1999 میں این ڈی اے-1 نے 8 فیصدجی ڈی پی شرح نمو کے ساتھ اپنی پاری کی شروعات کی تھی، لیکن بعدکے تین مالی سالوں کے درمیان جی ڈی پی شرح نمو میں تیز گراوٹ دیکھی گئی۔ اس کی خاص وجہ زراعتی شرح نمو کا اوندھےمنھ گرکرصفر پر آنا تھا۔ یہی کہانی این ڈی اے-2 میں بھی دوہرائی جا رہی ہے۔
پارلیامنٹ میں صدر رام ناتھ کووند کا خطاب، جس میں دراصل مرکز کی مختلف پالیسیوں کا تجزیہ پیش کیا گیا، اپنے پانچ سال کی مدت کے آخری مرحلے میں داخل ہو رہی نریندر مودی حکومت کا ‘ انڈیا شائننگ ‘ لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔
صدر کے خطاب کا موٹے طور پر پیغام یہ تھا کہ مودی حکومت نے ‘ اقتصادی جمہوریت ‘ کو گہرا کرکے ترقی کے تمام مورچوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔آکسفیم کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھلے یہ کہا گیا ہو کہ 2017 میں ہندوستان میں پیدا کی گئی نئی جائیداد کا 73 فیصدحصہ 1فیصد لوگوں کی جھولی میں گیا اور اس طرح سے امیروں کے حق میں جائیداد کا پلڑا اور زیادہ جھک گیا، لیکن صدر نے گزشتہ کچھ سالوں میں عدم مساوات میں کمی آنے کا دعویٰ کیا۔
صدر نے 31 کروڑ جن دھن کھاتے کھولنے کو اقتصادی حصے داری اور لا مرکزیت کے ثبوت کے طور پر سامنے رکھا۔ لیکن، کووند کی تقریر کے کچھ ہی دیر بعد اقتصادی سروے جاری کیا گیا، جس میں اجاگر کی گئیں کچھ گھریلو سچائیاں حکومت کے دعووں کو ہی جھٹلا رہی تھیں۔سروے میں صاف گوئی کے ساتھ پیش کئے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ چار سالوں میں کسانوں کی اصل آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور 2016 کے ایک بڑے حصے میں دیہی مزدوری اصل میں منفی رہی۔
Many immediate concerns about agriculture flagged by #EconomicSurvey2018
1. Decline in rural wages
2. Lower sowing for Kharif and Rabi
3. Unusually lower prices for farmers, below MSP@arvindsubraman has done his job
Now what is @arunjaitley going to do about it? pic.twitter.com/nQ3L2aiGVb— Yogendra Yadav (@_YogendraYadav) January 29, 2018
یہ یقینی طور پر صدر کے خطاب میں مودی حکومت کے دوران عدم مساوات کم کرنے کو لےکر کئے گئے دعووں سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ سوال سیدھا سا ہے کہ جب گزشتہ کچھ سالوں میں زراعتی آمدنی اور عام طور پر دیہی مزدوری میں تبدیلی نہیں آئی ہے، تو عدم مساوات میں کمی کیسے آ سکتی ہے؟ یہ بات سمجھنے کے لئے کسی کا ماہر اقتصادیات ہونا ضروری نہیں ہے۔
چیف اقتصادی صلاح کار اروند سبرامنیم کی ہر طرح سے تعریف کی جانی چاہیے کہ انہوں نے موجودہ روزگار پر بڑھ چڑھکر باتیں نہیں کیں۔ 2017-18 میں ای پی ایف او / این پی ایس / ای ایس آئی سی اسکیموں کے تحت رجسٹرڈ ایڈیشنل آرگنائزڈ سیکٹر کے ملازمینکی تعداد کو لےکر شروع ہوئی ایک متنازع بحث اور حالیہ اعداد و شمار کے بلاواسطہ حوالے سے یہ سروے (جو جی ایس ٹی کے اعداد و شمار کا بھی استعمال کرتا ہے) صرف یہ دلیل دےکر رہ گیا کہ فارمل سیکٹرکے روزگار کی غالباً پوری طرح سے گنتی نہیں ہو پا رہی ہے۔
لیکن پھر بھی اس میں احتیاط برتتے ہوئے وزیر اعظم کے اس ہوائی دعویٰ کی حمایت نہیں کی گئی ہے، جس کے مطابق 2017-18میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی خراب عمل آوری کی وجہ سے چھوٹے اور منجھولے سیکٹر میں ہوئے بھاری نقصان کے باوجود فارمل سیکٹر میں 70 لاکھ نئے روزگار پیدا کیے گئے۔
2017-18 میں نئے روزگار کے بارے میں کوئی اعداد و شمار پیش نہ کرکے، چیفاقتصادی صلاح کار نے چالاکی کے ساتھ موجودہ تنازعہ سے اپنی دوری بنا لی۔ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ وہ مودی کے ہوائی دعووں کے لئے اپنی پیشہ ور پہچان کی قربانی نہیں چڑھا سکتے ہیں۔
اصل میں ان ہوائی دعووں کی وجہ سے ہی، جن میں سے کچھ صدر کے خطاب میں بھی کئے گئے، یہ خیال لوگوں کے دل میں آتا ہے کہ کیا ‘ مودی کاانڈیا شائننگ لمحہ ‘ دستک دے چکا ہے؟
میں کافی احتیاط کے ساتھ ‘ انڈیا شائننگ لمحہ ‘ کے اصطلاح کا استعمال کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ این ڈی اے-1(1999-2000 سے2003-2004) کے درمیانکے نیتی آیوگکے اعدادو شمار کے حساب سے دیکھیں تو تب اور اب کے خاص اقتصادی اشاریےمیں غضب کی یکسانیت دکھائی دیتی ہے۔
اس وقت کی این ڈی اے حکومت نے اپنی حکومت کے پہلے مکمل مالی سال (1999-2000) میں 8 فیصد جی ڈی پی شرح نمو کے ساتھ اپنی پاری کی شروعات کی تھی۔ اس کے بعد کے تین مالی سالوں،2000-01 سے 02-03 کے درمیان جی ڈی پی شرح نمو میں تیز گراوٹ دیکھی گئی اور یہ 5 فیصد یا اس سے بھی کم تک لڑھک گئی۔
جی ڈی پی اضافہ کے اس طرح زمین دوز ہونے کی خاص وجہ اس دور میں زراعتی شرح نمو کا اوندھے منھ گرکر زیرو پر چلے آنا تھا۔ یہی کہانی این ڈی اے-2 کے دور میں بھی دوہرائی جا رہی ہے۔حالانکہ، این ڈی اے-1 کے آخری سال میں جی ڈی پی شرح نمو سدھرکر 8 فیصد ہو گئی، جس نے ‘ انڈیا شائننگ ‘ مہم کو طاقت دینے کا کام کیا تھا۔ سبرامنیم کے تازہ اقتصادی سروے میں بھی ہندوستان کے لئے خوش گوار مستقبل کی پیش گوئی کی گئی ہے اور آنے والے مالی سال کے لئے 7 فیصد-7.5 فیصد تک جی ڈی پی اضافہ کاامکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اس وقت لال کرشن اڈوانی اور پرمود مہاجن کے ذریعے شروع کئے گئے انڈیا شائننگ مہم کی ایک خوبیشیئر بازار کا بہتر مظاہرہ اور ثروتمند لوگوں کے درمیان عام طور پر اطمینان کا جذبہ تھی۔ مگر اس مہم نے این ڈی اے-1 کے 5 سالوں کے دورحکومت کے زیادہ تر حصے میں رہے دیہی اور زراعتی بحران کو پوری طرح سے نظرانداز کر دیا۔
ایسے میں تاریخ کے ایک بار پھر دوہرائے جانے کا خدشہ بےوجہ نہیں ہے۔
صدر کا خطاب یہ صاف طور پر دکھاتا ہے کہ مودی حکومت 2019 کی لوک سبھا انتخابی مہم کے شروع سے ہونے سے ایک سال پہلے ‘ انڈیا شائننگ ‘ کے بلبلے میں داخل ہو رہی ہے۔
Categories: فکر و نظر