ سفارتی کوششوں سے اسرائیل کو باور کرایاکہ پاکستانی نیوکلر بم اسکے لئے خطرہ نہیں ہے۔ صدر مشرف کے دور میں بھی جب ہندوستان اور امریکہ کے درمیان سویلین جوہری معاہدہ کے خدو خال طے ہورہے تھے، تو واشنگٹن میں طاقتور یہودی لابی کو اسکی حمایت سے باز رکھنے کیلئے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے استنبول میں ملاقات کی۔ 2015میں قصوری نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا، کہ یہ میٹنگ کسی جیمس بانڈ فلم کی اسکرپٹ سے کم نہیں تھی۔ ترکی کے اسوقت کے وزیر اعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے یہ میٹنگ طے کی تھی۔ قصوری کے مطابق ان کا جہاز پاکستان سے لیبیا کیلئے روانہ ہوا، بعد میں مالٹا ہوتے ہوئے ، استنبول میں اترا۔ جہاز کو ایرپورٹ کی بلڈنگ سے دور لینڈنگ کی اجازت مل گئی، جہاں پر اردگان کے ایک معتمد نے ان کا استقبال کیا۔ اسی دوران پورے استنبول شہر کی بتیاں گل کر دی گئیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ پاور سپلائی میں خرابی آگئی ہے۔ گھپ اندھیرے میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراء خارجہ کی میٹنگ ہوئی۔ خدشہ تھا کہ اگر یہ خبر میڈیا تک پہنچی، تو پاکستان میں سیاسی قیامت آجائیگی۔
چند برس قبل ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ اور موجودہ نائب وزیر خارجہ جنرل وی کے سنگھ نے بھی پاکستان اور چین کے مقابل انتہائی خفیہ یونٹ ٹیکنیکل سروسز ڈیویژن (ٹی ایس ڈی) تشکیل دیا تھا۔ مئی 2012 میں وی کے سنگھ کی سبکدوشی کے فورا بعد نئے آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ٹی ایس ڈی کو تحلیل کرکے اس یونٹ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کیکئے ایک اندروں خانہ انکوائری کا حکم دیا تھا۔ ملٹری آپریشن شعبہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹنت جنرل ونود بھاٹیہ کی قیادت میں تقریبا ایک سال کی عرق ریزی کے بعد اس اندرون خانہ انکوائری کمیٹی نے ہوشربا انکشافات پر مشتمل ایک رپورٹ آرمی چیف کو سپرد کی ۔ جب یہ ہوشربا انکشاف ہوا کہ نہ صرف اس فوجی یونٹ نے پاکستان کے اندر آپریشن ڈیپ اسٹرائیک کے کوڈ نام کے تحت کاروائیاں کی ہیں بلکہ چینی صوبہ اسکینانگ تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے، تو اعلی سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ جامع تحقیق تفتیشی ایجنسی کے بجائے انٹلی جنس ایجنسی آئی بی کے سپر د کی جائے ، تاکہ تحقیق خفیہ رہے۔جنرل بھاٹیہ کمیٹی کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ کے مطابق اس خفیہ دستہ نے ایک ہمسایہ ملک میں آٹھ بم دھماکے انجام دینے کیلئے وسائل فراہم کئے۔ اور ایک دیگر ہمسایہ ملک میں سیاسی اور مذہبی بے چینی کو ہوا دی۔ بلوچستان کا نام لئے بغیر رپورٹ یہ بھی کہتی ہے ، کہ اس یونٹ نے ہمسایہ ملک میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو نہ صرف وسائل فراہم کئے بلکہ تحریک بھی دی۔ کئی جگہوں خصوصا جموں، سرینگر، احمدآباد، گوہاٹی اور ممبئی میں اس یونٹ نے کئی خفیہ ٹھکانے بنائے۔تفتیش کے دوران آئی بی نے انتہائی جدید تریں آف ایر ٹیلیفون ریکارڈینگ مشینیں برآمد کیں،۔ چندمشینوں کو چھوڑ کر جنہیں لائن آف کنٹرول پر متعین کیا گیا تھا، بقیہ مشینوں کو آئی بی نے ناکارہ بنادیا اور ان میں سے ایک کو سرینگر میں دریائے جہلم کے سپرد کیا گیا۔ اس یونٹ کا ہیڈکوارٹر دہلی کی فوجی چھاونی کے اندر ایک دومنزلہ عمارت میں رکھا گیا تھاجو جلد ہی فوجیوں میں Butchery یعنی ’قصائی خانہ‘ کے نام سے موسوم ہوگیا تھا۔ڈویژن کی کمان جنرل سنگھ نے اپنے ایک دیرینہ رفیق کار کرنل مہیشور ناتھ بخشی المعروف ھنی بخشی کے سپرد کی ۔
ہندوستان میں پاکستانی جاسوسوں نے بھی اسی طرح کے کئی کارنامے انجام دے ہیں جن کا ذکر ہندوستانی سیکورٹی ایجنسیوں کی فائلوں میں درج ہے۔ان کا ذکر پھر کبھی۔
Categories: فکر و نظر