انکت کے والد کو ہمارا سلام۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انکت کے والد نے اپیل نہ کی ہوتی تو آج دہلی کاس گنج میں تبدیل ہو چکی ہوتی۔انہوں نے در اصل ہندوستا ن کی روح کو مجروح ہونے سے بچا یا ہے۔
انکت کی موت کی خبر میرے لئے کس قدر تکلیف دہ تھی میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔آپ یقین کریں یا نہ کریں ، مگر مجھے یہ کہہ لینے دیجئے کہ جتنا دکھ مجھے افرازل کی موت پر ہوا تھا، اتنا ہی غم مجھے انکت کے گزر جانے کابھی ہے۔رتی بھر بھی کم نہ زیادہ۔میں سمجھتا ہوں ہر ذی شعور انسان نے ایسا ہی محسوس کیا ہوگا۔مگر ڈوب مرنے کی بات یہ ہے کہ انسان اپنا شعور ہی بیچ بیٹھا ہے۔لہذا اب وہ ذی شعور کہلانے لائق ہی نہیں ہے۔ہم نے یہ تو سناتھا کہ لوگ باگ اپنے اعضاء بھی بیچ ڈالتے ہیں۔مگر موجودہ صورت حال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید لوگوں نے اپنا شعور بھی بیچنا شروع کردیا ہے۔معلوم پڑتا ہے اس دھندے میں بے پناہ فائدہ ہے۔لوگوں کا رد عمل کیسے بدلتا ہے، یہ دیکھ کر گر گٹ بھی شر ما جائے۔اب دیکھیے نا، جب راجستھان میں افرازل کا قتل ہو ا تو لوگوں نے ’’لو جہاد‘‘ کا شوشہ چھیڑ دیا۔ افرازل کی موت کے جواز ڈھونڈنے لگے۔
حد تو یہ ہو گئی جب لوگوں نے مجرم کی مدد کے لئے چندے تک اکٹھے کر لئے۔مگر اب جب انکت کی موت ہوئی ہے، ان کا تیور بدلا ہوا ہے۔اب یہی لوگ پیار اور محبت پر لیکچر زدے رہے ہیں ۔ اور ہاں نوٹ کر لیجئے، آنے والے 14 فروریValentine Dayکو جب ملک کانوجوان یوم محبت منا رہا ہوگا،یہ لوگ یوم نفرت منائیں گے۔اور پھر سڑکوں اور پارکوں میں محبت کے جوڑوں پر نفرت کی سوغات برسائیں گے۔ ایک اوربات۔اسی معاملہ کو اگر آپ پلٹ دیں، اور فرض کریں کہ دہلی کے اس آنر کلنگ میں لڑکا مسلم ہوتا اور لڑکی ہندو، تو کیا یہ گودی میڈیا اور ہندوتوا وادی نوجوان آج پیاری پیاری بات کر رہے ہوتے؟ ہر گز نہیں۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو ’’لو جہاد‘‘ راجستھان سے دہلی پہنچ چکا ہوتا۔’’لو جہاد ‘ ‘ کے شور میں ہماری آواز دور کسی کونے میں کراہ رہی ہوتی۔ہم انکت کی موت کا سوگ منانے کے بجائے ’’لو جہاد‘‘کے پیچ و خم میں الجھا دیے گئے ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں : ہم ناکام اور ڈرپوک عاشقوں کے سماج میں رہتے رہتے قاتل بن چکے ہیں
کہتے ہیں ایک عالم کی موت ایک عالم کی موت کے برابر ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے یا ہو سکتی ہے، اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ مگر ابھی نہیں ۔ ابھی میرا جی یہ کہنے کو کر رہا ہے کہ ایک عاشق کی موت ایک عالم کی موت کے برابر ہے۔ جی ہاں ۔میں وہی کہہ رہا ہوں جو آپ پڑھ رہے ہیں۔کیاانکت اور شہزادی نے اپنی دنیا الگ بنانے کا خواب نہیں دیکھا ہوگا؟کیا ان دونوں نے اپنی زندگی آپ جینے کے سپنے نہیں بنے ہوں گے؟ کیا انہوں نے اپنی محبت والی دنیا میں عشق کی عالیشان عمارت بنانے کا ارادہ نہیں کیا ہوگا؟ ایسی دنیا جو انکی اپنی ہو۔آزاداور بے خوف۔ جہاں صرف وہ دنوں ہوں ، ہم نہیں۔ایسا جزیرہ جہاں آپکے ڈھونگ نہ ہوں۔ جہاں آپکا ’’مذہب‘‘ بھی نہ ہو۔ جہاں آپکا ’’خاندان‘‘ بھی نہ ہو۔
میرا خیال ہے، آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ ہاں، میں نے اسی لئے کہا کہ انکت کی موت ایک عالَم کی موت سے کم نہیں ہے۔انکت کی موت کو جس رنگ میں گودی میڈیا نے رپورٹ کرنے کی کوشش کی، وہ قابل افسوس ہے۔بلکہ ہمیں بھی اپنا سرشرم سے جھکا لینا چاہئے کہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں، جس میں صحافت ایک مشن نہیں ’’ دھندہ ‘‘ہے۔ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جس میں میڈیا کی شکل اتنی قبیح ہے کہ اگر اسے قریب سے دیکھ لیا جائے، تو قے آ جائے۔ اسے اپنے آقاؤں کی گود میں کھیلتا دیکھ کر آنکھیں شرما جائیں۔ خیر،ٹی وی کے اینکروں نے ایک بارپھر اپنی فرقہ پرستی کا ثبوت دیا۔ سماج میں زہر گھولنے کی انتھک کوشش کی۔مگر معجزاتی طور پر انکت کے والد نے انکا کھیل بگاڑ دیا۔ انہوں نے جو کہا اسکی گونج ابھی تک باقی ہے۔ہم امید کرتے ہیں یہ بہت دیر تک زندہ رہے۔ انہوں نے سختی سے تنبیہ کی کہ انکے بیٹے کی موت پر ٹی وی والے اپنا دھندہ نہ جمائیں ۔سماج میں فرقہ پرستی کا زہر نہ گھولیں۔انہیں کسی مسلمان سے نفرت نہیں ہے۔بلکہ انہیں کسی بھی مذہب سے کوئی گلہ نہیں ہے۔نتیجتاً ٹی وی والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
انکایہ بیان نہ صرف ٹی وی اینکروں کے لئے بلکہ سیاسی لیڈران کے لئے بھی ایک زوردار طمانچہ تھا۔ انکت کے والد کا بیان سیاسی لیڈران کے لئے در اصل خسارہ کا سودا ثابت ہوا۔منوج تیواری اور دوسرے لیڈران کو انکت کے گھر سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ا نکت کے گھر سے لوٹتے وقت منوج تیواری نے اپنے بیان میں کہا کہ اس معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے۔ کچھ لوگ منوج تیواری کے اس ہوشمندانہ بیان پر حیرت کر رہے تھے اور بہتوں نے تعریف کے پل بھی باندھ دیے۔ مگر آپ نے شایدیہ بات نوٹس نہیں کی۔ منوج تیواری کا تیورمنوج تیواری جیسا اس لئے نہیں تھا، کیونکہ انکت کے والد نے ملاقات کے دوران ہی انہیں خبر دار کر دیا تھا۔سو، نیتاؤں کے الو بھی سیدھے ہونے سے رہ گئے۔
انکت کے والد کو ہمارا سلام۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انکت کے والد نے یہ اپیل نہ کی ہوتی تو آج دہلی کاس گنج میں تبدیل ہو چکی ہوتی۔ہم انہیں ایک بار پھر سلام کرتے ہیں۔انہوں نے در اصل ہندوستا ن کی روح کو مجروح ہونے سے بچا یا ہے۔ہمارے اصل ہندوستان کو زندہ رکھنے کے لئے انکا بہت بہت شکریہ۔
مگر جو بات قابل توجہ رہی وہ یہ کہ ہمارے وہ نوجوان اور گودی میڈیا ،جو ’ ہندوتوا‘ سیاست کی راہ پر چل پڑے ہیں ، یا وہ جنہیں اسکی لت لگ گئی ہے، انہیں اطمینان نہیں ہوا۔دہلی کاس گنج میں بدلتے بدلتے رہ گئی، انہیں اس بات کا ملال ہے۔ وہ شاید بول نہیں پا رہے ہیں مگر انکت کے والدکا بیان انکے گلے سے نیچے نہیں اتر رہا ہے۔انکے اس بیان کے بعد بھی وہ اس معاملہ کو communalism کے چشمے سے ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ اس ghetto سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے۔ سوشل میڈیا پر ایسے سیکڑوں کمنٹس موجود ہیں، جن سے اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ٹی وی کے اینکرزکا چہرہ بغور دیکھیے،انکی کسک کا بھی اندازہ لگ جائے گا۔
دہلی کے اس خاص واقعہ کے حوالہ سے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس ہوشمندی اور دیانتداری سے مسلم نو جوانوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔میں نے سوشل میڈیا پر سیکڑوں اپڈیٹس اور کمنٹس دیکھے ۔ہر شخص قتل کی مذمت کر رہا تھا۔ہر فرد انکت کے لئے انصاف کی گہار لگا رہا تھا۔آنر کلنگ کا یہ واقعہ کسی بھی دوسرے آنر کلنگ سے مختلف نہیں تھا۔یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ یاپھر کوئی ہے، جو ہمیں سمجھنے سے روکتا ہے۔
یہ بات گانٹھ باندھ لیجئے کہ آنر کلنگ میں مذہب کا رول دال میں نمک کے برابر ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔کیا آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ شہزادی کے خاندان والے اگر انکت کو مارنے میں ناکام ہو جاتے، تو کیا وہ شہزادی کو ہی نہ ماردیتے؟ شہزادی نے یہ کہا بھی ہے کہ اس کی جان کواس کے خاندان والوں سے خطرہ ہے۔کیا ایسے کیسز کے بارے میں آپ نے نہیں سنا ہے، جس میں خاندان والے اپنی بیٹی کو ہی مار دیتے ہیں(جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ انکی بیٹی کسی غیرمذہب یا دوسرے ذات کے لڑکے سے عشق کرتی ہے اور شادی کرنا چاہتی ہے)؟
’آنر‘ میں یقین رکھنے والے خاندان کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں۔اپنے بیٹے یا بیٹی کی یا پھر اسکے عاشق یا معشوقہ کی۔بس جو ہتھے چڑھ جائے۔لہذا آنر کلنگ کا تعلق براہ راست patriarchy سے ہے۔یعنی ہمارا سماج اس بات کے لئے ابھی بھی تیار نہیں ہے کہ اسکے بچے اپنی پسند کی شادی کریں اوراپنا ساتھی خود تلاش کریں۔
ہمارا سماج اکیسویں صدی میں بھی پدر سری میں یقین رکھتا ہے ہمیں اس بات پر شرم آنی چاہئے۔
کیا آپ نے ایسے معاملات کے بارے میں نہیں سنا ہے، جس میں ایک باپ اپنی بیٹی کو محض اس لئے مار دیتاہے، کیونکہ وہ ایسے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی جسکی ذات ’کمتر‘تھی؟ ایسے معاملات کی بھی طویل فہرست ہے۔اب اس ذات والے معاملہ پر غور کیجیے۔آپ سوچئے جو سماج (باپ) آپ کو دوسری ذات میں شادی کرنے سے روکتا ہے، وہ آپ کو دوسرے مذہب میں محبت کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ دراصل آنر کلنگ کے معاملات کی جڑیں ہمارے سماجی ڈھانچہ سے جڑی ہیں۔یہ وہ ڈھانچہ ہے، جس میں گھر کی ایک ایک شے باپ کی جاگیر ہے۔آپ کیا گھر کے آنگن میں لگے پودے کا پتہ بھی باپ کی اجازت کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔تو پھر آپ کی شادی میں آپ کی رائے چہ معنی دارد؟ جہاں آپ کی رائے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، وہاں درون مذہب اور بیرون مذہب جیسے سوال کی کیا اوقات رہ گئی۔ہزاروں سوال کا جواب ایک ہی ہے کہ آپ جاگیر ہیں، لہذا آپ کے منہ میں زبان کیوں کر ہو سکتی ہے۔ اور یہ ڈھانچہ(پدر سری) ہر مذہب میں یکساں طور پر موجود ہے۔نہ زیادہ نہ کم۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب پدر سری سے استشنا نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں، پدر سری اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔میں آپ کے مذہب کی شان میں گستاخی نہیں کر رہا،سچ بتا رہا ہوں۔
آپ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ انکت کی جگہ کوئی آفاق بھی ہوتا اور اسکی ذات شہزادی کے خاندان والوں کی ذات سے’ کمتر‘ ہوتی تب بھی وہ لوگ شاید اسے ماردیتے ۔خیر، آنر کلنگ کے ایسے واقعات (جہاں مذہب کے نام پر ایسا ہوتا ہے) پر لوگوں کا خون کیوں کھولنے لگتاہے؟لوگوں کا درد کیوں بڑھ جاتا ہے؟لوگ فوراً پوری قوم کے دشمن کیوں کر بنجاتے ہیں؟ مذہبی اسمتا اور آن انگڑائیاں کیوں لینے لگتی ہے؟ آپ نے کبھی سو چا ہے؟ در اصل یہ لوگ اور انکا درد دونوں کھوکھلے ہیں۔ یہی لوگ تب غائب ہوتے ہیں جب یہی آنر کلنگ کاسٹ کے نام پر ہوتی ہے۔کیا تب یہ لوگ اس پورے کاسٹ کے خلاف کمر بند ہوجاتے ہیں؟ نہیں نا۔تب انکی اسمتاشایدکھیت چرنے چلی جاتی ہے۔میرا خیال ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے ایسا کیوں ہوتا ہے۔جب آپ اپنا شعور کسی ’سافٹ ویئر ‘کو فروخت کر دیں گے، تو ظاہر ہے سامنے کی ہر چیز گیروا ہی دکھے گی۔ایسی صورت میں آپ کا کلر بلائنڈ ہونا لازمی ہے۔
آنر کلنگ اور پدر سری میں کتنا گہرا تعلق ہے، اسے ایک اور مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ آپ غور کریں، گھرکی بیٹی اپنی پسند کی شادی کے لئے منہ کھولتی ہے، تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اورگھر کا بیٹااپنی شادی کے لئے اپنی مرضی کا اظہار کرتا ہے، تو اسکے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے۔صرف مذہب کے حوالہ سے اگر بات کی جائے، تو آپ کو درجنوں مثالیں مل جائیں گی ، جن میں ایک لڑکااگر غیر مذہب میں شادی کرنا چاہتا ہے تو شروعاتی حیل و حجت کے بعد آخرکار والدین جوا پٹک ہی دیتے ہیں، بادل نا خواستہ ہی سہی۔اور پھر وقت کے بیتتے بہو’ اپنی‘ بھی ہو جاتی ہے۔ مگر یہ کیا تب ممکن ہو پاتا ہے، جب ایک لڑکی غیر مذہب کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ با لکل نہیں۔ باپ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔گھر والوں کی کیا پورے خاندان کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے۔نوٹ کیجئے لڑکے کے کیس میں عزت کو کوئی آنچ نہیں آتی ۔آخر کار کیا ہو تا ہے؟ لڑکی یا تو بھاگ کر شادی کر تی ہے، یا پھر خود کشی کر لیتی ہے۔اگر قسمت سے والدین مان بھی جاتے ہیں، تو یاد رکھئے اس گمان کے ساتھ کہ انکی عزت لٹ چکی ہے۔اگر شادی ہوتی بھی ہے تو stigmaکے ساتھ۔ اور یہ stigma تا زندگی قائم رہتا ہے۔ کبھی الگ نہیں ہو پاتا۔
Categories: فکر و نظر