فیک نیوز:انڈیا ٹوڈے گروپ کے آج تک ٹی وی اور ریپبلک ٹی وی نے ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی خبر چلا دی کہ کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے عآپ کے بیس لیڈران کو نااہل قرار دیا ہے ۔’اہنسا کرانتی’ سے رابطہ قائم کرنے پر معلوم ہوا کہ مینک ساغر کو کسی مسلم نے نہیں مارا ہے بلکہ وہ سفر کے دوران ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکّر کا شکار ہو گئے تھے۔
عام آدمی پارٹی (عآپ) اپنی ابتدا سے ہی میڈیا اور عوام کی نظروں میں رہی ہے۔ اسکی کئی وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ اس پارٹی کی قیادت ، اسکے لیڈران کا بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرنا ، اسکے بعد دہلی میں 49 دن کی سرکار بنانا اس میں شامل ہے۔ عام آدمی پارٹی کا سرخیوں میں بنے رہنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پچھلے دنوں جب الیکشن کمیشن نے عآپ کے بیس (20)ایم ایل اے کو نا اہل قرار دیتےہوئے اپنا موقف سامنے رکھا تو میڈیا میں اس بات کی کافی چرچا ہوئی۔ بات ہائی کورٹ تک پہنچی۔ 23 مارچ کو ہائی کورٹ کا فیصلہ آنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا حکم صحیح ہے یا غلط اور اس فیصلے پر ملک کے میڈیا کی خاص نظر تھی ۔
جس دن فیصلہ آنا تھا اس دن کچھ میڈیا ادارے ہائی کورٹ سے بھی آگے نکل گئے ! انڈیا ٹوڈے گروپ کے آج تک ٹی وی اور ریپبلک ٹی وی نے ہائی کورٹ کے فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ہی خبر چلا دی کہ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے عآپ کے بیس لیڈران کو نااہل قرار دیا ہے ! ری پبلک ٹی وی نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ فیصلہ عاپ کے لئے بہت بری شکست ہے اور سبق بھی !
بقول الٹ نیوز ،آج تک ٹی وی چینل جب عآپ کے لیڈران پر پروگرام پیش کر رہا تھا تو اس وقت نیوز روم کے علاوہ انکے رپورٹر نے ہائی کورٹ سے لائیو رپورٹنگ کی تھی کہ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی تائید کی ہے ! آج تک رپورٹر کی یہ لائیو رپورٹنگ جھوٹ پر مبنی تھی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ انکی رپورٹنگ کے بر عکس ہے تو آج تک نے معافی مانگی۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ری پبلک ٹی وی اور انڈیا ٹی وی نے بھی کیا تھا۔ یہ سارے معاملات “بریکنگ نیوز” بنانے کی وجہ سے منظر عام پر آتے ہیں اور فیک نیوز کو فروغ دیتے ہیں۔
لیڈر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کو گمراہ نہ کرے اور اگر عوام کہیں ہمّت ہارتے ہوئے نظر آتے ہیں تو انکی ہمّت افزائی کریں ۔ جون 2014 میں خبر آئی تھی کہ تقریباً 40 ہندوستانی مزدور جو روزگار کی تلاش میں ہجرت کر کے عراق گئے تھے ان کو دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے اغوا کر لیا ہے ۔ جون 2014 سے اب مارچ 2018 تک حالات ایسے رہے کہ سشما سوراج کو خود کہنا پڑا کہ جو لوگ عراق میں قیدی بنائے گئے تھے، وہ اب زندہ نہیں ہیں !
سشما سوراج کا یہ بیان اور 2014 سے 18 تک حادثات کا یہ سلسلہ ہمیں فیک نیوز کا بڑا معاملہ نظر آتا ہے جہاں عوام کو مسلسل چار سال تک سرکار اور اس کے وزیر نے گمراہ کیا! جن لوگوں کو اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں نے قیدی بنا کر رکھا تھا ان میں سے ایک شخص خوش قسمتی سے فرار ہوکر ہندوستان واپس آگیا تھا۔ ہرجیت مسیح نامی اس شخص نے کئی بار میڈیا میں بیان بھی دیا تھا کہ سرکار جن لوگوں کے بارے میں یہ دعوے کر رہی ہے کہ وہ لوگ عراق میں زندہ ہیں، وہ دراصل ان کی آنکھوں کے سامنے مارے جا چکے ہیں ! لیکن سرکار نے مسیح کے بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ملک کو اندھیرے میں رکھا اور مارے گئے افراد کے اہل خانہ کو چار سال تک دھوکا دیا ! سشما سوراج نےراجیہ سبھا میں بھی اپنے موقف کا دفاع کیا تھا۔ اس معاملے پر مکمّل انکشاف الٹ نیوز پر یہاں پڑھا جا سکتا ہے !
بھگوا فکر کو فروغ دینے والی ویب سائٹ اپنے فرقہ پرست ایجنڈے کو پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ عام کر رہی ہیں۔ پوسٹ کارڈ نیوز نے گزشتہ ہفتے جین مذہب کے ایک مذہبی رہنما کی تصویر سوشل میڈیا میں عام کی اور دعویٰ کیا کہ یہ شخص جین مذہب کے سادھو ہیں جن کو مسلمان نوجوان نے بہت مارا ہے اور ان کے جسم پر زخم ہو گئے ہیں ! یہ خبر ہندوستان کی کرناٹک ریاست کی تھی۔ مہیش وکرم ہیگڈے پوسٹ کارڈ نیوز کے بانی مدیر ہیں اور انہوں نے اس فیک نیوز کو اپنے ٹوئٹر سے بھی عام کیا ! انکے علاوہ اس جھوٹی خبر کو ہزاروں کی تعداد میں لوگو نے فارورڈ کیا اور ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔دیپک شیٹی نامی شخص نے سب سے پہلے اسے اپنے فیس بک پر اپلوڈ کیا جہان 18 مارچ کو ہی اس کو 6 ہزار سے بھی زیادہ بار شئیر کیا جا چکا تھا !
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں پایا کہ تصویر میں جو مذہبی رہنما ہیں انکا نام مینک ساغر ہے۔ جینیوں کی میگزین ‘اہنسا کرانتی’ سے رابطہ قائم کرنے پر معلوم ہوا کہ مینک ساغر کو کسی مسلم نے نہیں مارا ہے بلکہ وہ سفر کے دوران ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکّر کا شکار ہو گئے تھے۔ اہنسا کرانتی کے ترجمان مکیش جین نے الٹ نیوز کو بتایا کہ مینک ساغر جی اب بہتر ہیں اور یہ واردات تقریباً ایک ماہ پرانی ہے۔
گزشتہ ہفتے فیس بک پر ڈیٹا چوری ہونے کی خبروں کے بعد فیس بک یوزرز میں فیس بک سیکورٹی کو لیکر کافی فکر مند دیکھا گیا اور اسی وقت ایک لفظ فیس بک پر عام ہو گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کا فیس بک اکاؤنٹ محفوظ ہے یا نہیں تو کسی کمنٹ میں BFF لکھئے۔ اگر آپکا لکھا ہواBFF لفظ سبز رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو یہ اس بات کی گواہی ہے کہ آپ کا اکاؤنٹ محفوظ ہے! جن لوگوں نے اس فیک نیوز کو عام کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ لفظ مارک زکربرگ نے ابھی ایجاد کیا ہے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ فیس بک پر موجود تمام یوزرز کو اس بات کا علم ہے کہ جب وہ کسی کو انگریزی، ہندی اور کسی دوسری زبان میں مبارکباد دیتے ہیں تو انکے لکھنے کے فوراً بعد ہی اسکرین پر خوبصورت منظر ظاہر ہوتا ہے اور ان کا لکھا ہوا مبارکباد کا لفظ سرخ رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ فیس بک نے ایسے انسانی احساسات کی ترجمانی کے لئے بہت سے الفاظ کو اس انداز میں پیش کرنے کا انتظام کیا ہے۔ BFF کا مطلب دراصل ‘بیسٹ فرینڈس فار ایور ‘ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس لفظ کا رنگ تبدیل ہو تا ہے۔ اس طرح کے تمام لفظ آپ یہا ں دیکھ سکتے ہیں اور اس بات کو پختہ طور پر تسلیم کر سکتے ہیں کہ مارک زکربرگ نے کوئی لفظ ایجاد نہیں کیا ہے!
Categories: خبریں