چاہے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات ہوں یا سفیروں کو ہراساں کرنے کےمعاملات۔ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
چند روز قبل دہلی کے ایک انتہائی پاش علاقہ چانکیہ پور ی میں نہرو پارک سے متصل روڑ پر خاصا جام لگا ہو اتھا۔ گو کہ دہلی میں ٹریفک کا اژدہام اس قدر ہے کہ سڑکوں پر جام لگنا عام بات ہے۔ مگر چونکہ یہ علاقہ وزیر اعظم ہاؤس ، ایر فورس اسٹیشن اور اعلیٰ افسران کی کالونیوں سے متصل ہے اس لئے گاڑیوں کا قطاروں میں کھڑا ہونا عجیب سا تھا۔جلد ہی معلوم ہوا کہ آگے ایک نیلے رنگ کی نمبر پلیٹ والی ڈپلومیٹک گاڑی کو چند افراد نے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ایک موٹر سائیکل سوار، سواریوں ، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کے سیل فون سے ویڈیو بنا رہا تھا۔ غور سے دیکھا تو نمبر پلیٹ سے معلوم ہوا کہ پاکستانی سفارت خانے کی گاڑی ہے۔ چند نامعلوم افراد نے اس کے آگے اور پیچھے کاریں کھڑی کرکے اور دونوں اطراف موٹر سائیکل سواروں نے اس کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ پیچھے دیگر گاڑیوں کی سواریاں بھی ان کی منتیں کررہی تھیں کہ یہ تماشہ بند کرکے جام کھلوا دیں۔
گزشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد میں مقیم ہندوستانی سفیر اور نئی دہلی میں ان کے ہم منصب میزبان ملکوں کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے ہراساں کرنے کی شکایات درج کروا رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پرمسلسل فائرنگ اور اب دارالحکومتوں میں سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کس حد تک کمیونیکیشن بریک ڈاون کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہندوستان کی طرف سے ابھی تک اس طرح کے 16واقعات درج کروائے گئے ہیں۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے بھی دو درجن واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو احتجاجی مراسلے یعنی NoteVerbaleبھی تھما دئے ہیں۔ پاکستان نے ایک قدم اور اٹھا کر اپنے ہائی کمشنرسہیل محمود کو صلاح و مشورہ کے لئے اسلام آباد بلایا جو سفارتی احتجاج کا ایک طریقہ اور وسیلہ ہے۔
مجھے یاد ہے کہ سوپور میں ہمار ے محلہ میں دو پڑوسیوں صد کاک اور لسہ کاک کی فیملی کے تعلقات اکثر خراب رہتے تھے۔دونوں ایک ہی مکان کے دو حصوں میں رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو چڑانے اور تنگ کرنے کی نیت سے گالی گلوچ کے علاوہ رات کے وقت ایک دوسرے کے دروازے سے کان لگاکر سن گن لینا، دروازہ پیٹنا، بجلی یا پانی کا مین سوئچ بند کرنا، سائیکل پنکچر کرنا، ایک دوسرے کے بچوں کو ڈانٹنا اور پیٹنا ان کا معمول تھا۔ پورا محلہ عاجز تھا۔ ستم ظریفی ہے کہ کچھ اسی طرح کے واقعات جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا کے دو پڑوسیوں کے درمیان پچھلے ایک ما ہ سے متواتر پیش آرہے ہیں۔ہندوستانی بیانیہ کے مطابق اس کی شروعات فروری میں اسلام آباد میں ہوئی جب ہندوستانی ہائی کمیشن نے ایک کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ یہ عمارت ہندوستانی سفارت کاروں اور ان کی فیملی کی رہائش کےلئے تعمیر کی جارہی ہے جو اب تک اسلام آباد کی مختلف کالونیوں میں بھاری کرایہ دے کر رہتے آئے ہیں۔اس عمارت کا نقشہ وغیرہ اسلام آباد کے حکام نے منظور کیا ہوا ہے۔ جب اس بلڈنگ کی تعمیر کا بجٹ نئی دہلی سے منظور ہوا تو ہائی کمیشن نے ایک ہندوستانی تعمیراتی کمپنی کو اس کا ٹھیکہ دیا۔ مگر اس کمپنی کے اہلکاروں کو پاکستان نے ویزا دینے سے انکار کیا۔
بعد میں ہندوستانی ہائی کمیشن نے پاکستان کی ہی کسی کمپنی کو عمارت بنانے کا ٹھیکہ دیا۔ مگر 16فروری کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر اس زیر تعمیر عمارت پر دھاوا بول کروہاں کام پر مامور مستریوں اور مزدورں کو حراست میں لیا۔ اس عمارت کا پانی اور بجلی کا عارضی کنکشن بھی معطل کر دیا۔ اگلے روز ہندوستانی ہائی کمشنر اجے بساریا نے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کرکے احتجاج درج کروایا۔ مگر ابھی تک ہندوستانی وزارت خارجہ کے بقول اس بلڈنگ کا پانی اور بجلی کا کنکشن بحال ہوا ہے نہ ہی اس کی تعمیر دوبارہ شروع ہوسکی ہے۔ ایک دہائی قبل پاکستانی ہائی کمیشن نے بھی اسی طرح کمیشن کے احاطے میں کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر کا خاکہ تیار کیا تھا تاکہ چین کے سفارت کاروں کی طرح سبھی پاکستانی ڈپلومیٹ دہلی کی مختلف کالونیوں میں رہنے کے بجائے ایک ساتھ ایک ہی جگہ سکونت اختیار کریں۔ دہلی میں صرف پاکستانی ہائی کمشنر کی تلک مارگ پرمستقل رہائش گاہ ہے، جو پاکستان ہاؤس کے نام سے موسوم ہے۔ یہ دراصل پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی پراپرٹی تھی جو انہوں نے حکومت پاکستان کو وقف کی تھی۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس کے ہائی کمشنر کو بھی کراچی کے آکسفورڈ لٹریری فیسٹول کے دوران ان کے جاننے والوں سے ملنے نہیں دیا گیا ۔ حتیٰ کہ ان کی فلیگ کار روک دی گئی جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ اسی دوران دہلی میں 7اور8مارچ کو پاکستان کے نائب ہائی کمشنر کے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے صبح سویرے ہراساں کیا گیا۔ کار کو روک کر نامعلوم افراد نے ڈرائیور اور ان بچوں کے ساتھ انتہائی بد تمیزی کے ساتھ گالی گلوچ کی۔اگلے دن نیوی ایڈوائز کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ پھر پولیٹکل کونسلر کو زبردستی گاڑی سے نکال کر دھمکیاں دی گئیں۔ 12مارچ کو ہندوستانی ٹیکنیشن جو ہائی کمیشن میں کام کرتے ہیں کو اندر جانے سے روک دیا گیا اور انہیں آئندہ پاکستانی ہائی کمیشن کے ساتھ کوئی بھی لین دین رکھنے سے منع کردیا گیا۔
مغربی ممالک کی دیکھادیکھی دو سال قبل ہندوستان نے بھی پاکستان کو عالمی برادری میں الگ تھلگ کرنے کی نیت سے اسلام آباد کو نان فیملی اسٹیشن قرار دے کرسفارت خانہ کے عملے کو اپنے اہل خانہ کو دہلی میں ہی رکھنے کی ہدایت دی تھی۔ پاکستانی سفارتی عملے کے لئے دہلی بدستور فیملی اسٹیشن ہے۔ چونکہ دونوں ممالک برابری اور معاملات میں ترکی بہ ترکی کے اصول پر کاربند رہتے آئے ہیں اس لئے شاید ہندوستانی اداروں میں گماں تھا کہ پاکستان بھی دہلی کو نان فیملی اسٹیشن ڈیکلیر کرے گا تاکہ ان کے سفارت کار بھی فیملی سے دور راہبانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں۔ میں نے جب ایک ہندوستانی افسر سے ان واقعات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو ان کا ٹکا سا جواب تھاکہ ہندوستان کے سفارت کار اسلام آباد میں اذیت میں مبتلا ہیں اور ان کے پاکستانی ہم منصب دہلی میں عیش کر رہے ہیں۔
چاہے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات ہوں یا سفیروں کو ہراساں کرنے کےمعاملات۔ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر ماضی میں مقامی کمانڈرں یا سفارت خانہ میں ہیڈ آف چانسری جو ہائی کمیشن کا منتظم ہوتا ہے اور وزارت خارجہ کے ڈپٹی یا جوائنٹ سیکرٹری کی سطح پر ان واقعات کا حل نکالا جاتا تھا۔ 1996سے قبل متواتر دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کی رہائش گاہوں پر لینڈ لائن فون ڈیڈ رکھنے کی شکایات درج ہوتی تھیں۔ ان دنوں کمیونیکیشن کا ذریعہ ہی لینڈ لائن فون ہوتا تھا۔ کئی سفارت کاروں کے گھروں پر پانی کی ترسیل بند ہوتی تھی۔ اس طرح کے واقعات ظاہر ہے اسلام آباد میں بھی پیش آتے ہوں گے۔
دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں مرحوم منور بھٹی جو ہیڈ آف چانسری کے عہدے پر فائز تھے، وزارت خارجہ کے کوریڈرو میں اکثر چکر لگاتے نظر آتے تھےکیونکہ کسی ڈپلومیٹ کے گھر کا پانی، کسی کا ٹیلیفون، کسی کا بجلی کا کنکشن بند ہوتا تھا۔ 1997میں اندر کمار گجرال کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس طرح کے واقعات بند کرنے کے باقاعدہ احکامات جاری ہوئے تھے۔ چونکہ گجرال خود فارن آفس اور پاکستانی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے وہ اس طرح کے واقعات اور ان کے مقاصد سے واقف تھے۔ بد قسمتی سے21 سال بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے ۔
سفارت کاروں کے علاوہ میڈیا کے افراد کو بھی دونوں ملکوں کی چپقلش کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ ابھی چند برس قبل تک دہلی میں پاکستانی نیوز ایجنسی ایسوسییٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) ، ریڈیو پاکستان اور جنگ کے نمائندے تعینات ہوتے تھے اس کے جواب میں اسلام آباد میں ہندوستانی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) اور اخبار دی ہندو کے نامہ نگار تعینات ہوتے تھے۔ ماضی میں ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز کے نمائندو ں نے بھی اسلام آباد میں ڈیوٹیاں دی ہیں۔ مگر ان کی کیا درگت ہوتی تھی، اس کا اندازہ 90 کی دہائی میں دہلی میں ریڈیو پاکستان کے نامہ نگار وسیم خالد کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا ورک ویزا ہر ماہ کی 30 تاریخ کو ختم ہوجاتا تھا۔ اس طرح مہینے کی 20تاریخ کے بعد وہ کام کاج چھوڑ کر ویزا کی مدت ایک اور ماہ بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتے تھے، جو چار پانچ دن کے بعد اکثر ہوہی جاتا تھا۔
آخر ایک دن 29تاریخ تک بھی ان کے ویزا کے معیاد بڑھانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ متعلقہ افسران نے چب سادھ لی تھی۔ ٹکا سا جواب تھا کہ اوپر سے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ اس لئے وہ بوریا بستر سمیٹ کر رکھیں۔ ان کا دہلی میں رزق ختم ہوگیا ہے۔ اب مسئلہ تھا کہ ان کو ساز و سامان ٹھکانے لگانے اور مکان کا کرایہ وغیرہ ادا کرنے اور مکان واپس مالک کو سپرد کرنے کے لئے دو، تین دن درکار تھے۔ اس راحت کے حصول کی خاطر جب وسیم صاحب، جنگ کے نمائندے عبد الوحید حسینی اور کئی دیگر ہندوستانی صحافی دوستوں کے ہمراہ دہلی پولیس کے ویزا ڈپا رٹمنٹ پہنچے تو وہاں موجود افسر نے پوری بات سننے کے بعد ٹھیٹھ ہریانوی لہجے میں وارننگ دی کہ ویزا کی مدت ختم ہونے کے ایک سیکنڈ بعد بھی اگر وسیم صاحب دہلی میں نظر آئے توان کا ٹھکانہ دہلی کا تہاڑ جیل ہوگا۔ مرتا کیا نہ کرتاکے مصداق اگلے دن کی ٹکٹ لیکر شام تک انہوں نے گھر کے ساز وسامان کو ٹھکانے لگایا۔ یار دوستوں کی چاندی تھی کسی کے حصہ میں فرج ، تو کسی کے حصہ میں ٹی وی، صوفہ سیٹ وغیرہ اونے پونے داموں بک رہے تھے۔ ان کی ایمبسڈر گاڑی مکان مالک نے 25ہزار میں خرید کر ان پر بڑا احسان کیا۔
اگلے روز صبح سویرے آل انڈیا ریڈیو نے وزارت خارجہ کے حوالے سے ان خبروں کی پر زور تردید کی کہ ریڈیو پاکستان کے نمائندے کو ملک چھوڑنے کا کوئی حکم جاری ہوا ہے۔ ویزا ڈیوزن والوں نے شاید گھر آکر وسیم صاحب کے پاسپورٹ پر معیاد بڑھانے کی مہر لگا دی۔ یہ پورا دن ان کا ٹکٹ کینسل کروانے اور یار دوستوں سے ساز و سامان واپس مانگنے میں گذرا، جن میں سے چند نے وسیع القلبی کا مظاہر ہ کرکے دے دیا، باقی نے دوستی کو سامان پر قربان کیا۔ اسی طرح اے پی پی کے باصلاحیت معمر صحافی جلیل احمد صاحب کا قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ نیشنل میڈیا سینٹر سے اسٹوری فائل کرتے ہوئے ان کے گھر سے فون آیا کہ پولیس آئی ہے اور ان کے صاحبزادے کو تلاش کر رہی ہے۔
جب انہوں نے فون پر پولیس انسپکٹر سے با ت کی تو معلوم ہوا کہ نیو فرینڈز کالونی کے پولیس اسٹیشن میں کسی نے ان کے صاحبزادے کے خلاف سائیکل چوری کی رپورٹ درج کروائی ہے۔ خیریت تھی کہ صاحبزادے گھر پر نہیں تھے اور ہدایت دی گئی کہ ان کو لیکر فوراً پولیس اسٹیشن پہنچ جائیں۔ کام و کاج چھوڑ کر چند صحافیوں کے ساتھ وہ وزارت خارجہ اور پھر دہلی پولیس کے اعلیٰ افسران کے پاس پہنچے، مگر کوئی داد رسی کی صورت نظر نہیں آئی۔ آخر ان کومعلوم ہوا کہ پولیس اسٹیشن جانے سے قبل پاکستانی ہائی کمیشن کو مطلع کیا جائے۔ سفارت خانے کے پریس منسٹر مفتی جمیل احمدکی معیت میں وفد ہائی کمشنر ریاض کھوکھر کے سامنے حاضر ہوا۔کھوکھر ا یسے مسائل کے غیر روایتی حل ڈھونڈنے میں ماہر تھے جو شاید منور بھٹی میں بھی حلول کر گئی تھی۔ انہوں نے پوری بات سننے کے بعد خود ہی سامنے رکھے فون سے کسی کا نمبر ڈائل کیا ۔ ہیلو اور دیگر آداب کے بعد فون کے دوسری طرف شخص کو بتایا کہ ابھی ابھی اسلام آباد میں دی ہندو کے نامہ نگار پی سوریہ نارائن نے بس میں سفر کرتے ہوئے کسی کی جیب کاٹی ہے اور اس کو حراست میں لیا جا رہا ہے اور فون رکھ دیا۔ لگتا تھا کہ کھوکھر نے معاملہ اور بگاڑ دیا ہے ۔ مگر گھنٹہ بھر بعد میڈیا سینٹر واپس پہنچ کر جلیل صاحب کو بتایا گیا کہ ان کے گھر سے کئی بار ان کے لئےفون آچکا ہے۔
معلوم ہوا کہ پولیس انسپکٹر دوبارہ ان کے گھر آیا تھا اور معذرت ظاہر کی کہ نادانستہ طور پر ان کے صاحبزادے کے نام پر شکایت درج ہوگئی تھی۔ ریڈیو پاکستان کے آخری نامہ نگار جاوید جدون کو بینک نے اکاونٹ کھولنے سے ہی منع کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی تنخواہ وغیرہ ان کو مل ہی نہیں پا رہی تھی۔ دیار غیر میں پیسوں کے بغیر گذارہ کرنا کتنی ذہنی کوفت کا باعث ہوتا ہے۔ اس طرح کے ان گنت واقعات ہیں۔ عبد الوحید حسینی، لیاقت طور، نعیم چودھری، غلام قادر بیگ اگر یہ کالم پڑھ رہے ہو تو درخواست ہے کہ دہلی کی اپنی یاداشتیں کتاب میں منتقل کریں، جس طرح پاکستان میں ڈیوٹیاں دے چکے ہندوستانی صحافیوں امیت بروا اور دیگر نے کی ہیں۔سافما سمیت کسی بھی میڈیا تنظیم کو کھبی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ان صحافیوں کی دادرسی کرتی۔پاکستان میں بھی ہندوستانی صحافیوں کے ساتھ کچھ اسی طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
فروری 2000میں اپنے کزن کی شادی کے سلسلے میں اسلام آباد آیا ہو ا تھا کہ میں نے دی ہندو کے اس وقت کے نامہ نگار مرلی دھر ریڈی کو فون کیا ۔ ان کی اہلیہ یونیورسٹی میں میری سینئر تھیں۔ دونوں میا ں بیوی نے دیار غیر میں خاصی پذیرائی کی اور کہا کہ پی ٹی آئی کے نمائندے جے ورما کے بیٹے کی سالگرہ ہے اور مجھے بھی اس میں شرکت کرنے کے لئےکہا۔ اپنے دیرینہ رفیق ارشاد محمود کے ساتھ ہم بھی ان کے قافلہ میں شریک ہو کر ورما کے گھر پہنچے۔ مجھے دیکھ کر وہ بھی خوش ہوگئے۔ وہاں ہندوستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر بھی آئے ہوئے تھے۔
خیر تقریب کے بعد جب ہم واپس جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار افراد نے راستہ روک کو سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ ریڈی کے گھرآنے سے قبل میں نوائے وقت دفتر گیا تھا اور ان کے اس وقت کے ایڈیٹر صاحب کا کارڈ میری جیب میں ہی تھا۔ میں نے وہی کارڈ ان کو تھماکر کہا کہ کسی وقت آفس میں آکر مل لینا۔ شاید اخبار کا رعب یا کچھ اور کہ انہوں نے ہمیں جانے کی اجازت دی۔خیر اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کی بچکانہ حرکتیں کسی بھی صورت میں جوہری طاقتوں کے شایان شان نہیں ہے۔ ہندوستاننے ویسے بھی ویزا کا حصول تقریباً ناممکن بنایا ہے، جس سے عوامی رابطہ معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔اجمیر کے زائرین ہوں یا دہلی میں وزارت تعلیم کی طرف سے منعقدہ عالمی اردو کانفرنس ۔ہندوستاننے پاکستانی زائرین اور اردو اسکالرز کو ویزا دینے سے انکار کردیا ہے۔ دونو ں ممالک کے دارالحکومتوں میں سفارت کاروں کے ساتھ اگر ایسے واقعات پیش آرہے ہوں ، ان سے ویزا دینے کا پاور چھینا گیا ہوا ور وہ کسمپرسی کا شکار ہوں تو عوام کی داد رسی کا فریضہ کس طرح انجام دے پائیں گے۔امید ہے کہ دونوں ممالک ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے کر معاملات کو سنجیدگی سے نمٹانے کی سعی کریں۔ موجودہ روش کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر