خبریں

نجی جانکاریوں کے غلط استعمال کے معاملے میں فیس بک کے خلاف جانچ شروع

 ذاتی جانکاری کے غلط استعمال کے معاملے میں فیس بک کے خلاف امریکہ میں تفتیش شروع۔ امریکن فیڈرل ٹریڈ کمیشن اس بات کی جانچ‌کر رہا ہے کہ کیا فیس بک نے صارفین کے لاکھوں ڈیٹا ایک سیاسی مشاورت ایجنسی کو دئے تھے۔

مارک زکر برگ/فوٹو: رائٹرس

مارک زکر برگ/فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: ہندوستان نے بدھ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو آگاہ کیا کہ اگر اس نے ملک کے انتخابی عمل کو کسی بھی غیرضروری طریقے سے متاثر کرنے کی کوشش کی تو اس کو سخت کاروائی کا سامنا کرنا پڑے‌گا۔امریکہ کےریگولیٹر کے ذریعے فیس بک کے خلاف استعمال کرنے والے کی رازداری کی ممکنہ خلاف ورزی کی تفتیش کی جا رہی ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قانون وزیر روی شنکر پرساد نے بدھ کو کہا کہ حکومت پریس، تقریر اور اظہار کی آزادی کی پوری حمایت کرتی ہے۔ ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر خیالات کے آزاد لین دین کی بھی حمایت کرتی ہے۔

پارلیامنٹ کے احاطے میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں پرساد نے کہا کہ فیس بک سمیت کوئی بھی سوشل میڈیا سائٹ اگر نامناسب طور پر ملک کے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو برداشت نہیں کیا جائے‌گا۔ ضرورت ہونے پر کڑی کارروائی کی جائے‌گی۔انہوں نے مزید کہا کہ 20 کروڑ ہندوستانی فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ کے باہر کمپنی کا سب سے بڑا بازار ہے۔ پرساد نے کمپنی اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر مارک زکربرگ کو آگاہ کیا کہ اگر کسی طرح کے بھی اعداد و شمار کی خلاف ورزی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو آئی ٹی قانون کے تحت کارروائی کی جائے‌گی۔

پرساد نے تنبیہ کرتے ہوئےکہا، ‘ مارک زکربرگ آپ بہتر طریقے سے جان لیں، ہم ہندوستان میں ایف بی پروفائل کا استقبال کرتے ہیں لیکن ایف بی نظام کے ذریعے اگر ہندوستانیوں کے کسی اعداد و شمار کی چوری کی جاتی ہے تو اس کو برداشت نہیں کیا جائے‌گا۔آئی ٹی قانون میں ہمارے پاس کافی حقوق ہیں ہم ان کا استعمال کریں‌گے۔ آپ کو ہندوستان میں سمن بھی کیا جا سکتا ہے۔’ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حکومت فیس بک کے ذریعے استعمال اعداد و شمار پر کسی طرح کی تفتیش کرے‌گی، آئی ٹی وزیر نے کہا کہ ہندوستان میں اس کے لئے Telecom Regulatory Authority of India (ٹی آر اے آئی) ہے۔ اگر کوئی خاص شکایت ملتی ہے تو اس کی تفتیش ہوگی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جبکہ انڈین پالیسی ڈائرکٹرس اور فیس بک کے درمیان کشمکش پیدا ہوئی ہے۔اس سے پہلے 2016 میں ٹی آر اے آئی نے انٹرنیٹ پہنچ کے لئے جانبداری والی قیمت پر ضابطے جاری کئے تھے جس کے فیس بک فری بیسکس جیسے پلیٹ فارم پر پابندی لگی تھی۔امریکن فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) فیس بک کی اس بات کے لئے جانچ‌کر رہا ہے کہ کیا اس نے استعمال کنندہ کے لاکھوں اعداد و شمار ایک سیاسی مشاورت ایجنسی کو دئے تھے۔میڈیا کی خبروں میں الزام لگایا گیا ہے کہ کیمبرج اینالٹکا نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 2016 کے انتخابی مہم میں ان اعداد و شمار کا استعمال کیا تھا۔

پرساد نے الزام لگایا کہ کیمبرج اینالٹکا کی کانگریس پارٹی کے ساتھ تعلقات ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس صدر راہل گاندھی کی سوشل میڈیا پروفائل میں کیمبرج اینالٹکا کا کیا کردار ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے 2019 کے انتخابی مہم کے لئے کیمبرج اینالٹکا کی خدمت لی ہے۔ میڈیا کے ایک طبقے کے ذریعے اس کو برہماستر کہا جا رہا ہے۔ اس ایجنسی پر رشوت، سیکس ورکر کا استعمال کرنے اور فیس بک سے ڈیٹا چرانے کا الزام ہے۔پرساد نے کہا، ‘ کانگریس پارٹی سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا انتخاب جیتنے کے لئے وہ اعداد و شمار کے ہیرپھیر یا چوری پر منحصر کرے‌گی۔ ‘

صارفین کی ذاتی جانکاریوں کے غلط استعمال کے معاملے میں سوشل میڈیا کمپنی فیس بک کی مصیبتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔یورپی یونین اور برٹن کی پارلیامنٹ کے بعد اب امریکہ میں بھی اس کے خلاف تفتیش شروع ہو گئی ہے۔امریکی میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق امریکہ میں Competition & Consumer Protection Authorities Worldwide ایف ٹی سی نے اس تفتیش کی شروعات کی ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا 2016 کی انتخابی مہم دیکھ رہی برٹش کمپنی کیمبرج اینالٹکا پر الزام ہے کہ اس نے فیس بک کے پانچ کروڑ صارفین سے جڑی جانکاریوں کا غلط استعمال کیا تھا۔اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد فیس بک کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یورپی یونین اور برٹن کی پارلیامنٹ نے اس کو لےکر فیس بک کےچیف ایگزیکٹو افسر مارک زکربرگ کو پیش ہوکر وضاحت دینے کے لئے کہا ہے۔ اس کے بعد اب امریکہ میں بھی رکن پارلیامان نے زکربرگ کو کانگریس کے سامنے پیش ہونے کو کہا ہے۔امریکی اخبار ‘ دی نیویارک ٹائمس ‘ اور برٹش اخبار ‘ آب زرور ‘ کی مشترکہ جانچ‌کے مطابق کیمبرج اینالٹکا نے فیس بک کے پانچ کروڑ صارفین کی جانکاریوں کی بنیاد پر لوگوں کی نفسیاتی پروفائل تیار کی تھی۔کمپنی نے اس کے لئے شخصیت سے متعلق اندازہ بتانے والے ایک ایپ کا استعمال کیا تھا جس کو 2.70 لاکھ لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا تھا۔ کمپنی نے ڈاؤن لوڈ کرنے والے لوگوں اور ان کی دوستوں کی جانکاریوں کا استعمال کیا تھا۔ اس کا ہدف امریکی ووٹر کے عمل کا اندازہ لگانا تھا۔

‘ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ ‘کے مطابق ایف ٹی سی اس بات کی جانچ‌کر رہا ہے کہ کیا فیس بک نے کیمبرج اینالٹکا کو صارفین کی جانکاریاں دےکر ان اہتماموں کی خلاف ورزی کی ہے جن کے تحت اس نے لوگوں سے ان کی ذاتی جانکاریاں جمع کرنے اور ان کو ساجھا کرنے کی رضامندی لی تھی؟’واشنگٹن پوسٹ ‘ نے اس مسئلے پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر کمیشن نے فیس بک کو خلاف ورزی کا قصوروار پایا تو اسے فی خلاف ورزی 40 ہزار ڈالر کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔اس بیچ فیس بک نے سین فرانسسکو میں بدھ کو بیان جاری کر کہا کہ وہ کیمبرج اینالٹکا کے ذریعے لوگوں کی ذاتی جانکاریوں کا غلط استعمال کئے جانے سے دکھی ہے۔

کمپنی نے معاملے کا سارا قصور کیمبرج اینالٹکا پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک اکیڈمک ریسرچ اسکالرسے جانکاریاں لےکر اس کا غلط استعمال کیا گیا ہے جو کہ سوشل نیٹ ورک سے جڑی شرطوں کی خلاف ورزی ہے۔ فیس بک نے کہا، ‘ پوری کمپنی اس سے دکھی ہے۔ ہمیں ٹھگا گیا ہے۔ ہم لوگوں کی جانکاریاں محفوظ رکھنے کے لئے اپنی پالیسیوں کو مناسب طریقے سے نافذ کرنے کو پرعزم ہیں۔ ایسا کیسے ہوا، یہ جاننے کے لئے ہم ہر ممکن قدم اٹھائیں‌گے۔’ کمپنی نے کہا کہ زکربرگ، چیف آپریٹنگ افسر شیرل سینڈبرگ اور ان کی ٹیم ساری جانکاریوں سے واقف ہونے کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے کیونکہ وہ معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں ٹیلی کمیو نی کیشن ریگولیٹر دی کوریا کمیونی کیشن کمیشن نے سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر 39.6 کروڑ وان (قریب 369400 ڈالر) کا جرمانہ کیا ہے۔یہ جرمانہ صارفین کے لئے سروس کی دستیابی محدود کرنے کے معاملے میں لگایا گیا ہے۔ریگولیٹرنے بدھ کو کہا کہ فیس بک کو 17-2016کے دوران مواصلاتی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے جرمانے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔رپورٹ کے مطابق فیس بک اور انسٹاگرام نے صارفین کو ملنے والی سروس کو جان بوجھ کر محدود کیا تھا۔ ریگولیٹر نے ان الزامات کی تفتیش کی۔
فیس بک پر الزام تھا کہ اس نے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنےوالوں کے ساتھ نیٹ ورک استعمال فیس کو لےکر جاری بات چیت کے دوران متعلقہ کمپنی کے صارفین کے لئے سروس جان بوجھ کر آہستہ کر دی تھی۔فیس بک نے اس تعلق سے ابھی کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)