جس سیاست کے پاس کوئی قیمت نہیں ہوتی، اس میں نفرت ہی سب سے بڑی قیمت ہو جاتی ہے۔
سائنٹفک سماجواد کے سرخیل کارل مارکس کی سالگرہ (14 مارچ) بھلےہی کچھ روز بعد ہے، لیکن ان کے تریپورہ کے شکست خوردہ پیروکاروں کے جیت کے جنون سے بھرے حریف اچانک ان کے نظریے سے ایسے متاثر ہو اٹھے ہیں کہ نہ صرف ان سے بلکہ ان کے آباواجداد تک سے ان کے گناہوں (اس لئے کہ یہ بات تو وہ قبول کرتے ہی نہیں کہ مارکسسٹوں کے ہاتھوں کبھی کوئی نیکی بھی ہوئی) کا سارا حساب آناًفاناً اور یکمشت چکا لینا چاہتے ہیں۔
ان پیروکاروں کا ‘ قصور’ یہ ہے کہ وہ پارلیامانی سیاست میں اترے، تو اس کو سوشلسٹ انقلاب کے لئے استعمال کرنے کے ارادے سے تھے، لیکن اس مدت میں، اس میں ایسے مست ہو گئے کہ تریپورہ جیسی چھوٹی سے ریاست میں، جو آبادی کے لحاظ سے ملک کے 36 ریاستوں میں 22ویں مقام پر ہے، ہتھیاروں کے بجائے ووٹ کی معرفت 25 سال تک اقتدار میں رہ گئے!حالانکہ اتنے ‘ نالائق ‘ تھے کہ اپنے وزیراعلیٰ مانک سرکار تک کو ‘ سب سے غریب وزیراعلیٰ ‘ کے تمغہ سے نجات نہیں دلا پائے۔ بات اتنی سی ہی ہوتی توبھی غنیمت، لیکن اس بار کے اسمبلی انتخاب ہارے تو کچھ ایسے کہ ان کے خلاف عام طور پر لگائے جانے والے فرضی ووٹنگ، تشدد اور بےایمانی جیسے روایتی الزام بےکار ہو کر رہ گئے۔
لیکن ریاست کے 43 فیصد رائےدہندگان نے اس برے دن میں بھی ان کے ساتھ کھڑے رہکر ان سے فوراً حساب کی ضرورت کو ‘ اور ضروری ‘ بنا ڈالا۔ ‘ شاطر ‘ ہیں نا، کیا پتا، پٹخنی کھانے کے باوجود کب گرد جھاڑ کر کھڑے ہو جائیں! پھر کیوں نہ اس سے پہلے ان کے سارے اڈوں اور مٹھوں کو ڈھایا دیا جائے۔ان میں 1917 کےعظیم سوویت انقلاب کے ہیرو بلادمیر لینن کے مجسمے لگے ہوں، تب تو اور بھی۔ کیا ہوا، جو لوگ کہیں کہ اس طرح ہم نے اس طالبانی ملّا محمّد عمر کو بھی مات دے دیا ہے، جس نے 2001 میں افغانستان میں قدیم سلک روٹ پر بامیان کی پہاڑیوں میں واقع چوتھی وپانچویں صدی کے بدھ مجسموں کو ڈائنامائٹ سے اڑوا دیا تھا۔
اس سے کارل مارکس کے اور دیسی پیروکار کچھ سبق تو سیکھیںگے، جو لینن کا مجسمہ لگاکر بت پرستوں کے اس ملک میں مارکسیت کا سچ مچ کے وقار و عزت کے منصوبے پورے کرنا چاہتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں پہلے ہی ضرورت سے کچھ زیادہ مجسمے لگے ہوئے ہیں! تبھی تو وہ نہ اپنے عوام کی تہذیبی صفائی کر پائے اور نہ ‘ فرقہ وارانہ تشہیر ‘ کا شکار ہونے سے ہی اس کو بچا پائے۔مارکسیت کے ان حریفوں کے دل و دماغ میں جڑیں جمائے بیٹھی مختلف طرح کے بھیس بدلنے والی نفرتوں نے تریپورہ کے ‘ لال قلعے ‘ کے مسمار ہوتے ہی اپنے سارے باندھ ایک ساتھ توڑ ڈالے ہیں اور عجیب و غریب کارستانیوں پر اترکر ان کو حریفوں سے سفاک بدگو اور بدلے پر اتارو دشمنوں میں بدل ڈالا ہے تو اس سے پیدا ہوئی صورتحال کو کچھ اسی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
فطری ہی یہ نفرتیں کہیں مارکسیت کا مرثیہ پڑھ رہی ہیں تو کہیں اس خدشہ میں مری جا رہی ہیں کہ اس کے نظریے آنے والے وقت میں بحث و مباحثوں تک ہی محدود رہ جائےگی۔ کہیں تریپورہ کی پڑوسی ریاست میں وزیر کی شکل میں وہ مانک سرکار کو بنگلہ دیش چلے جانے کا راستہ سجھا رہی ہے، تو کہیں وزیر اعظم کے طور پر فن تعمیر پڑھاتی ہوئی اپنے کارکنان کو اس اوہام پرستی تک لے جانے میں بھی نہیں شرما رہیں کہ ملک کے شمال مشرقی کونے میں واقع تریپورہ کی یہ جیت ان کے لئے بہت مبارک ہونے والی ہے کیونکہ فن تعمیر میں گھر کا شمال مشرقی کونا سب سے اہم ہوتا ہے۔
جب تک کوئی پوچھے کہ ایسا ہے تو یہ کونا پچھلے 25 سالوں میں کمیونسٹوں کے لئے مبارکاور ثمریاب کیوں نہیں ثابت ہوا، وہ بی جے پی کے صدر کےطور پر کہنے لگ جا رہی ہے کہ لیفٹ کا معنی ‘ چھوڑا جا چکا ‘ ہے اور وہ ملک کے کسی بھی علاقے کے لئے ‘ رائٹ ‘ نہیں ہے۔
وزیر اعظم کی نفرت اسی بات کو ان الفاظ میں کہہ رہی ہے کہ بایاں بازؤں کے پرچم کا لال رنگ ڈوبتے ہوئے سورج کا رنگ ہے، جبکہ ان کا کیسریا اگتے ہوئے سورج کا۔ یہ نفرتیں مارکسی مخالفت کے چکر میں ملک کی سب سے بہترین جواہرلال نہرو یونیورسٹی اور سب سے زیادہ پڑھے-لکھے ریاست کیرل کی بےعزتی کرنے سے بھی نہیں چوک رہے۔
کہہ رہی ہیں کہ اب مارکسیت یا انتہاپسندی اب صرف انہی دو جگہوں میں رہیںگی۔ جیسے کہ یہ دونوں دو سب سے گھناؤنی جگہیں ہوں جہاں کمیونسٹ غیرضروری اور غیرمناسب ہو جانے کے باوجود رہ سکتے ہوں۔ایسے میں کیا تعجب کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد سیدھے رائےدہندگان کے سامنے جانے کی ہمت نہ جٹا پانے والے یوگی آدتیہ ناتھ تریپورہ میں 43 فیصد ووٹ پا کر اقتدار سے بےدخل ہوئی پارٹی کے لال پرچم کو ڈباکر رکھ دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو بڑبولا بی جے پی رکن پارلیامان سبرامنیم سوامی پوچھ رہے ہیں کہ ‘ غیر ملکی دہشت گرد ‘ لینن کا مجسمہ ملک میں کہیں بھی کیوں ہونا چاہیے؟
کاش، لینن کا مجسمہ ڈھائے جانے سے ناراض بتائے جا رہے وزیر اعظم ان کو بتاتے کہ ہماری آزادی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے شہیداعظم بھگت سنگھ اپنے آخری لمحوں میں اسی ‘ غیر ملکی دہشت گرد ‘ کی زندگی پر مبنی ‘ ریولیوشنری لینن ‘ کتاب پڑھ رہے تھے اور وہ تب سے ہندوستانی انقلابی تحریک کو متاثرکررہے ہیں، جب سوامی کی پارٹی کے آباواجداد انگریزوں کا حقہ بھرنے میں مگن تھے۔
یوں، سوامی جیسوں کو یہ سب بتانے کا کوئی خاص معنی نہیں کیونکہ وہ اس المیہ سے روز روز گزرنے کے لیے ملعون ہیں کہ ان کے ذریعے منضبط نظام اقتدار کے مکھیا کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے دنیا کے کسی بھی حصے میں جا کر کورنش بجا آنے سے پرہیز نہیں ہے، لیکن مساوات اور آزادی کے قوی خیال دیسی ہوں یا غیر ملکی، وہ ان کو بھنّاکر رکھ دیتے ہیں اور قطعی برداشت نہیں ہوتے۔لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ان نفرتوں کا چوغہ کتنا بھی نیا ہو، نہ وہ خود نئی ہیں اور نہ ہی مارکسیت کے ‘ زوال ‘ پر سیاپے کی آڑ میں منایا جانے والا ان کا ‘ جشن ‘۔ تاریخ گواہ ہے، مارکسیت اور مارکس کا بھوت ان کو پہلے بھی کچھ کم نہیں ستاتا رہا ہے۔
تبھی تو 1991 میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد انہوں نے بنا ایک پل گنوائے کارل مارکس کے خیالات کو ‘ تاریخ کی بھول ‘ بتا ڈالا تھا، لیکن 2007 کے عالمی مالی بحران میں لاکھوں لوگوں نے اپنی نوکریاں اور گھر کھوئے تو ان کو کارل مارکس کے خیالات میں ہی ‘ کمزورلوگوں کی طاقت ‘ نظر آئے۔ یہ بھی کہ البیئر کامیونے 1956 میں ٹھیک ہی لکھا تھا کہ مارکس کے ساتھ ہم نے جو ناانصافی کی ہے، اس کو کبھی ٹھیک نہیں کر پائیںگے۔
لیکن کیا کیجئےگا، آج مارکسیت اور مارکس پسندوں سے بدلا لینے پر آمادہ اور ساتھ ہی سرمایہ کو برہما بنانے پر اتارو نفرتوں کے پیروکار اپنے ہی آباواجداد میں شامل پنڈت دین دیال اپادھیائے کی کہی یہ بات نہیں مانتے کہ سرمایہ کا اثر سرمایہ کی کمی سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، تو کارل مارکس کی 1844 میں دیے گیے اس انتباہ کو ہی کیونکر کان دیںگے کہ، ‘ سرمایہ جیسی بےجان چیز جانداروں ،خاص طور سے انسانوںکو جاری کرےگی تو ان کو بغیردل کا بنا دےگی۔ ‘ جبکہ کوئی بغیردل کا ہوکہ نہ خود خوشی کا تجربہ کر سکتا ہے اور نہ کسی کو خوشی بانٹ سکتا ہے۔
1937 میں مارکس نے اپنے والد کو ایک خط میں لکھا تھا، ‘ دنیا میں سب سے زیادہ خوشی اسی کو ملتی ہے، جو سب سے زیادہ لوگوں کی خوشی کے لئے کام کرتا ہے۔ ‘ مارکس کے مطابق ‘ سرمایہ دارانہ سماج میں سرمایہ آزاد اور انفرادی ہوتا ہے، جبکہ زندہ آدمی اس کے دست نگر ہوتا ہے اور اس کی کوئی انفرادیت نہیں ہوتی۔ ‘انہوں نے تبھی سمجھ لیا تھا کہ اندھادھند استعمال ہمیں خوشی کے پاس نہیں لے جاتا، اس سے اور دور کرتا ہے۔ اس لئے ان کا خیال تھا، ‘ ضرورت تب تک اندھی ہوتی ہے، جب تک اس کو ہوش نہ آ جائے۔ آزادی ضرورت کا شعور ہوتی ہے۔ ‘
یہ نفرت کرنے والے مارکس کے پیروکار ہوں یا نہیں، اتنا جاننے کے بعد خود سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ ان کو شہری کے طور پر اتنا ہوش و شعور ہے یا نہیں کہ اپنی ضروریات اپنی ہوشمندی سے خود طے کر سکیں اور کوئی دوسری طاقت ان کی بنیاد پر کوئی خاص طرز زندگی نہ تھوپ سکے؟
کاش، وہ سمجھتے کہ اپنے ملک جرمنی کے علاوہ فرانس، بیلجیم اور برطانیہ میں سیاست، اقتصادیات، فلسفہ، سماجیات، مزدور، تاریخ اور فطرت کے ساتھ سائنسی تجزیوں کے مختلف گوشے فعال رہے اس انقلابی کو دنیا خاص طور سے انسان کی آزادی کی خواہش کو نئی نظریاتی وسعت دینے والا مشہور کارنامہ ‘ داس کیپٹل ‘ اور ساتھ ہی ‘ کمیونسٹ پارٹی کا منشور ‘ کے لئے جانتی ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں ان سے گھناؤنی نفرت کو یہاں تک پہنچا دی گئی ہے کہ ان کا مشہور و معروف قول ‘ مذہب لوگوں کے لئے افیون ہے ‘ کے کئی آفتوں کو گڑھ لئے گئے ہیں۔ کوئی دو رائے نہیں کہ فلسفی کے طور پر مارکس کا ماننا تھا کہ لوگوں کی خوشی کے لئے پہلی ضرورت ‘ مذہب کا خاتمہ ‘ ہے۔
لیکن انہوں نے انسانیت کی تاریخ میں مذہب کے ذریعے نبھائے گئے کردار کو کبھی بھی یکطرفہ طور پر خارج نہیں کیا۔ جو لوگ ان کے مذکورہ جملے کو عام لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے اس کے پورے تناظر سے کاٹکر حوالہ دیتے ہیں، بہتر ہو کہ وہ اس کو پورا پڑھ لیں،’ مذہب دین ذی روحوں کا ماتم ہے، بے رحم دنیا کا دل ہے اور غیر جاندار صورتحال کی روح ہے۔ انسان کی عقل جو نہ سمجھ سکی، اس سے نمٹنے کی بےبسی ہے۔ یہ لوگوں کی افیون ہے اور ان کی خوشی کے لئے پہلی ضرورت اس کا خاتمہ ہے۔ ‘
مارکس کہتے ہیں، ‘ امیر غریبوں کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں، لیکن ان کے اوپر سے ہٹ نہیں سکتے۔ زمین دار، کسانوں کے برعکس، وہاں سے کاٹنا پسند کرتے ہیں، جہاں انہوں نے کبھی بویا ہی نہیں۔ ‘ یقینی طور پر اسی سبب وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ‘ زندگی ایک لگاتار چلتی رہنے والی جدو جہد ہے جبکہ انقلاب تاریخ کا انجن پچھلے تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے اور مشینیں مخصوص مزدور کی بغاوت کو دبانے کے لئے سرمایہ داروں کے ہتھیار۔ ‘
اسی طرح ‘ بنا استعمال کی چیز ہوئے کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں ہو سکتی ، کنجوس ایک پاگل سرمایہ دار ہے، جبکہ سرمایہ دار ایک منطقی کنجوس۔ ‘قلمکاروں کے بارے میں ان کی دو ٹوک رائے ہے، ‘ جینے اور لکھنے کے لئے قلمکار کو پیسہ کمانا چاہیے۔ لیکن کسی بھی صورت میں اس کو پیسہ کمانے کے لئے جینا اور لکھنا نہیں چاہیے ، قلمکار تاریخ کی کسی تحریک کو شاید بہت اچھی طرح سے بتا سکتا ہے، لیکن یقینی طور پر وہ اس کو بنا نہیں سکتا۔ ‘
المیہ یہ کہ اس ملک میں آپ کسی سے غلطی سے بھی مارکسیت کے بارے میں کوئی تجسس جتا دیجئے، وہ آپ کو اتنی نظریاتی الجھنوں کے حوالے کر دےگا کہ آپ ان کو ہی سلجھاتے سلجھاتے الجھکے رہ جائیں۔اس کے الٹ مارکس اپنے نظریہ کو کچھ آسان ذرائع میں اس طرح سمجھاتے ہیں، ‘ کمیونزم کے اصول کو ایک جملے میں ظاہر کیا جا سکتا ہے-ساری ذاتی جائیداد کو ختم کیا جائے ، ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق دام دیا جائے ، مانا جائے کہ نوکرشاہوں کے لئے دنیا محض ہیرپھیر کرنے کی چیز ہے۔ ‘
یہاں مزدوروں کے تناظر میں ان کے اس مشہور قول کو بھی یاد رکھا جانا چاہیے کہ ان کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں، جبکہ جیتنے کو ساری دنیا۔
مارکس لوگوں کے خیالات کو ان کی طبعی حالت کے سب سے براہ راست نقطہ آغاز بتاتے ہیں جبکہ جمہوریت کو سماجواد تک جانے کا راستہ مانتے اور کہتے ہیں کہ خواتین کی ترقی کے بغیر کوئی بھی عظیم سماجی تبدیلی ناممکن ہے۔ان کے الفاظ میں ‘ سماجی ترقی خواتین، جن میں بری دکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں، کی سماجی حالت دیکھکر ہی ناپی جا سکتی ہے۔ ‘ دلچسپ یہ بھی کہ ایک وقت انہوں نے کہا تھا کہ ‘ اگر کوئی ایک چیز طےشدہ ہے تو یہ کہ میں خود مارکسسٹ نہیں ہوں۔ ‘
البتہ، 14 مارچ، 1883 کو لندن میں آخری سانس لینے تک دنیا میں لڑتے ہوئے انہوں نے انسان کو اس میں جیتنے اور آزاد ہونے کی جو راہ سجھائی، اس کو مارکسزم کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی ناکامیوں کی تہمت بھی اس کی تشکیلات پر نہیں، ان پیروکاروں پر لگائی جاتی ہے جو خود کو کارل مارکس سے دغا کرنے سے نہیں روک پائے۔
لیکن یہ نفرتیں کریں بھی تو کیا؟ ان کی سب سے بڑی لاچاری یہ ہے کہ وہ کبھی بھی خود کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا پاتیں۔ وجہ یہ کہ نہ ان کے پاس ہمارے آج کے سوالوں سے ٹکرانے کا سائنسی نظریہ ہے اور نہ ان کو حل تک لے جانے والی سمجھداری۔اس ملک یا دنیا کو اس کے تناظر یا استدلال میں دیکھ سکنے والی نگاہوں سے بھی وہ محروم ہیں۔ اسی لئے وہ کارل مارکس کے اس قول سے منھ چھپاتی پھرتی ہیں کہ فلسفی طرح طرح سے دنیا کی کئی وضاحتیں کر چکے ہیں اور اب خالص سوال اس کی وضاحت کا نہیں، اس کو بدلنے کا ہے۔
ان دنوں نہ صرف ہمارا ملک بلکہ ساری دنیا کچھ اس طرح اس ‘ بدلنے کے سوال ‘ کے سامنے جا کھڑی ہوئی ہے کہ جب تک وہ لاجواب رہےگا، مارکسزم کا مرثیہ پڑھنا چاہنے والے نفرت کرنے والوں کو آخرکار مایوسی ہی ہاتھ لگےگی۔ان کی نفرتوں کا بھی ایک دن وہی حشر ہوگا جو زمین کو چپٹی اور غیر منقولہ ماننے والے کوڑمغزوں کا ہو چکا ہے۔ جیسے وہ اپنا احتجاج کرنے والوں کو مختلف طرح سے ستاکر بھی یہ نہیں ثابت کر پائے کہ زمین گول نہیں ہے اور اپنے محور پر اور سورج کے چاروں طرف نہیں گھومتی، یہ نفرتیں بھی کچھ ثابت نہیں کر پائیںگی۔ سوائے اس کے کہ جس سیاست کے پاس کوئی قیمت نہیں ہوتی، اس میں نفرت ہی سب سے بڑی قیمت ہو جاتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر