ایودھیا کے تعلق سے سری سری کا یہ دعویٰ کرنا کہ اگر عدالت ہندتووادیوں کی مانگ کو خارج کرتا ہے تو ہندو تشدد پر اتر آئیںگے، اس کے ذریعے وہ نہ صرف قانون کی حکومت کو چیلنج دے رہے تھے بلکہ آئینی اصولوں پر بھی سوال کھڑا کر رہے تھے۔
سری سری روی شنکر ان دنوں سرخیوں میں ہیں (البتہ پھر ایک بار غلط وجہوں سے)۔ چند روز پہلے ایک نیوز چینل ‘ انڈیا ٹوڈے ‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک قسم کی خوفناک پیشین گوئی کی کہ اگر مندر مسئلے کا حل جلد نہیں کیا گیا تو ہندوستان سیریا بن سکتا ہے۔واضح ہو کہ سیریا گزشتہ کچھ سالوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، جس میں لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ‘ اگر عدالت مندر کے خلاف فیصلہ سناتی ہے تو مارکاٹ ہوگا۔ کیا آپ سوچتے ہیں کہ ہندو اکثریت اس سے راضی ہوگا؟ وہ مسلم کمیونٹی کے خلاف عدم اطمینان کو ہوا دیںگے۔ ‘
جیسے کہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان ‘ اشتعال انگیز بیان ‘ کے لئے ان کی کافی مذمت کی گئی اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کا یہ بیان ‘ فرقہ وارانہ کشیدگی ‘ کو بڑھاوا دے سکتا ہے، ملک کے الگ الگ حصوں میں ان کے خلاف پولیس میں شکایتں بھی درج ہوئیں۔
وہیں، زیادہ بےچین کرنے والی بات یہ تھی کہ نہ ہی بیان سے اُپجا غصہ اور نہ ہی پولیس میں درج شکایت کی ایودھیا معاملے کے ان ‘ خودساختہ’ ثالث کہے جانے والے اس روحانی گرو پر کوئی اثر ہوا اور مدھیہ پردیش کے جبل پور میں بھی نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے اسی متنازع بیان کو دوہرایا۔ اور یہ کہنے کے لئے اپنے اظہار کی آزادی کی بات کی۔
یقیناً وہاں موجود کسی خبرنویس نے ان سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کی کہ کیا آئین کے ذریعے طےشدہ حدود کی خلاف ورزی یا طےشدہ قانونی قوانین کی اندیکھی بھی اسی دعویٰ میں شمار کی جا سکتی ہے۔کیا سری سری کو نہیں پتا ہوگا کہ جہاں تک ایسے بیانات کی بات ہے تو ان کے بارے میں قانون بالکل واضح ہے۔ بھلے ان کے عمل پر کوتاہی نظر آئے۔ ہندوستان کے قوانین کے تحت مذہب کی بنیاد پر دو کمیونٹیوں کے درمیان دشمنی پھیلانا ایک مجرمانہ کارروائی ہے۔
تعزیراتِ ہند کی دفعہ، فساد پھیلانے کی نیت سے اشتعال انگیز کارروائی کرنے کے لئے (دفعہ 153)، مذہب کی بنیاد پر دو کمیونٹیوں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دینے کے لئے (دفعہ 153 اے)، قومی یکجہتی میں رخنہ ڈالنے والے اظہار، بیانات (دفعہ 153 بی)، ایسے الفاظ کا استعمال جن کے ذریعے دوسرے شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا (دفعہ 298)، عوامی نظامِ امن کو مسدود کرنے والے بیان (دفعہ 505 (1)، بی اور سی) اور الگ الگ طبقوں کے درمیان نفرت، بدنیتی اور دشمنی پیدا کرنے والے بیان (دفعہ 505/2)۔
تعزیراتِ ہند کے سیکشن 153 اے یا بی کا کسی شخص کے ذریعے کی جا رہی خلاف ورزی کے خلاف ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کو کارروائی شروع کرنے کا حق ہے۔اگر ہم روحانی گرو کے بیان کو باریکی سے دیکھیںگے تو پتا چلےگا کہ اگر ان کے خلاف دائر شکایتوں کو ایف آئی آر رپورٹوں کی شکل عطا کی گئی تو ان کے لئے قانونی بکھیڑوں سے بچ نکلنا آسان نہیں رہےگا۔
ایک کارکن جس نے دہلی کے تھانے میں شکایت درج کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘ اگر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیںگے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کو آگے بڑھائیںگے۔ ‘کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آخر ایسے متنازع بیان دینے کی جرات لوگ کیسے کرتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگوں پر کیا کارروائی ہوتی ہے وہ اس بات سے طے ہوتا ہے کہ اقتدار سے ان کی کتنی قربت ہے۔
ایسی تمام مثالیں دکھتی ہیں جب ایسے لوگ جن کی شدت پسند خیالات کے تئیں ہمدردی جگ ظاہر ہے وہ بےدھڑک ایسے اشتعال انگیز بیان دیتے جاتے ہیں اور ان کا کچھ نہیں ہوتا۔بہت زیادہ وقت نہیں ہوا جب بی جے پی سے جڑے تمل ناڈو کے سابق ایم ایل اے ایچ راجا اچانک تب سرخیوں میں آئے، جب تریپورہ کے انتخابات کے بعد ہندو توا دی طاقتوں نے لینن کا ایک مجسمہ توڑا تھا اور اسی وقت انہوں نے فیس بک پر لکھا :’ لینن کون ہوتا ہے؟ ہندوستان کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے؟ ہندوستان کے ساتھ کمیونسٹ کا کیا تعلق ہے؟ لینن کے مجسمہ کو تریپورہ میں مسمارکر دیا گیا۔ آج لینن کا مجسمہ، کل تمل ناڈو کے ای وی آر راماسوامی (پیریار) کا مجسمہ۔ ‘
یہ بھی پڑھیں : مسلمانوں کی دل شکنی،یوگی کی تعریف: یہ کیسی ثالثی ہےروی شنکر جی؟
راماسوامی پیریار کے تمل ناڈو میں قدروقیمت کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام دراوڑ پارٹیاں چاہے انّادرمک، درمک اور دیگر ان کی خدمات کے تئیں سرنگوں رہتی ہیں۔ڈاکٹر امبیڈکر نے جس طرح مہاراشٹر اور باقی ہندوستان کے دلتوں میں بیداری پیدا کی، اسی قسم کا کام پیریار نے تمل ناڈو کے شودر اور انتہائی نچلے شودر میں کیا تھا اور وسیع تحریک کو جنم دیا تھا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ایچ راجا کے اس فیس بک بیان سے پوری ریاست میں تشدد ہو سکتا ہے، ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ حزب مخالف پارٹیوں کی طرف سے بھی مانگ کی گئی کہ ان کو گرفتار کیا جائے اور غنڈہ ایکٹ لگایا جائے۔ایچ راجا نے فوراً اپنی فیس بک پوسٹ سے دوری بنا لی اور کہا کہ اس پیج کو کئی ایڈمن دیکھتے ہیں۔ قصّہ وہیں ختم ہوا۔
ایک طرف جبکہ ایچ راجا کو اپنی جارحانہ پوسٹ کے لئے ‘ وضاحت ‘ کے بعد کچھ بھی مخالفت نہیں جھیلنی پڑی، مگر ایک نوخیز ذاکر تیاگی اتنا قسمت والا نہیں نکلا۔گزشتہ سال جب یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ اب غنڈہ اور بدمعاش کو یوپی چھوڑنا ہوگا تو مظفرنگر کے رہنے والے اس نوخیز نے طنزیہ انداز میں لکھا :
‘ گورکھ پور میں یوگی جی نے کہا کہ اب غنڈہ اور بدمعاش یوپی چھوڑو۔ میں یہ کہنے والا کون ہوتا ہوں کہ یوگی آدتیہ ناتھ جی کے خلاف 28 مقدمے درج ہیں جن میں سے 22 معاملوں میں سنگین دفعات لگی ہیں۔ ‘
بس اسی بات پر اس کو کئی ہفتہ جیل میں گزارنے پڑے۔ اس کی تمام دفعات کے تحت جن میں ایک غدار وطن کی بھی دفعہ ہے-مقدمے قائم کئے گئے۔ہم تفتیش کریں تب تمام ایسے معاملے مل سکتے ہیں کہ اگر آپ معمولی آدمی ہیں اور آپ نے ‘ عظیم رہنما ‘ کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی یا آپ نے فیس بک پر کچھ لکھا جس سے ‘ مجروح جذبات کی بریگیڈ ‘ بوکھلا گئی اور اس نے آپ کے خلاف مقدمہ کر دیا۔
ویسے فی الوقت جب سری سری کے بیان کے تئیں سرکاری رد عمل کا انتظار کیا جا رہا ہے، یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر سری سری کے ‘ متنازع ‘ بیان سے کیا دلیل نکلتی ہے، مگر اس کے پہلے پس منظر پر بھی تھوڑی گفتگو ضروری ہے۔یہ بات اب تاریخ ہو چکی ہے کہ ایودھیا (جو ہماری مشترکہ وراثت کی علامت رہی) اس کا نام پچیس سال پہلے داغدار ہوا جب پانچ سو سال پرانی ایک مسجد کو فرقہ وارانہ فسطائی تنظیموں کے کارکنان نے مسمار کر دیا۔
ان دنوں اس معاملے کی سماعت سپریم کورٹ کر رہی ہے جس نے یہ طے کیا ہے کہ اس کو ایک ‘ زمین کے تنازعہ ‘ کے طور پر دیکھےگی اور اس کی اگلی سماعت 14 مارچ کو ہوگی۔یاد کر سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی مداخلت تب سامنے آئی تھی جب اس نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے ذریعے دئے ایک فیصلے پر منتقلی کا حکم دیا تھا، جس نے ایک طرح سے زمین کا قبضہ کے سوال کو تین پارٹیوں کے درمیان کی جائیداد کے تنازعے کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا اور مقدمہ کو طے کرنے کے لئے اصل حقیقتوں پر غور کرنے کے بجائے عوام کے عقائد اور ان کے جذبات کی دہائی دی تھی۔
کورٹ کے اس فیصلے کی زبردست مذمت ہوئی تھی کیونکہ یہ واضح تھا کہ اس کو متوازن قانونی اصولوں کے بنیاد پر نہیں دیا گیا تھا اور اس کا اصل فارمولہ تھا کہ دو کمیونٹیوں کے درمیان لمبے عرصے سے چل رہے تنازعے کو کسی طرح رفع دفع کر دیا جائے۔اس کو ‘ پنچایتی ‘ فیصلہ کہا گیا کیونکہ یہاں ثالث کے لفظ کو آخری لفظ مانا گیا تھا۔ اس فیصلے نے ایک طرح سے ہندتووادی جماعتوں کے لمبے عرصے سے چلی آ رہی مانگ کی ہی تصدیق کی گئی تھی جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ عقیدہ کے معاملے کسی قانون اور عدلیہ نظام کے پرے ہوتے ہیں۔
ان کے خیمے میں خوشی کا ماحول بنا تھا اور اپنے ایجنڈے کی جیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے دونوں کمیونٹیوں کے درمیان کے دیگر متنازع مدعوں کو ہی اچھالنا شروع کیا تھا اور یہاں تک مانگ کی تھی کہ مسلمانوں کو چاہیےکہ متھرا اور وارانسی اور ایسے تمام معاملوں میں اپنا دعویٰ چھوڑ دے۔
دھیان رہے اگر ہم سری سری روی شنکر کے انٹرویو کو غور سے پڑھیں تو صاف دکھتا ہے کہ وہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی فہرست کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس نے اکثریت کے دعووں کی تصدیق کی تھی اور انصاف کی اندیکھی کی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس تنازعے کو آسانی سے سلجھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ مسلمان ایودھیا پر اپنے دعویٰ کو ‘ چھوڑ دیں ‘۔’ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایودھیا پر اپنے دعوےکو چھوڑ دیں، خیرسگالی قائم کرنے کے ایک موقع کے طور پر… ‘ ایودھیا مسلمانوں کے لئے عقیدہ کی جگہ نہیں ہے۔
اپنے انٹرویو میں یہ دعویٰ کرنا کہ اگر سپریم کورٹ ہندتووادیوں کی مانگ کو خارج کرتا ہے تو ہندو تشدد پر اتر آئیںگے، اس کے ذریعے نہ صرف سری سری روی شنکر قانون کے راج کو چیلنج دے رہے تھے بلکہ آئینی اصولوں پر بھی سوال کھڑا کر رہے تھے-جن کے سامنے ذات، مذہب،جینڈر، نسل، کمیونٹی وغیرہ بنیادوں پر کسی بھی طرح کی جانبداری ممکن نہیں ہے۔
ان کا بیان ایک طرح سے ایسے لوگوں / گروہوں کے لئے بلاواسطہ اپیل یا اعلان بھی تھا جو ہندو تواکے نظریے کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں کہ وہ ایکشن کے نئے دور کے لئے تیار رہیں۔ویسے وہ سبھی لوگ بےحد نرم انداز میں بولنے والے ان روحانی گرو پر فدا دکھتے ہیں-جن کا عالمی روحانی پروگرام 140 ممالک میں چلتا ہے اور جس کے 2 کروڑ ممبر ہیں، اور جس کے تئیں نوجوانوں کے ایک حصے میں کافی جنون ہے۔
ان کو یہ سنکر تعجب ہوگا کہ گرو جی کن کن متنازع مسائل پر زبان کھولتے رہتے ہیں۔ ویسے ان کو قریب سے دیکھنے والے بتا سکتے ہیں کہ کس طرح پیار اور خوشی اور میڈیا کی مدد سے بنائی گئی کھلندرے پن کی امیج کے باوجود سری سری کے لئے (بقول میرا نندا) اپنے ‘ ہندو توادی جذبے کو چھپا پانا ناممکن ہے۔ اور یہ ایک اوپن سیکریٹ (ظاہر راز) ہے کہ رام مندر اور اقلیت معاملوں کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ ‘برٹین کی مشہور میگزین ‘ دی اکونامسٹ ‘ نے ان کی سیاست کو بخوبی پکڑا تھا :
‘ آرٹ آف لونگ تمام عقیدے کے تمام لوگوں کے لئے کھلا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ رام مندر کی گفتگو کرتے ہوئے اس کے سربراہ سری سری روی شنکر روحانی گرو کے بجائے سیاستداں لگنے لگتے ہیں، جو ‘ اقلیتی کمیونٹی کی طمانیت ‘ کی لمبی تاریخ کی بات کرتا ہے اور اس نظام کی غیربرابری کو دکھاتا ہے جو مکّہ میں حج کے سفر پر جانے کے لئے مسلمانوں کو سبسیڈی عطا کرتا ہے۔ ‘
اب بات صحیح سے سمجھ آ سکتی ہے کہ آرٹ آف لونگ اچانک کبھی کبھی آرٹ آف کوارشن یا ‘ آرٹ آف ہیٹنگ ادر ‘ کیسے بن جاتا ہے۔
(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر