روی شنکر پرساد نے کہا کہ گھوٹالہ 2011 سے شروع ہوا۔ لیکن یہ 2017 تک کیسے چلتا رہا؟ کیوں فروری 2017 میں آٹھ فرضی لیٹر آف انڈر ٹیکنگ جاری کئے گئے؟ روی شنکر پرساد نے یہ باتپریس کانفرنس میں کیوں نہیں کہی؟
” کتنا ہی بڑا شو روم ہوگا، ہمارے میہل بھائی یہاں بیٹھے ہیں لیکن وہ جائےگا اپنے سنار کے پاس ذرا چیک کرو۔ “
یہ لفظ وزیر اعظم کے ہیں۔ یو ٹیوب پر ہیں۔ PM Narendra Modi at the launch of Indian Gold Coin and Gold Related Schemes نام سے ٹائپ کیجئے، وزیر اعظم کی تقریر نکلےگی۔ اس ویڈیو کے 27 ویں منٹ سے سننا شروع کیجئے۔ وزیر اعظم ہمارے میہل بھائی کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ وہی میہل بھائی ہیں جن پر نیرو بینک کے ساتھ پنجاب نیشنل بینک کو 11 ہزار کروڑ کا چونا لگانے کا الزام لگا ہے۔ ان کے پارٹنر ہیں۔
روی شنکر پرساد کافی غصے میں پریس کانفرنس کرنے آئے تھے۔ ان کو لگا کہ وہ جو بولیںگے وہ جج کی طرح فیصلہ ہوگا۔ صحافی بھی سوال جواب نہیں کر سکے۔ آج کل خاموش رہنے والے لوگ پولٹیکلایڈیٹر بن رہے ہیں، بولنے والے نکلوا دئے جا رہے ہیں۔ بہرحال روی شنکر پرساد دوبارہ اپنا پریس کانفرنس دیکھ سکتے ہیں۔ کتنے غصے میں میہل چوکسی کا نام لیتے ہیں جیسے ان کی حیثیت سے نیچے کی بات ہو اس شخص کا نام لینا۔ جبکہ وزیر اعظم اسی میہل بھائی کو کتنی عزت سے پکار رہے ہیں۔ ہمارے میہل آئی، اہا، مزہ آ گیا۔
انہی کے بارے میں روی شنکر پرساد کہہ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کانگریسی رہنماؤں کی تصویریں ہیں مگر وہ جاری نہیں کریںگے۔ کیونکہ یہ ان کی سیاست کی سطح نہیں ہے۔ دنیا بھرکے مخالف رہنماؤں کی تصویروں اور سی ڈی جاری کرنے کی سیاست کے بعد ان کے اس آتم گیان پر ہنسی آئی۔ گودی میڈیا کی حالت بہت بری ہے۔
13 جنوری 2016 کو پی ٹی آئی کی خبر کئی اخباروں میں چھپی ہے کہ ارون جیٹلی 100 صنعت کاروں کو لےکر جا رہے ہیں۔ یہ خبر فائنینشیل ایکسپریس میں بھی چھپی ہے۔ آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں نیرو مودی کا نام ہے۔ کسی بھی بزنس اخبار کی خبر دیکھیے، اس میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم مودی ان بزنس مین کی ٹولی کی قیادت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ان کو پتا تھا کہ ہندوستان سے کون کون وہاں جا رہا ہے۔ اس لئے روی شنکر پرساد کو صحیح بات بتانی چاہیے تھی نہ کہ اس کو سی آئی آئی پر ٹال دینا چاہیےتھا۔
نیرو مودی 1 جنوری 2018 کو ہندوستان سے روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے ایک دن بعد سی بی آئی کی تفتیش شروع ہوتی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ جانچکے دوران یہ شخص 23 جنوری کو سوئٹزرلینڈ کے داووس میں وزیر اعظم کے قریب پہنچتا ہے، کیا یہ بھی اتفاق تھا؟ اتنے چھاپے پڑے، ایف آئی آر ہوئی مگر یہ تو مکاؤ میں شو روم کا افتتاح کر رہا ہے۔ کیا ایسی چھوٹ کسی اور کو مل سکتی ہے؟ 2014 کے پہلے ملتی ہوگی لیکن 2014 کے بعد کیوں مل رہی ہے؟
این ڈی ٹی وی کی نمرتا برار کی رپورٹ ہے کہ نیرو مودی اس وقت نیویارک کے مہنگے ہوٹل میں ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ پاسپورٹ منسوخ کر دیا جائےگا مگر ابھی تک تو نہیں ہوا ہے۔ اتنے دنوں تک ان کو بھاگنے کی چھوٹ کیوں ملی؟ ہنگامہ ہونے کے بعد ہی حکومت نے یہ کیوں کہا جبکہ پنجاب نیشنل بینک نے ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ان کے خلاف لک آؤٹ نوٹس جاری کیا جائے۔ کیوں نہیں تبھی کا تبھی کیا؟
اب خبر آئی ہے کہ انٹرپول کے ذریعے ڈفیوزن نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس تفتیش کے لئے گرفتاری ضروری ہے۔ ہنگامے کے بعد تو سب ہوتا ہے مگر لک آؤٹ نوٹس اس دن کیوں نہیں جاری ہوا جب ایف آئی آر ہوئی، چھاپے پڑے۔
15 فروری کو نیرو مودی کے کئی ٹھکانوں پر چھاپے پڑے ہیں جن میں 5100 کروڑ کی جائیداد کے دستاویز ضبط ہوئے ہیں۔ سبھی جگہ اسے بڑا کر چھاپا گیا ہے جس سے لگے کہ بڑی بھاری کارروائی ہو رہی ہے۔ اس پر منی کنٹرول کی سچیتا دلال نے سخت ٹوئٹ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خبر ہے کہ سی بی آئی اور ڈی آر ای نے 5100 کروڑ کے جواہرات ضبط کیے ہیں۔ اگر نیرو مودی کے پاس اتنی جائیداد ہوتی تو اس کو فرضی لیٹر آف انڈر ٹیکنگ لےکر گھوٹالہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوسری، پروسس کی بات ہوتی ہے جو ان چھاپوں سے جڑے افسر بتا سکتے ہیں۔ اتنی جلدی جائیداد کا تجزیہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب خبروں کی قیمت بڑھانے کے لئے کیا گیا ہے۔
روی شنکر پرساد نے کہا کہ گھوٹالہ 2011 سے شروع ہوا۔ لیکن یہ 2017 تک کیسے چلتا رہا؟ کیوں فروری 2017 میں آٹھ فرضی لیٹر آف انڈر ٹیکنگ جاری کئے گئے؟ روی شنکر پرساد نے یہ باتپریس کانفرنس میں کیوں نہیں کہی؟
انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ یہ گھوٹالہ 17 بینکوں تک بھی گیا ہے۔ 11300 کروڑ کے علاوہ بھی 3000 کروڑ کا گھوٹالہ ہوا ہے۔ نیرو مودی کی کئی کمپنیاں ہیں، ان کمپنیوں کو 17 بینکوں نے 3000 کروڑ روپے کے لون دئے ہیں۔
ایکسپریس نے لکھا ہے کہ نیرو مودی اور ان کے رشتہ داروں کی کمپنی کو 2011 سے 2017 کے درمیان 150 لیٹر آف انڈرٹیکنگ دئے گئے ہیں۔ اصول ہے کہ لیٹر آف انڈر ٹیکنگ سے پیسہ لینے پر 90 دنوں کے اندر چکا دینا ہوتا ہے۔ مگر بنا چکائے بھی ان کو LOU ملتا رہا ہے۔ اتنی مہربانی کس کے اشارے سے ہوئی؟
اس معاملے میں بینک مینجر کو کیوں پھنسایا جا رہا ہے؟ LOU کی منظوری بینک کے بورڈ سے ملتی ہے، بینک کے مینجر سے نہیں۔ مگر ایف آئی آر بینک کے مینجر اور کلرکوں کے خلاف ہوئی ہے۔ بورڈ کے ممبروں اور چیئرمین کے خلاف کیوں نہیں ایف آئی آر ہوئی؟
ایک دو LOU بینک کے کھاتے میں درج نہیں ہو سکتے ہیں مگر اس کی بنیاد پر جب دوسرے بینک نے نیرو مودی کو پیسے دئے تو اس بینک نے پنجاب نیشنل بینک کو تو بتایا ہوگا۔ اپنے پیسے پنجاب نیشنل بینک سے تو مانگے ہوںگے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان بینکوں سے بھی پیسے لے لئے گئے اور وہاں بھی حساب کتاب میں انٹری نہیں ہوئی؟ اس کا جواب ملنا چاہیے کہ پنجاب نیشنل بینک کے بورڈ نے کیسے LOU کو منظوری دی، بینک کا آڈٹ ہوتا ہے کیا اس آڈٹ میں بھی 11000 کروڑ کا گھپلہ نہیں پکڑا گیا تو پھر آڈٹ کس بات کی ہو رہی تھی؟
اس لئے نوٹنکی کم ہو ذرا اس پر، تفتیش جلدی ہو۔ 2 جی میں بھی سارے ملزم بری ہو گئے۔ ایک رہنما کو بچا کر کتنے کارپوریٹ کو بچایا گیا آپ خود بھی مطالعہ کریں۔ آدرش گھوٹالہ میں بھی اشوک چوہان بری ہو گئے۔ اٹلی کی کمپنی اگوستاویسٹ لینڈ سے ہےہیلی کاپٹر خریدنے کے گھوٹالہ کو لےکے کتنا دنگا فساد ہوا۔ ایئر فورس کے سابق سربراہ کو گرفتار کیا گیا مگر اٹلی کی عدالت میں سی بی آئی ثبوت تک پیش نہیں کر پائی۔ یہ ساری مہربانیاں کس پر کی گئیں ہیں؟
بینک ملازم بتاتے ہیں کہ اوپر کے افسر ان پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ نوکری بچانے یا کہیں دور تبادلے سے بچنے کے لئے وہ دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ ان اوپر والے ڈاکوؤں کی وجہ سے بینک ڈوب رہے ہیں اور لاکھوں بینک ملازم ڈرکر کام کر رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ نہیں بڑھ رہی ہے، بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بینکوں پر اندر سے گہری مار پڑی ہے۔ آپ کسی بھی بینک ملازم سے پوچھیے وہ بتا دیںگے اپنا برا حال۔ ان کی ذہنی تکلیف سمجھنے والا کوئی نہیں۔
آپ اس مہنگی ہوتی سیاست کی طرف دیکھیےجہاں پیسے سے لگاتار شاندار ریلیاں ہو رہی ہیں ۔ وہ جب تک ہوتی رہیںگی تب تک بینک ہی ڈوبتے رہیںگے۔ آخر بزنس مین بھی پیسہ کہاں سے لاکر دےگا۔ انہی راستوں سے لاکر دےگا تاکہ حضور ر یلیوں میں لٹا سکیں۔ یہ پیٹرن آج کا نہیں ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں سب ہیں۔
Categories: فکر و نظر