ہندوستان میں غیر منطقی اور غیر سائنسی باتوں کو جس قسم کی شہہ مل رہی ہے اور عدم اتفاق کی آوازوں کو منصوبہ بند طریقے سے کچلا جا رہا ہے، اس کو روکنے کی ضرورت ہے تاکہ آئین کو بچایا جا سکے۔
ملک کی راجدھانی اور ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا ایک نظارہ؛ ٹھسا ٹھس بھرے آڈیٹوریم میں ‘ روحانی امراض قلب کا ماہر کہلانے والا ایک شخص پہنچتا ہے اور اپنی تقریر شروع کرتا ہے۔ موضوع ہے جن یعنی بھوتوں کی موجودگی۔خطیب نے تمام غیر مرئی حیوانات کو تین زمروں میں بانٹا، وہ جو اڑ سکتے ہیں ؛ جو حالات کے حساب سے ساخت اور شکل بدل سکتے ہیں اور وہ جو اندھیری جگہوں میں رہا کرتے ہیں۔
ان کی آسان سی دلیل تھی کہ آخر کھربوں ڈالر کا کاروبار کرنے والا ہالی ووڈ ہارر موویز یا پیرانارمل واقعات پر اتنی رقم برباد کیوں کرتا اگر ان کا وجود نہ ہوتا۔غنیمت سمجھیں کہ یہ پروگرام پڑوسی ملک کی راجدھانی اسلام آباد میں منعقدہوا۔ پاکستان کے مشہور ماہر طبعیاتاور انسانی حقوقکے کارکن پرویز ہدبھائے نے وہاں کے اخبار دی ڈان میں اپنے ایک مضمون Jinns invade campusesمیں اس کے بارے میں گفتگو کی تھی۔
ان کے مطابق ایسے انعقاد وہاں اب استثنا قطعی نہیں ہیں۔ پیرانارمل علم کے ماہر آئے دن وہاں کے اسکولوں،کالجوں میں پہنچتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی کے مشہور انسٹی ٹیوٹ فار بزنس مینجمنٹ نے ‘ انسان کے آخری پل ‘ موضوع پر بولنے کے لئے ایسے ہی کسی شخص کو بلایا تھا۔سائنس اور منطق کی مخالفت نے ‘ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بیداری کے چراغ یا نئے غوروفکر کے علمبردار ہونے کے بجائے بھیڑ وں کے فارم میں منتقلی ‘ (بقول ہدبھائے) کی یہ حیرت انگیز کہانی ہر ذی شعور آدمی کو متفکر کر سکتا ہے۔
ممکن ہے ایسے لوگ اس بات پر ہنس بھی سکتے ہیں کہ وہاں 10ویں کلاس کی طبعیات کی کتاب میں طبعیات کی تاریخ میں نیوٹن اور آئنسٹائن غائب ہیں بلکہ ٹالیمی دی گریٹ، الکندی، ابن ہیثام وغیرہ موجود ہیں یا کس طرح خیبر پختونخوا ریاست میں نصاب کے لیے لکھی حیاتیات کی کتاب ڈارون کے ایوولیوشن کے اصول کو سرے سے خارج کر دیتی ہے۔
پڑوسی ملک میں بڑھتی بنددماغی کو لےکر ہر وہ شخص فکرمند ہو سکتا ہے جو سائنسی غوروفکر، استدلال میں ہی نہیں پوری انسانیت کی بہتری میں یقین رکھتا ہو۔ کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ وہاں ایسی حالتیں راتوں رات تیار نہیں ہوئی ہیں، اس کے بیج بہت پہلے پڑے ہیں۔ویسے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں تو لگ سکتا ہے کہ یہاں بھی ایسی کوششیں زور پکڑتی دکھ رہی ہیں، البتہ اس پر زیادہ دھیان نہیں گیا ہو۔ گزشتہ دنوں کا واقعہ شاید اسی بات کی حمایت کرتا ہے۔
انسانی وسائل کے وزیر مملکت ستیہ پال سنگھ جو کیمسٹری میں گریجویٹ کی ڈگری حاصل کئے ہیں اور جنہوں نے اپنی فعال زندگی پولیس خدمات میں گزار دی، نے کسی جلسہ میں بولتے ہوئے ڈارون کے ارتقائيت کے نظریہ کو خارج کر دیا۔ان کی دلیل آسان تھی کہ ‘ ڈارون کا نظریہ غلط ہے کیونکہ ہمارے آباواجداد نے اس بات کا کہیں ذکر نہیں کیا کہ بندر کو آدمی میں بدلتے ہوئے انہوں نے دیکھا ہے۔ ‘
اپنی یہ ذاتی رائے ظاہر کرکے ہی وہ خاموش نہیں ہوئے انہوں نے اسکولی نصاب میں موجودہ اصول ونظریات کے سکھائے جانے پر بھی سوال اٹھائے۔یقیناً یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ وزیر جناب اپنے متنازع بیانات کے لئے سرخیوں میں آئے ہوں۔ گزشتہ سال ستمبر مہینے میں انہوں نے یہ کہہکر ہلچل مچا دی تھی کہ آئی آئی ٹی کے طالب علموں کو یہسکھانا غلط ہے کہ ہوائی جہاز کا ایجاد رائٹ برادران نے کیا، دراصل اس کا ایجاد شیو رام باپوجی تلپڑے نے کیا تھا۔
حکمراں پارٹی کے ایک ایسے اہم ترین ممبر، جو وزارت انسانی وسائل ترقی جہاں بچّوں کا مستقبل بنانے کی پالیسیاں بنتی ہیں، میں اہم عہدے پر ہیں، ان کی بات کو محض بڑبڑانا نہیں کہا جا سکتا۔بات کی سنجیدگی اس وجہ سے بھی بڑھ گئی کہ پارٹی کے ایک اہم ترین ممبر رام مادھو جو حکومت کی پالیسیوں کو سمت دینے کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے ڈارون کو لےکر وزیر جناب کے ‘ بنیادی خیالات ‘ کی فوراً حمایت کی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین میں سائنسی غوروفکر کے جس نظریہ پر زور دیا گیا ہے، اور جس کا حلف وزیر جناب نے لیا ہوگا، اس کے ساتھ ان کا یہ بیان پوری طرح بےتکا معلوم پڑتا ہے اور یہ بےوجہ نہیں کہ عام طور پر عوامی بحثوں سے دور رہنے والے سائنس کے مختلف اداروں نے بھی اس مسئلے پر سخت رد عمل ظاہرکیا۔
اپنے بیان میں انہوں نے ان کے بیان کو سرے سے خارج کیا۔ انہوں نے شامل کیا کہ ڈارون کا اصول سائنسی ہے اور جس کی بنیاد پر ایسی تمام پیشن گوئی کی گئی ہیں جو تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر صحیح ثابت ہوئے ہیں۔ایکولوجی اور ایوولیوشنری سائنس کے مشہورسائنس داں راگھویندر گڑگکر جو فی الوقت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں پروفیسر ہیں اور انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی کے سابق صدر ہیں نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ یہ ‘ ایک طرح سے سائنس اور سائنس دانوں کو سیاسی طور پر پولرائزڈ کرنے کی کوشش ہے ‘ اور اس ‘ حقیقیخطرہ کے خلاف ہمیں باخبر رہنا چاہیے۔ ‘
ملک بھر کے ہزاروں سائنس دانوں نے جس بیان پر دستخط کئے ہیں، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے ؛
‘ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ ویدوں میں تمام سوالوں کا جواب ہے۔ یہ مبالغہ آمیز دعویٰ دستیاب ثبوتوں پر کھرا نہیں اترتا اور ایک طرح سے ہندوستان کی سائنسی روایتوں کی تاریخ کے مطالعے پر جو ریسرچ چل رہی ہے، اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ ویدک روایات اپنے ممتاز نظم وضبط کے ذریعے ہمیں ویدوں کے تجزیے میں معقولیت پر اور منصفانہ ضمیرپر زور دینے کے لئے کہتے ہیں۔ آپ کے دعوے ایک طرح سے انہی روایتوں سے متضاد ہیں جن کی حفاظت کا آپ دعویٰ کرتے ہیں۔ ‘
یقیناً اس قسم کا بیان دینے میں وزیر صاحب اکیلے نہیں کہے جا سکتے ہیں۔ کچھ مہینہ پہلے راجستھان کے وزیر تعلیم نے یہ بیان دےکر چونکا دیا تھا کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن چھوڑتی ہے۔
بھلےہی اب بات تھوڑی پرانی لگے مگر یاد کریں کہ کس طرح دھیروبھائی امبانی کے ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر خود وزیر اعظم جناب مودی نے طبی سائنس کو علم الاساطیر سے جوڑا تھا اور گنیش اور کرن کی مروجہ کہانیوں کے بہانے قدیم ہندوستان میں ‘ پلاسٹک سرجری ‘ اور ‘ جنیٹک سائنس ‘ کی موجودگی کو نشان زد کیا تھا۔
وزیر اعظم کے دفتر کے ذریعے ویب سائٹ پر ڈالے گئے ان کی تقریر کے مطابق انہوں نے کہا تھا ‘ ہم گنیش جی کی عبادت کرتے ہیں۔ کوئی پلاسٹک سرجن ہوگا اس زمانے میں جس نے انسان کے جسم پر ہاتھی کا سر رکھکر پلاسٹک سرجری کی شروعات کی ہوگی۔ ‘
دراصل ان دنوں عالم یہاں تک پہنچا ہے کہ آئین کی قسم کھائے لوگوں سے اس قسم کی غیر سائنسی باتیں کہی جا رہی ہیں اور یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ اسی پارلیامنٹ کے فلورپر سال 1958 میں سائنس پالیسی کی تجویزکو اس وقت کے وزیر اعظم نے پورا پڑھا تھا۔13 مارچ 1958 اور ایک مئی 1958 کو اس پر ہوئی بحث میں کسی رکن پارلیامانٹ نے یہ نہیں کہا کہ ہندوستان مذہب اور عقیدہ کا ملک ہے۔ رکن پارلیامانٹ نے کمبھ میلا، مذہبی سفر پر طنز کئے تھے، جن کا استعمال ان کے مطابق ‘ اوہام پرستی اور اندھااعتقاد پھیلانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ‘ آزاد ہندوستان کو سائنس اور منطق کے راستے پر آگے لے جانے کے متعلق اکثریت کا پورا اتفاق تھا۔
یہ قابل غور مسئلہ کسی کو لگ سکتا ہے کہ وزراء کی اپنی ان پہچان، سمجھداری کو لےکر باقی عوام کو کیوں فکرمند ہونا چاہیے؟ دراصل ذمہ داری کے عہدے پر بیٹھے ان لوگوں کی رائے ان کے نجی کمروں تک محدود نہیں ہیں، اس کا اثر پالیسیوں پر بھی پڑتا دکھ رہا ہے۔مثال کے طور پر سائنس کی ترقی کے لئے فنڈ فراہمی بڑھانے کے بجائےجو پہلے سے بہت کم ہے-اس کا استعمالایسی چیزوں پر ہو رہا ہے جن میں اس سمجھداری کو منعکس ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یاد رہے سائنس کی نئی شاخ کے طور پر کاؤپیتھی کی آمد یا گئو وگیان کا اس کلب میں نیا داخلہ ہوا ہے۔ کچھ وقت پہلے قومی سطح کے تمام سائنسی محکمہ جات اور قومی تجربہ گاہ نے اس بارے میں ایک نئے مشترکہ قدم کا اعلان کیا تھا۔ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے ‘ پنچ گویہ ‘ کی سائنسی تصدیق اور اس سلسلے میں ریسرچ کو آگے بڑھانے کے لئے راشٹرکمیٹی کا تشکیل کیا گیا ہے۔ اس 19 رکنی کمیٹی کے کام کرنے کی مدت تین سال ہے۔
وہیں دوسری طرف عالم یہ ہے کہ آئی آئی ٹی، این آئی ٹی اور آئی ائی ایس ای آر جیسے اہم سائنسی تکنیکی اداروں کی مالی امداد کو گھٹایا جا رہا ہے، سائنسی تحقیق میں مدد کے لئے یونیورسٹیوں کو فنڈ کی کمی جھیلنی پڑ رہی ہے۔ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سینٹر فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ جیسے اداروں کے پاس اپنے ملازمین، سائنس دانوں کی تنخواہ دینے کے لئے پیسے کے لالے پڑ رہے ہیں، ان سبھی کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایجاد اور دیگر ذرائع سے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ جٹایا کریں۔
اس کو محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ کپتانوںکے خاص نظریات نے ہندوستانی سائنس کانگریس کی بحثوں کو بھی متاثر کیا ہے-جہاں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نام نہاد سائنس کو سائنس کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یا سائنسی اداروں کے ذریعے ملنے والی رقم میں کٹوتی جاری ہے اور ایک خاص ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں ان کا استعمال ہو رہا ہے۔
بیتے سال کی شروعات میں تروپتی میں منعقد ‘ ہندوستان سائنس کانگریس ‘ کے اجلاس کو لےکر سائنس دانوں کے ایک حصے اور عوامی سائنس اور عقلی تحریک کے کارکنوں نے اپنا اعتراض پہلے ہی درج کیاتھا۔مشہور سائنس داں اور سینٹر فار سیلیولر اینڈ مالیکیولر بایولوجی کے سابق ڈائریکٹر پی ایم بھارگو کے ذریعے اس بارےمیں جاری بیان کافی مشہور بھی ہوا تھا جب انہوں نے سائنس کانگریس میں سائنس اور روحانیت جیسے مسائل پر سیشن منعقد کرنے کے لئے مرکزی حکومت اور سائنس کانگریس کی سخت مذمت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا، ‘ میں ابھی تک چالیس سے زیادہ بار ہندوستانی سائنس کانگریس کے اجلاس میں 1948 کے بعد سے موجود رہا ہوں مگر سائنس کو ضعیف الا عتقادی کے برابر رکھنا ایک طرح سے ہندوستانی سائنس کے دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ ‘
یہاں تک کہ اس کا اثر اسکولی کتابوں کی فہرست پر صاف دکھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، گجرات حکومت کے ذریعے سرکاری اسکولوں کے لئے ضروری بنا دی گئی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مبلغ دیناناتھ بترا کی کتابوں کو پلٹیں، تو اس کا اندازہ لگتا ہے۔تین سال سے زیادہ عرصہ پہلے گجرات حکومت نے ایک سرکلر کے ذریعے ریاست کے 42000 سرکاری اسکولوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ complementary ادب کے طور پر دیناناتھ بترا کی نو کتابوں کی سیٹ کو شامل کرے۔
ان کتابوں کو لےکر ‘ انڈین ایکسپریس ‘ نے دو تین حصوں میں اسٹوری کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گجرات کے سرکاری اسکولوں میں complementary نصاب میں شامل ان کتابوں میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی اور گجرات کے وزیر تعلیم بھوپیندر سنگھ وغیرہ کے پیغام بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ‘ تیجومے بھارت ‘ کتاب میں ہندوستان کی ‘ عظمت ‘ کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں :
امریکہ اسٹیم سیل ریسرچ کا سہرا لینا چاہتا ہے، مگر سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کے بال کرشن گنپت ماتاپورکر نے جسم کے حصوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے پیٹینٹ پہلے ہی حاصل کیا ہے آپ کو یہ جانکر تعجب ہوگا کہ اس ریسرچ میں نیا کچھ نہیں ہے اور ڈاکٹر ماتاپورکر مہابھارت سے ترغیب حاصل کیاتھا۔ کنتی کا ایک بچّہ تھا جو سورج سے بھی تیز تھا۔ جب گاندھاری کو یہ پتا چلا تو اس کا اسقاط حمل ہوا اور اس کی کوکھ سے گوشت کا لمبا ٹکڑا باہر نکلا۔ دویپائن ویاس کو بلایا گیا جنہوں نے اس کو کچھ دوائیوں کے ساتھ پانی کی ٹنکی میں رکھا۔ بعد میں انہوں نے گوشت کے اس ٹکڑے کو 100 حصوں میں بانٹ دیا اور ان کو گھی سے بھرپور ٹینکوں میں دو سال کے لئے رکھ دیا۔ دو سال بعد اس میں سے 100 کورو نکلے۔ اس کو پڑھنے کے بعد ماتاپورکر نے محسوس کیا کہ اسٹیم سیل کی کھوج ان کی اپنی نہیں ہے بلکہ وہ مہابھارت میں بھی دکھتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کا ایجاد اسکاٹ لینڈ کے ایک پادری جان لوگی بیئرڈ نے 1926 میں کیا۔ مگر ہم آپ کو اس کے پہلے دوردرشن میں لے جانا چاہتے ہیں ہندوستان کے منیشی یوگ ودیاکےذریعے بصیرت حاصل کر لیتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی ویژن کا ایجاد یہیں سے دکھتا ہے مہابھارت میں، سنجےہستناپور کے راج مہل میں بیٹھا اپنی طاقت کا استعمال کر کےمہابھارت کی جنگ کے تازہ حال نابینا دھرتراشٹر کو دے رہا تھا۔
ہم جس کو موٹرکار کے نام سے جانتے ہیں اس کا وجود ویدک عہد میں بناہوا تھا۔ اس کو اناشو رتھ کہا جاتا تھا۔ عام طور پر ایک تانگے کو گھوڑوں سے کھینچا جاتا ہے مگر اناشو رتھ ایک ایسا تانگا ہوتا ہے جو گھوڑوں کے بغیر -مشینی تانگا کے طور پر چلتا ہے، جو آج کی موٹرکار ہے، رگ وید میں اس کا ذکر ہے۔
تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی باتوں کو پڑھکر بچّوں کےذہن پر کس قسم کا اثر پڑتا ہوگا۔
پاکستان کے ماحول پر لکھے اپنے ایک دیگر مضمون میں پروفیسر پرویز ہدبھائے نے لکھا تھا، ‘ دنیا میں کسی بھی دیگر علاقے کے مقابلے میں پاکستان اور افغانستان میں غیرمنطقیت تیزی سے بڑھی ہے اور خطرناک ہو چلی ہے۔ لڑائیوں میں مارے جانے والے سپاہی کے مقابلے میں یہاں پولیو ملازمین کی عمر کم ہوتی ہے۔ اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے اسکول، کالج اور یونیورسٹی جوان دلوں کو روشن کرنے کے بجائے ان کو کچلنے میں لگے ہیں، غیرمنطقیت کے خلاف جدو جہد یقیناً یہاں زیادہ چیلنج بھرا ہونے والا ہے۔ ‘
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنے ملک میں بھی بڑھتی بنددماغی اور غیرمنطقیت کو جس قسم کی شہ مل رہی ہے اور عدم اتفاق کی آوازوں کو منصوبہ بند طریقے سے کچلا جا رہا ہے، وہاں حالات کی سنجیدگی کا احساس کرتے ہوئے منظم مداخلت کی ضرورت ہے تاکہ آئین کی روح کی حفاظت ہو سکے۔ پاکستان کا موجودہ ہندوستان کا مستقبل نہ بنے اس کے لئے لگاتار باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سماجی کارکن ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر