یہ بات بالکل دو اور دو چار جیسی صاف ہے کہ کانگریس جنرل اسمبلی کے منچ سے جو بھی بولا جا رہا تھا وہ محض سیاسی بیان بازی تھی۔
جب کوئی جماعت اپنا اجلاس کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنی آگے کا خاکہ طے کرے اور مستقبل کے اپنے رخ اور پالیسی کا اشارہ دے۔دہلی میں منعقد کانگریس کے 84ویں جنرل اسمبلی میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کانگریس نے اپنی سنہری تاریخ کو وہاں مشتہر نہیں کیا۔ اجلاس میں اس کا کوئی نشان نہیں دکھا۔ جیسا کہ پہلے ہوتا تھا کہ منچ پر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل اور مولانا آزاد وغیرہ کی تصویریں وغیرہ دکھائی پڑتی تھیں۔ اس بار منچ پر وہ نہیں تھا۔
دوسری بات کہ منچ پر پارٹی کے اہم اور سینئر رہنماؤں کی بیٹھک کا اہتمام ہوتا تھا، اس بار وہ نہیں کیا گیا۔ کیونکہ جو بھی وہاں بیٹھتے ہیں تو اس سے پارٹی میں ان کے قدکو ناپا جاتا ہے۔ اس لئے راہل گاندھی نے اس نظام سے کنارہ کیا۔اس کی وجہ ہے کہ اب راہل کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نامزد کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے تو اس لئے انہوں نے یہ پردہ پوشی کی ہے تاکہ پارٹی کے اندر یہ پیغام نہ جائے کہ فلاں آدمی راہل کی ٹیم میں ہوگا، فلاں راہل کی ٹیم میں نہیں۔ مطلب کہ اصول و تنازعے کی حالت یا کسی اندازے کے لئے انہوں نے جگہ نہیں چھوڑی۔
لیکن جو اہم بات دیکھی گئی وہ یہ ہے کہ ایک جمہوری سیاسی جماعت میں دو طرح کی پالیسی ہوتی ہیں۔ ایک پالیسی ہوتی ہے پارٹی کی لیڈرشپ یا اعلیٰ قیادت کی اور دوسری ہوتی ہے کارکن کی آواز والی پالیسی جس میں کارکن کی آواز کو ہی لیڈرشپ مانکر اس کو آگے بڑھایا جاتا ہے، اس پالیسی کی کمی کانگریس میں صاف نظر آ رہی ہے۔بیلٹ پیپر سے انتخاب کرانے والے مدعا کی ہی بات کریں تو کانگریس نے اجلاس میں ایک بڑا فیصلہ لیا ہے کہ ان کو ای وی ایم پر عدم اعتماد ہے اور انتخاب بیلٹ پیپر پر ہونا چاہیے۔یہ ایک نیشنل پارٹی کے لئے بہت بڑا قدم ہے۔ لیکن، اتنا بڑا فیصلہ لیا گیا اور اس میں کارکنان کو شامل نہیں کیا گیا۔ کانگریس نے اس میں اندرونی سطح پر کوئی رائے شماری نہیں کی۔
ریاستوں میں جو اس کے ممبر ہیں، ان کے جذبات کی جانکاری نہیں لی گئی۔ کوئی ورکنگ گروپ رہا ہو یا کوئی کمیٹی جس کی رپورٹ پر عمل کرکے یہ فیصلہ سیاسی تجویز میں شامل کیا گیا ہو تو ایسا بھی نہیں ہے۔ یہ پوری طرح ایک لیڈرشپ یا اعلیٰ قیادت کی سوچ ہے کہ ای وی ایم کے بھروسہ پر سوالیہ نشان لگایا جائے۔دوسری بات یہ کہ جب اتحاد کی بات آتی ہے تو اتحاد پر کانگریس کا ایک اسٹینڈ ہوتا تھا جو پہلے پچ مڑھی اجلاس، پھر شملہ اجلاس میں بھی تھا کہ اگر ضرورت پڑی ایک جیسے نظریہ والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی تو کانگریس اس کے لئے تیار ہے۔ لیکن، اس میں کانگریس کا ایک کردار ہونا چاہیے۔ فیصلہ کن کردار، مطلب اس کے حساب سے چیزیں ہونا چاہیے۔
لیکن، اس جنرل اسمبلی میں انہوں نے جو لفظ اتحاد کے لئے استعمال کیا ہے وہ ہے، ‘ پریگمیٹک ‘۔ یعنی کہ جو ‘ عملی ‘ ہو۔اب عملی سے مقصد یہ بھی نکلتا ہے کہ کانگریسکی اپوزیشن کے لیے پالیسی۔ اس پر ہی ایک طریقے سے دوبارہ غور کرنا ہے اور ساتھ ہی آنے والے وقت میں اگر نریندر مودی کو روکنا کانگریسکی منشا ہے تو اس میں سپا، بسپا، ترنمول، جو بھی غیر بھاجپائی سیاسی جماعت ہیں، وہ رہنما کردار نبھائیں تو کانگریس اس کے لئے بھی تیار ہے۔
لیکن، عوام چاہتی ہے ایک ایسا چہرہ جو ‘ لارجر دین لائف ‘ ہو، جیسا کہ مودی ہیں۔ یہاں راہل اور سونیا کی جو طاقت ہے وہی ان کی کمزوری بن جاتی ہے۔ یہ تھوڑی باہم متضاد دلیل ہو سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی سیاسی زندگی میں سونیا کا مقصد وزیر اعظم بننا نہیں رہا اور راہل کا بھی مقصد ہر قیمت پر وزیر اعظم بننا نہیں ہے۔ سونیا ماڈل یہ ہے کہ آپ بنا وزیر اعظم بنے ہوئے بھی فعال سیاست میں ایک بڑا اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔
وہیں، راہل گاندھی کی عمر 48 سال ہونے کو آئی ہے۔ ان کو بھی دیکھیں تو اقتدار یا عہدہ حاصل کرنے کا جو جذبہ ہوتا ہے، جس کو ہم عہدے کی بھوک بھی کہہ سکتے ہیں، وہ ان میں ابتک نظر نہیں آیا ہے۔ دس سال مشترکہ یو پی اےکی حکومت رہی، وہ وزیر بھی نہیں بنے۔یہ صورتحال حزب مخالف میں خاصکر کہ جو علاقائی جماعت ہیں اور اقتدار کے لئے للچائے ہیں، خاص طور پر جو وزیر اعظم عہدے کے دعوے دار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، چاہے وہ مایاوتی ہوں یا ممتا بنرجی یا پھر شرد پوار یا کوئی دیگر، تو ان کو ایک موقع دیتی ہے۔
یہی بات کانگریس کی حمایت میں بڑی پازیٹو مانی جا سکتی ہے اور سونیا گاندھی کا جو غیر بھاجپائی جماعتوں کو چاہے وہ کشمیر کی پارٹی ہوں یا تمل کی پارٹی ہوں یا پھر جتنے بھی علاقائی جماعت ہیں، ان کو ایک جیسا منچ پر لا سکتی ہیں۔اس لئے راہل کی کمزوری ہی ان کی طاقت ہے کہ وہ اس طرح خود کو وزیر اعظم کے عہدے سے دور رکھکے حزب مخالف کو یکجا کر سکتے ہیں اور ان کی کمزوری بھی یہی ہے کہ وہ خود وزیر اعظم عہدے کے اہل ہیں اور نریندر مودی کے سامنے دعوے دار نہیں ہیں۔ اس طرح کانگریس سونیا اور راہل کی قیادت میں قربانی دینے کو تیار ہے۔
یہاں وہ صورتحال نہیں ہے جیسی کہ سابق کانگریس صدر سیتارام کیسری کے وقت ہوا کرتی تھی۔ تب نیشنل فرنٹ کی حکومت تھی اور دیوگوڑا اور گجرال وزیر اعظم تھے۔ تب کہا جاتا تھا کہ کیسری جی رہنمائی کے لئے چھٹپٹا رہے تھے۔ ان کو اشارہ دیا گیا تھا کہ ‘ اولڈ مین از ان ہری۔ ‘فی الحال ویسا نہیں ہے۔ یہاں ینگ مین از ناٹ ان ہری۔ اس لئے کوئی کانگریسی یہ نہیں کہہ رہا کہ حزب مخالف یکجہتی اچّھی بات ہے، لیکن جو بھی ہوگا راہل گاندھی کی قیادت میں ہی ہوگا۔ یہی چیز کانگریس کا ابھی اسٹینڈ نہیں ہے اور یہی بات ان کو اوپر لے جاتی ہے۔
وہیں، ابھی ہر قیمت پر ہر آدمی چاہے وہ مایاوتی ہو یا ممتا بنرجی اپنی ذاتی وجوہات سے نریندر مودی کو روکنا چاہتی ہیں، یہ حالت کانگریس کی حمایت میں ہے۔ اس اچّھی حالت کا فائدہ لےکر وہ اپنی سیٹوں کی تعداد 44 سے 100 کر سکتی ہے۔ علاقائی جماعتوں کو توبیس تیس سیٹیں ہی ملتی ہیں۔ اس طرح کانگریس کی سو سیٹیں ان علاقائی جماعتوں کے درمیان گلو (گوند) کا کام کر سکتی ہیں۔
کانگریس اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کے پاس نریندر مودی جیسا چہرہ نہیں ہے۔ پہلے ضرور اس کے پاس پنڈت جواہر لال نہرو رہے، اندرا گاندھی رہیں۔ لیکن اب راہل کوشش ضرور کریںگے خود کو ایک چہرہ بنا سکیں، لیکن اس کوشش میں جو ضد ہونی چاہیے، وہ نہیں ہے۔وہیں، یہ بات بالکل دو اور دو چار جیسی صاف ہے کہ کانگریس جنرل اسمبلی کے منچ سے جو بھی بولا جا رہا ہے، وہ محض سیاسی بیانبازی ہی ہے۔معیشت کی ہی بات کریں، تو اس میں کوئی ایسا خاص فرق نہیں ہے کہ اس حکومت سے اس حکومت کے مقابلے میں کوئی بھاری فرق نکلے۔ معیشت کے معاملے میں پینترےبازی (مینیوورنگ) کا بہت چانس نہیں ہوتا۔ کیونکہ جن بنیادی اقتصادی پالیسیوں پر کانگریس نے اقتصادی اصلاحوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، ڈاکٹر منموہن سنگھ نے منچ سے اپنی انہی اقتصادی پالیسیوں کو کانگریس کی تجویز کے طور پر آگے بڑھایا۔
بس یہ سب کہنا کہ اس اقتصادی اصلاح یا پالیسی کو ایسے نہیں، ایسے نافذ کیا جا سکتا تھا، بنیاد کو ہم ایسے نافذ کر سکتے تھے، ڈائریکٹ ٹیکس بینیفٹ (ڈی بی ٹی) کو اس طرح دے سکتے تھے۔ یہ کہنا صرف ایک عمل ہے کہ اس اسکیم یا پالیسی پر ایسا بھی ہو سکتا ہے۔لیکن، جو اقتصادی پالیسیوں کے اصول ہیں، ان پر کانگریس کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لئے یہ جو باتیں ہیں وہ صرف الفاظ کا ایک مایاجال ہے، جو سیاسی جماعت اکثر اپنے ایسے اجلاس میں پیش کرتے ہیں۔دراصل، کانگریس کا مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس کے پاس مسائل کا حل نہیں ہے۔ مثال کے لئے کسانوں کا مدعا فی الحال بہت بڑا ہے۔ لیکن، جو کسانوں سے جڑے مسئائل ہیں، ان کے لئے کانگریس کے پاس کوئی حل نہیں ہے، کوئی اسکیم نہیں ہے، کوئی بنیادی سوچ بھی نہیں ہے۔ صرف حل کے طور پر یہ ہے کہ معاوضہ دیا جائےگا اور یہاں-وہاں کی باتیں جو دہائیوں سے سنی جا رہے ہیں۔
لیکن، کھیتی باڑی کو کیسے ملک میں ایک کامیاب کاروبار یا روزگار بنایا جائے، جیسا کہ مغربی یا دیگر بہت سے ممالک میں ہوتا ہے، اس طرح کا کانگریس کے پاس کوئی مسودہ نہیں ہے۔ کانگریس کے پاس کسانوں کے کوئی بڑے مشہور رہنما بھی نہیں ہیں۔ یہی ایک وجہ ہے کہ کانگریس کسانوں میں جو فی الحال غصہ اور بےچینی ہے اس کا وسیع سیاسی فائدہ بھی نہیں اٹھا پا رہی ہےسوال یہ بھی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی کچھ سماجی اور سیاسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کیا کانگریس وہ ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ ضلع اور تعلقہ سطح پر کانگریس ایسی جماعت بنائے جو لوگوں کے درمیان دنگے-فساد یا مذہبی دیوانگی کے معاملوں، گراہک اور صارف متعلق معاملوں، معیشت سے جڑے معاملوں پر 365 دن 24 گھنٹے عوامی بیداری کا کام کرے۔
اس کے رضا کار عوام کے درمیان جا کر جو سماجی اور اقتصادی مدعا ہیں ان میں اس کے ساتھ جڑیں تو کانگریس کے لئے نتیجہ الگ دکھائی دیںگے۔ صرف ایک سمینار کر دینے سے یا اجلاس میں کچھ کہہ دینے سے عوام کو وہ باتیں نہیں بھاتیں، کیونکہ لوگوں کو جو روز مرّہ کی زندگی میں پریشانیاں آتی ہیں، جن چیلینجز کا مقابلہ ان کو کرنا پڑتا ہے، اس کا علاج کرنا یا ان کے ساتھ کھڑے ہونا، یہی ایک سیاسی جماعت کے لئے اگنی پریکشا ہوتی ہے۔
کل ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ مخالفت کی سیاست نہیں حل کی سیاست کانگریس کو پیش کرنی ہوگی۔
(سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی سے دیپک گوسوامی کی بات چیت پر مبنی)
Categories: فکر و نظر