مرکزی حکومت پر عدالتی تقرریوں کو متاثر کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔گزشتہ کچھ سالوں میں ہوئی تقرری پر غور کریں تو ایسے کئی سنگین سوال کھڑے ہوتے ہیں جو مستقبل کی ایک خطرناک تصویر بناتے ہیں۔
12 جنوری 2018 کا دن ملک کی عدالتی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج ہو چکا ہے۔ یہی وہ دن تھا جب سپریم کورٹ کے پانچ سب سے سینئر ججوں میں سے چار نے ایک پریس بریفنگ کرکے ملک کے چیف جسٹس پر کئی سنگین الزام لگائے تھے۔انہوں نے بتایا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ یہ واقعہ بے مثال تھا اور اس نے عدالتی گڑبڑیوں کی طرف کھل کر اشارہ کیا تھا۔لیکن اس واقعہ سے ٹھیک دو دن پہلے بھی ہندوستانی عدالتی نظام میں کچھ تاریخی ہوا تھا۔ 10 جنوری 2018 کے دن سپریم کورٹ کالیجئم نے ایک اہم فیصلہ لیا تھا۔
یہ فیصلہ تھا دو لوگوں کو سپریم کورٹ میں بطور جج تقرری کرنے کا۔ ان میں سے ایک تھے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ایم جوسیف اور دوسری تھیں سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندو ملہوترا۔کالیجئم کا یہ فیصلہ تاریخی اس لئے تھا کیونکہ پہلی بار کسی خاتون وکیل کو براہ راست سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جا رہا تھا۔10جنوری کو لئے گئے اس فیصلے کو تقریباً تین مہینے ہونے کو ہے لیکن مرکزی حکومت نے اب تک ان تقرری کو زیر التوا ہی رکھا ہے۔ ان کو زیر التوا کیوں رکھا گیا ہے؟اس سوال کا جواب ٹٹولنے کی اگر کوشش کریں تو کچھ ایسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں جو عدلیہ کی آزادی پر منڈلا رہے سنگین بحران کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے کئی سینئر وکیل تو مرکزی حکومت پر یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ یہ حکومت صرف اپنے ‘ خیر خواہوں ‘ کو ہی سپریم کورٹ میں تقرر کرنے کی سازش کر رہی ہے۔بالکل یہی الزام اب سپریم کورٹ کے دوسرے سب سے سینئر جج جسٹس چیلمیشور نے بھی چیف جسٹس کو لکھے ایک حالیہ خط کے ذریعے لگائے ہیں۔یہ پہلی بار نہیں ہے جب مرکزی حکومت پر عدالتی تقرری کو اس طرح سے متاثر کرنے کے الزام لگ رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ہوئی تقرری پر اگر غور کریں تو ایسے کئی سنگین سوال کھڑے ہوتے ہیں جو مستقبل کی ایک خطرناک تصویر بناتے ہیں۔
اس کو سمجھنے کی شروعات جسٹس کے ایم جوسیف اور اندو ملہوترا کی تقرری کے حالیہ معاملے سے ہی کرتے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اس تقرری کے زیر التوا رہنے کی وجہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ایم جوسیف ہی ہیں جن کو مرکزی حکومت کسی بھی حال میں سپریم کورٹ آتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس کی وجہ اس فیصلے کو مانا جا رہا ہے جو جسٹس جوسیف نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں رہتے ہوئے سال 2016 میں دیا تھا۔ 2016 میں اتراکھنڈ کی سیاست میں زبردست زلزلہ آیا تھا۔اس وقت کی کانگریس حکومت کے کئی ایم ایل اے نے اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ریاست میں سیاسی افراتفری چل ہی رہی تھی کہ اس بیچ وزیر اعظم نریندرمودی نے دلی میں کابینہ کی ایک میٹنگ بلائی اور اتراکھنڈ میں صد ر کی حکومت نافذ کر دی گئی۔اس وقت کے وزیراعلیٰ ہریش راوت نے صدر حکومت نافذ کئے جانے کے اس فیصلے کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ یہاں کئی دنوں کی سماعت کے بعد چیف جسٹس کے ایم جوسیف نے مرکزی حکومت کو غلط پایا اور صدر حکومت کے حکم کو منسوخ کر دیا۔
انہوں نے مانا کہ مرکزی حکومت کے ذریعے اتراکھنڈ میں جبراً صدر حکومت نافذ کرنا بالکل غلط تھا اور حکومت نے اپنی طاقتوں کا غلط استعمال کیا ہے۔جسٹس جوسیف نے اپنے اس فیصلے میں مرکزی حکومت پر کئی سخت تنقید بھی کی جس کی وجہ سے حکومت کی کافی کرکری ہوئی۔ اس فیصلے سے بوکھلائی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ تک میں جسٹس جوسیف کے فیصلے کو چیلنج دیا لیکن یہاں بھی اس کو منھ کی ہی کھانی پڑی۔اسی فیصلے کو اب جسٹس جوسیف کی تقرری کی راہ میں رکاوٹ مانا جا رہا ہے۔ یہ امکان جتایا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت نے جان بوجھ کر ان کی تقرری کو اسی وجہ سے زیر التوا رکھا ہے۔ اس امکان کو ایک دوسری وجہ سےبھی طاقت مل رہی ہے۔
2016میں ہی سپریم کورٹ کالیجئم نےصحت کی وجہ سے جسٹس کے ایم جوسیف کا ٹرانسفر اتراکھنڈ سے آندھر پردیش ہائی کورٹ کرنے کی سفارش کی تھی۔ لیکن مرکزی حکومت نے ان کے ٹرانسفر تک پر اپنی منظوری نہیں دی اور اس کو زیر التوا ہی رہنے دیا جبکہ دیگر ججوں کے ٹرانسفر حکومت اس دوران لگاتار کرتی رہی۔جسٹس جوسیف سے پہلے مشہور وکیل گوپال سبرمنیم کی تقرری کے سبب بھی موجودہ مرکزی حکومت پر کئی سوال اٹھ چکے ہیں۔سال 2014 میں کالیجئم نے گوپال سبرمنیم کا نام بطور جج تقرر کئے جانے کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن حکومت نے ان کے نام پر اپنی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دراصل سہراب الدین شیخ فرضی تصادم کے معاملے میں گوپال سبرمنیم عدالت کے معاون رہ چکے تھے۔ اس معاملے میں بی جے پی صدر امت شاہ اہم ملزم تھے۔ گوپال سبرمنیم کی تقرری خارج کئے جانے کی وجہ ان کا اس مقدمہ سے جڑا ہونا ہی مانا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گوپال سبرمنیم کا نام خارج ہونے کے بعد یو یو للت کو سپریم کورٹ کا جج تقرر کیا گیا جو کہ سہراب الدین معاملے میں امت شاہ کے وکیل رہے تھے۔سپریم کورٹ کے جسٹس چیلمیشور نے بھی اب مرکزی حکومت پر کھلکر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ ججوں کی تقرری میں من مانی کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی چیف جسٹس اور دیگر 22 ججوں کو پانچ صفحات کا ایک لمبا خط لکھتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ‘ مرکزی حکومت کالیجئم کے مشوروں کو بےحد چنندہ اور من مانے طریقے سے منظورکر رہی ہے۔ تجویزکردہ جن ناموں سے حکومت مطمئن نہیں ہے، ان کی تقرری یا تو منسوخ کی جا رہی ہے یا اس کو زیر التوا چھوڑا جا رہا ہے۔ یہ عدالتی آزادی کے لئے بےحد خطرناک ہے۔
اپنے خط میں جسٹس چیلمیشور نے چیف جسٹس سے یہ بھی مانگ کی ہے کہ عدالتی تقرری میں مرکزی حکومت کی اس من مانی کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ کی ایک ‘ فل بنچ ‘ کی تشکیل کی جائے اور اس مدعا کی وہاں عدالتی سماعت کی جائے۔جسٹس چیلمیشور نے یہ حالیہ خط کرناٹک ہائی کورٹ میں ہونے والی ایک جج کی تقرری کی وجہ سے لکھا ہے۔ کرناٹک کے ایک ضلع اور سیشن جج پی کرشنا بھٹ کا نام کچھ وقت پہلے کالیجئم نے ہائی کورٹ میں تقرری کے لئے پیش کیا تھا۔ لیکن مرکزی حکومت نے اس پر اعتراض ظاہر کیااور کرشنا بھٹ کے خلاف کچھ الزامات کی جانچکے حکم دیتے ہوئے یہ تجویز لوٹا دی۔اس کے بعد کرناٹک کے اس وقت کے چیف جسٹس نے ان الزامات کی تفتیش کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کی۔ کمیٹی نے پایا کہ کرشنا بھٹ پر لگے الزامات بے بنیاد ہیں لہذا کالیجئم نے دوبارہ ان کا نام تقرری کے لئے مرکزی حکومت کو بھیج دیا۔
‘Second judges case‘کے مطابق اگر مرکزی حکومت کے ذریعے ٹھکرائے گئے کسی نام کو کالیجئم دوبارہ سے تقرری کے لئے بھیجتا ہے تو مرکزی حکومت اس کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہوتی ہے۔ لیکن کرشنا بھٹ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔بلکہ اس بار مرکزی حکومت نے سیدھے کرناٹک کے چیف جسٹس کو خط لکھتے ہوئے کرشنا بھٹ کے خلاف تفتیش کرنے کی مانگ کی۔ اسی سے ناراض ہوکر جسٹس چیلمیشور نے حالیہ خط لکھا ہے اور الزام لگائے ہیں کہ مرکزی حکومت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کو متاثر کرکے عدالتی آزادی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔عدالتی تقرری کے ان چنندہ مشہور معاملوں سے الگ اگر گزشتہ کچھ سالوں میں ہوئی تقرری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے توبھی ایک تشویشناک تصویر سامنے آتی ہے۔ لیکن ان اعداد و شمار پر گفتگو کرنے سے پہلے ججوں کی تقرری کے اس عمل کو جان لیتے ہیں جو اس حکومت کے آنے سے ہی لگاتار تنازعے سے گھری رہی ہے۔
مودی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لئے اپنائے جانے والے ‘ کالیجئم سسٹم’ کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کی جگہ مودی حکومت National Judicial Appointment Commission Actیعنی این جے اے سی بل لےکر آئی۔اس قانون کو حقیقی صورت دینے کے لئے آئین میں بھی ترمیم کی گئی۔ این جے اے سی کو صدر کی اجازت بھی مل چکی تھی لیکن اس نئے نظام کے تحت کوئی تقرری ہوتی اس سے پہلے ہی سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے این جے اے سی کو غیر آئینی قرار دے دیا۔اس فیصلے کے ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ آنے والے وقت میں بھی ججوں کی تقرری کالیجئم سسٹم کے تحت ہی ہوگی۔ لیکن سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ تقرری کے عمل کے لئے مرکزی حکومت اور کالیجئم آپسی رضامندی سے ایک ‘ میمورینڈم آف پروسیجر ‘ بھی تیار کرے۔
یہ فیصلہ اکتوبر 2015 میں آ چکا تھا۔ لیکن تب سے آج تک اس کو آخری شکل نہیں دی جا سکی ہے اور یہی حکومت اور عدلیہ کے درمیان تناتنی کا ایک بڑا مدعا بنا ہوا ہے۔سال 2016 میں مرکزی حکومت نے ‘ میمورینڈم آف پروسیجر ‘ کا ایک مسودہ کالیجئم کو بھیجی تھا۔ اس میں ایک اہتمام تھا کہ کالیجئم کے ذریعے تجویز کردہ کسی بھی نام کو حکومت ‘نیشنل سکیورٹی ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے خارج کر سکتی ہے۔اس اہتمام کو ماننے سے کالیجئم نے صاف انکار دیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی یہ بھی تجویز تھی کہ ججوں کی تقرری کے دوران ریاستوں میں ‘ایڈووکیٹ جنرل ‘ اور مرکز میں ‘ اٹارنی جنرل ‘ کا بھی اہم کردار ہو۔ اس اہتمام سے بھی کالیجئم کو اعتراض تھا۔ لہذا اس نے ایسے ‘ میمورینڈم آف پروسیجر ‘ کو منظور کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران کالیجئم نے ججوں کی تقرری اور ٹرانسفر کے لئے جو نام حکومت کو بھیجے، حکومت ان کو مسلسل نظر انداز ہی کرتی رہی۔ ملک کے موجودہ چیف جسٹس سے پہلے جو بھی لوگ اس عہدے پر رہے، انہوں نے حکومت کے اس رویے پر کھلکر بیان بھی دئے۔سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے تو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں ہی ایک پروگرام میں یہ بات کھلکر کہی کہ موجودہ حکومت ججوں کی تقرری پر صحیح سے کام نہیں کر رہی۔ ٹی ایس ٹھاکر کے بعد چیف جسٹس بنے جے ایس کھیہر نے بھی حکومت کے ایسے رویے کے متعلق اپنی ناراضگی صاف ظاہر کی۔مئی 2017 میں جسٹس کھیہر کی صدارت میں ‘ میمورینڈم آف پروسیجر ‘ کو بھی کالیجئم نے اپنی طرف سے آخری شکل دیتے ہوئے مرکزی حکومت کو بھیج دیا۔
اس میں مرکزی حکومت کے ذریعے لائے گئے ‘نیشنل سکیورٹی’ والے اہتمام کو بھی قبولکر لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی حکومت نے اب تک ‘ میمورینڈم آف پروسیجر ‘ کو اپنی اجازت نہیں دی ہے۔اب بات کرتے ہیں اس دوران ہوئی تقرری کے اعداد و شمار کی۔ کئی مہینوں تک کالیجئم کے مشوروں کو نظر انداز کرنے کے بعد 2016 کے آخر میں مرکزی حکومت نے ان مشوروں پر فیصلہ لیا۔کالیجئم نے کل 77 ججوں کے نام تقرری کے لئے دیے تھے۔ مرکزی حکومت نے ان میں سے محض 34 تجویزوں کو اپنی منظوری دی اور باقی 43 تجویزں کو خارج کر دیا۔ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا جب کالیجئم کی اتنی تجاویز ایک ساتھ خارج کر دی گئی ۔ عدالتی تقرری میں مرکزی حکومت کی ایسے دخل کو قانون کے کئی ماہرین اس لئے بےحد خطرناک مانتے ہیں کہ اگر ججوں کی تقرری حکومت کی ترجیحات اور پسند کے مطابق ہی ہونے لگی تو عدلیہ کا آزاد ہونا ناممکن ہو جائےگا۔
گزشتہ کچھ سالوں میں الگ الگ ہائی کورٹ میں سینکڑوں ججوں کی تقرری ہوئی بھی ہیں۔ لیکن کالیجئم کی کئی تجاویز کو مرکزی حکومت نے بڑی چالاکی سے زیر التوا ہی چھوڑ دیا ہے۔دراصل موجودہ نظام کے مطابق اگر مرکزی حکومت کالیجئم کی کسی تجویز کو ٹھکرا دیتی ہے اور کالیجئم اپنی وہی تجویز دوبارہ حکومت کے پاس بھیجتا ہے، تب حکومت اس کو ماننے کے لئے مجبور ہوتی ہے۔ اسی لئے جن تجاویز کو حکومت منظور نہیں کرنا چاہتی، ان کو خارج کرنے کی جگہ زیر التوا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جسٹس کے ایم جوسیف کی تقرری کی تجویز کو نہ تو حکومت نے اب تک منظور کی ہے اور نہ ہی اس کو خارج ہی کیا ہے۔
عموماً ایسی حالت میں چیف جسٹس حکومت پر دباؤ بناتے ہیں تاکہ حکومت جلد سے جلد کالیجئم کی تجاویز پر کوئی فیصلہ لے سکے۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس پر یہ الزام کئی بار لگ چکے ہیں کہ وہ نہ تو عدالتی تقرری کو لےکر اپنے سابقہ ججوں کی طرح حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ عدالتی آزادی کو لےکر ہی کبھی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔اس طرح کے الزام خود سپریم کورٹ کے سینئر ججوں نے ہی ان پر لگائے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے ہی حزب مخالف ان کے خلاف امپیچمنٹ موشن لانے کی بھی تیاری کر رہی ہے۔
یہی تمام وجہیں ہیں جن کی وجہ سے قانون کے کئی ماہرین موجودہ حالات کو بےحد تشویشناک مان رہے ہیں۔ یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ جسٹس جوسیف کی تقرری پر مرکزی حکومت آخرکار جو فیصلہ لےگی، اس سے ملک کے عدالتی مستقبل کی تصویر بھی صاف ہو جائےگی۔اتنے مباحث میں آنے کے بعد بھی اگر اس تقرری کو حکومت اپنی منظوری نہیں دیتی تو آنے والے وقت میں آزاد عدلیہ کی امید کرنا بھی بےایمانی ہی کہی جائےگی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں)
Categories: فکر و نظر