آج جب دنیا میں مختلف قسم کی خرابی اجاگر ہونے کے بعد گلوبلائزیشن کی خراب پالیسیوں پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے، ہمارے یہاں انہی کو گلے لگائے رکھکر سو سو جوتے کھانے اور تماشہ دیکھنے پر زور ہے۔
اب، جب وکرم کوٹھاری کی ‘ سستی اور اچھی ‘ روٹومیک قلم کی قیمت اچانک اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس کو چکانے کے لئے ہم اپنے عوام کی گاڑھی کمائی کے ساڑھے تین ہزار کروڑ سے زیادہ روپیوں پر سیاہی پوتنے کو مجبورہیں، وہ بھی ایسے مشکل وقت میں جب پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) کو گیارہ ہزار کروڑ کا چونا لگاکر امریکہ میں موج منا رہا کھرّاٹ نیرو مودی جلے پر نمک چھڑکتا ہوا کہہ رہا ہے کہ گھوٹالہ کو عام کر کے ہم نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے، وزیر اعظم نریندر مودی چاہیں تو ایک بار پھر کانگریس کے وہ ‘ گناہ ‘ گنا سکتے ہیں، جن کا خمیازہ ملک ابھی تک بھگتتا آ رہا ہے۔
آخرکار یہ سچ بولنے کی سہولیت ان سے کون چھین سکتا ہے کہ 1992 میں وکرم کوٹھاری انٹرپرائز نے شاندار آغاز کرتے ہوئے روٹومیک پینس پرائیویٹ لمیٹڈ کو روٹومیک گلوبل پرائیویٹ لمیٹڈ میں بدلا تو ملک میں ان کی یا ان کی پارٹی کی نہیں کانگریس کی حکومت تھی۔
جن عوام نے اس وقت ہوش سنبھال لیا تھا، ان کو یاد ہوگا، تب ایکٹریس روینا ٹنڈن ایک ایڈ میں ‘ لکھتے لکھتے لو ہو جائے ‘ کی بات کہہکر ان قلم کے لئے گراہک جٹاتی تھیں۔وزیر اعظم چاہیں تو محض اتنا بولکر اس ‘ کانگریسی عہد کےکلنک ‘ سے ‘ آزاد ‘ ہو سکتے ہیں کہ اس دور کی لکھتے لکھتے لو ہونے کی کانگریسی امید آخرکار گھوٹالہ میں بدل گئی، تو بھلا وہ کیا کر سکتے ہیں؟
یقیناً، انہی دنوں اچانک رکن پارلیامنٹ اور ایم ایل اے کے لئے فنڈز کا انتظام اور ملک کو ڈنکل اور گیٹ کے حوالے کرتے ہوئے لاینحل اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کا واحد را م بان بتاکر بڑے بڑے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہندوستان اور ہندوستان کی ریاستوں کی طاقتوں کے غیرقانونی قبضہ کرنے کے ساتھ شہریوں کے سینہ پر مونگ دلنے کی وہ مطلق العنانیت اور آزادی ‘ دی گئی تھی، جس کے بعد ان کی ‘ سکسیس اسٹوریز ‘ نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
لیکن وزیر اعظم کی اس سے بھی بڑی سہولت یہ ہے کہ ان کو اس سوال کی پھانس بھی نہیں ستا سکتی کہ ان دنوں ان کی پارٹی کے جن ہیرو پر حزب مخالف کے طور پر وزیر اعظم پی وی نرسمہاراو اور وزیر خزانہ منموہن سنگھ کی جوڑی کے ذریعے گلوبلائزیشن کے خلاف مزاحمت کی ذمہ داری تھی، وہ اس ذمہ داری کو صحیح سے نبھانے کے بجائے ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر تعمیر کے لئے ‘ 1942 سے بھی بڑی ‘ تحریک کو لےکر اتراتے کیوں پھر رہے تھے؟
کوئی یہ سوال پوچھے بھی تو وہ وزیر اعظم کے مسکرانے بھر سے سمجھ جائےگا کہ انہوں نے ان ہیرو کا ڈائریکٹر بورڈ بناکر ان کو جیسی کڑی سزا دی ہے، اس سے زیادہ کچھ کر ہی نہیں سکتے تھے! دوسرے پہلو پر جائیں تو کانگریس کے صدر راہل گاندھی دیگر معاملوں میں بھلےہی وزیر اعظم کے مقابلے میں ‘ بیچارے ‘ ہوں، ایسی سہولتوں کے لحاظ سے قطعی بیچارے نہیں ہیں۔
ان دنوں ملک میں سیاسی بحث کی جو سطح ہے، اس میں جیسے وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ ان دنوں ان کی فیملی کا کوئی شخص وزیر اعظم ہوتا تو بابری مسجد کا انہدام نہیں ہوتا، کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فیملی کے وزیر اعظم رہتے گلوبلائزیشن اس طرح ملک کا ٹینٹوا نہیں دبا سکتا تھا۔
ویسے بھی گلوبلائزیشن کے بعد سے ان کی فیملی کا کوئی وزیر اعظم نہیں ہی ہوا ہے۔اور بات ہے کہ ان کی یہ فیملی اس دور میں بھی مواقع اور دستور کے لحاظ سے نہ صرف وزیر اعظم بنانے میں بلکہ اس کے لئے وزرا کو منتخب کرنے تک میں اپنا ‘ کردار ‘ بہترطریقے سے نبھاتی رہی ہے۔
ان کی پارٹی کے پاس گاندھی فیملی ہے تو وزیر اعظم کی پارٹی کے پاس سنگھ پریوار۔ ان دونوں ہی فیملیوں کو اپنی سہولیات کے حساب سے کام کرنے اور برتنے کی عادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں نئے سرے سے گھوٹالوں کی جھڑی لگ گئی ہے، لوگوں کو وزیر اعظم کی شکل میں مودی کا پہلا ہی میعاد منموہن کے دوسرے میعاد میں بدلتا اور 2014 میں بڑے بڑے ارمانوں کے ساتھ کی گئی اقتدار کی تبدیلی بےکار ہوتی نظر آنے لگی ہے، حزب اقتدار اور حزب مخالف میں بیٹھی یہ دونوں ہی پارٹیاں بھلےہی ایک دوسرے پر جی بھر کر ٹھیکرے پھوڑ رہی ہیں، عوام کو یہ سمجھنے دینا ان میں سے کسی کو بھی گوارا نہیں ہے کہ یہ سارے گھپلے اور گھوٹالے اس معاشی پالیسی کا ہی ضروری خاتمہ ہے، ‘ دیئیر از نو آلٹرنیٹو’ کے بہت سنبھلکر مشتہر کئے جا رہے جھوٹ سے آسمان گنجاتے ہوئے جس کو عوام پر تھوپے رکھنے میں ان میں ‘ کو بڑ چھوٹ کہت اپرادھو ‘۔
بےوجہ نہیں کہ آج جب دنیا کے بڑے حصے میں مختلف قسم کی برائیوں کے اجاگر ہو جانے کے بعد گلوبلائزیشن کی شرانگیزیوں پر دوباہ غور و فکر کیا جا رہاہے، یہاں تک کہ ان کے بانی امریکہ بھی ‘ امریکہ فرسٹ ‘ کی پالیسی پر چل پڑا ہے، ہمارے یہاں ابھی بھی انہی کو گلے لگائے رکھکر سو سو جوتے کھانے اور تماشہ دیکھنےپر زور ہے۔
تبھی تو ایک فیصد امیروں کو، ملک کی 73 فیصد جائیداد کا مالک بنا چکے وزیر اعظم کی اپنی مشہور ایڈ ‘ نیو انڈیا ‘ کا تکیہ منموہن عہد کی انہی پونجی پرست پالیسیوں پر رکھے ہوئے ہیں، جن کے لحاظ سے ‘ انڈراچیور ‘ ثابت ہونے پر ان سرمایہ داروں نے منموہن کو آنکھوں سے اتارکر مودی کے خواب دیکھنے شروع کئے تھے۔
سب کچھ بدلکر رکھ دینے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے وزیر اعظم کو تو اپنے چار سالوں میں ان پالیسیوں کا کوئی بدل نہیں ہی منظور ہوا ہے، خود کو ان کا حریف کہنے والی کانگریس کے پاس بھی ان کو لےکر کوئی اختیاری نظریہ نہیں ہے۔
ایسے میں کیا تعجب کہ ہم ملک کے طور پر روز بہ روز کوڑھ میں خارش کی نئی نئی رفتاروں کو حاصل کرتے جا رہے ہیں۔یاد کیجئے، گھوٹالوں کی جھڑی سے پہلے ‘ نہ کھاؤںگا نہ کھانے دوںگا ‘ کا زوردار نعرہ اقرار والے دور میں کس طرح بہت سے بےقصور اپنی جانیں دےکر سازشی دہشت گردوں کی آزمائش میں حب الوطنی کی قیمت چکاتے رہے۔اور اب، گھوٹالوں کی کائیں کائیں میں بھی یہ سازشی اقتصادی گھوٹالوں کو ہی، وہ کتنے بھی ہزار کروڑ کے کیوں نہ ہوں، اپنے حدود بنانے کو تیار نہیں ہیں۔
ان کا نیا سماجی، ثقافتی اور سیاسی گھوٹالہ یہ ہے کہ جو ترنگا ہماری آن بان شان کی علامت ہے اور جس کو وہ خود بھی پانچ سال پہلے ہوئے انا ہزارے کی مشہور تحریک کے دوران بد عنوانی کی مخالفت میں لہراتے دکھتے تھے، اقتدار میں قاتلوں اور ریپکرنے والوں کی حمایت میں لہرانے لگے ہیں۔
وہ بھی اس جموں و کشمیر میں، جہاں ہماری قوم پرستی ان کی ہی دغابازی کی وجہ سے مشکل امتحان کی گھڑی سے گزر رہی ہے۔گزشتہ دنوں وہ جموںکے کٹھوا ضلع میں پہلے تو ایک قاتل کے حق میں، جو ریپکرنے والا اور اغواکار بھی ہے، ریلی نکالتے نہیں شرمائے، پھر اس میں ترنگے پھہرانے پر بھی اتر آئے۔ اس لئے کہ آٹھ سال کی آصفہ نام کی جو بچّی اس کا شکار ہوئی تھی، دوسری کمیونٹی کی اور غریب ماں باپ کی اولاد تھی۔
ابھی بھی وہ بچّی کے ماں باپ کا بائیکاٹ کرکے ان کا پانی روکے ہوئے ہیں اور گھر خالی کرکے چلے جانے کو کہہ رہے ہیں۔سوچئے ذرا، ان فریبیوں کو ہمارے ترنگے کو ‘ اپنے ‘ مجرموں کا ڈھکن بنانے میں کامیابی مل گئی تو کیا اس کا انجام اقتصادی گھوٹالوں سے بھی برا نہیں ہوگا؟
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ حالات اتنے خراب ہیں تو ان کو ناکام ہی بھلے کیسے کر سکتے ہیں؟ ہندی کے صف اول کے ناقدین اور شعرا میں سے ایک وجے بہادر سنگھ نے اپنی لمبی نظم میں اس کا ایک طریقہ یہ بھی بتایا ہے :
آؤ اور کہو کہ یہ ترنگا
لال قلعہ کا نہیں ہے صرف
نہیں ہے صرف کسی راشٹرپتی یا پردھان منتری کا
ا س کے رنگوں میں گھلا ملا ہے جلیانوالے باغ کا رنگ
بھگت سنگھ،آزاد،اشفاق کی
شہادت کا خون ملا ہے
بسمل کے سپنوں کا رنگ لہرا رہا ہے اس میں
منصوبے لہرا رہے ہیں کھدی راموں اور
ماتنگنی ہاجراؤں کے
منگل پانڈے کا غصہ اپھن رہا ہے
کچوٹ رہا ہے بہادرشاہ ‘ ظفر ‘ کا درد
آؤ اور پکڑ طے کرو اس پر اپنی
مقام طے کرو اپنااپنا
ورنہ ہر حال میں ہماری شکست چاہنے والے رہنماؤں نے جیسے ہمارے اقتدار کی تبدیلیوں کو ناکام کر ڈالا ہے، آزادی کو بھی ناکام کر ڈالیںگے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر