سعودی ولی عہد کا ماننا ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی ، ایران کواپنا دائرہ بڑھانے سے روکے گی اور واشنگٹن کو اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ شام کے مستقبل پر ہونے والے کسی بھی فیصلہ میں اس کی رائے ہوگی۔
امریکی صدر نے شام سے قبل از وقت امریکی افواج کوواپس بلانے کا من بنالیا ہے ، اس پلان سے واقف دو امریکی آفیسروں کے مطابق صدر نے اپنے مشیروں کو شام سے امریکی فوجیوں کےا نخلا کے بارے میں بتادیاہے، اس ہفتہ قومی سلامتی کی میٹنگ میں اس مسئلہ پر بات چیت ہوگی۔وال اسٹریٹ جرنل کے حوالہ سے کویت سے شائع ہونے والے روزنامہ “القبس” نے لکھا ہے کہ ابھی مشورہ اور بات چیت جاری ہے اور صدر کے مشیروں کا کہنا ہے کہ کم سے کم دوسالوں تک فوج کی ایک چھوٹی ٹکڑی کا رہنا ضروری ہے تاکہ شام کو ایرانی بیس (Base)بننے سے بچایا جاسکے۔
امریکی افواج کی شام سے واپسی کی خبر پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی افواج کو شام میں ابھی کچھ دن اور رہنا چاہیے اگر وہ لمبی مدت تک وہاں نہیں رہ سکتے ہیں ۔ سعودی ولی عہد کا ماننا ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی ، ایران کواپنا دائرہ بڑھانے سے روکے گی اور واشنگٹن کو اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ شام کے مستقبل پر ہونے والے کسی فیصلہ میں اس کی کوئی رائے ہوگی۔ یہ خبر “ٹائم میگزین” کے حوالہ سے روزنامہ “الشرق الاوسط ” نے شائع کی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے روس سے امریکی افواج کے واپس بلانے کے ارادہ نے سیاسی حلقوں کو بحث ومباحثہ کا ایک موضوع دے دیا ہے۔ روزنامہ “الحیاۃ” میں امریکی افواج کی واپسی اور اس کے بعد طوفان پر ایک مضمون شائع ہوا ہے، اسے حازم الامین نے لکھا ہے وہ کہتے ہیں” ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا کو ایک بار پھر سے حیرت میں مبتلا کردیا،ایسا کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا ،ایک طرف ایران کے ساتھ محاذآرائی اوردوسری طرف یہ قدم ؟ یہ تو پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔
اگر جلدی سے امریکی افواج کی واپسی پر عمل ہوگا ۔ تو اس سے کتنے ٹکراؤ جنم لیں گے ۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے اور علاقائی صف بندی نئے رنگ میں نظر آئے گی۔ اس انخلا کا مطلب شام میں ترکی اور کرد کا ٹکراؤ اور ایران اور اسرائیل کا ٹکراؤ یقینی ہے۔ امریکی افواج کی واپسی کا مطلب صرف روس ایک بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر رہ جائے گا۔ جنوبی شام میں اردن اور ایران آپس میں بھڑیں گے اور تل ابیب اور ماسکوسے اردن کی قربت بڑھے گی ۔یہ اقدام شام کو ایک ایسے جہنم میں بدل دے گا جو موجودہ صورت حال سے بد ترین ہوگا۔
روزنامہ “الرای” نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بشار الاسداقتدار میں برقرار رہیں گے لیکن ان کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ وہ تہران کے ہاتھوں کٹھ پتلی نہ بنیں۔ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کے حقوق کا مطالبہ کررہے وطن واپسی جلوس پر اسرائیلی فوج نے گولی چلائی، جس کے نتیجہ میں 17 فلسطینی شہید ہوگئے ، مصری روزنامہ “الاھرام ” کے مطابق اس اسرائیلی خون خرابہ کی عالمی برادری نے بڑے پیمانے پر مذمت کی اور سیکوریٹی کونسل کے ممبران نے تل ابیب کواس واقعہ کے لیے ذمہ دار قرار دیا۔
وطن واپسی مارچ میں 17 فلسطینیوں کی شہادت سے فلسطینیوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑگئی اور پورے فلسطینی علاقوں میں مکمل ہڑتال کیا گیا۔سارے اسکول ،یونیورسٹی، بینک اور سرکاری ادراے ان کی شہادت کے احتجاج میں بند رہے۔
متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار “الاتحاد” نے لبنان میں ہونے والے انتخاب پر رضوان السید کا ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں” پہلی مرتبہ لبنان کی انتخابی تاریخ میں سیاسی منشور کا فقدان ہے سوائے شیعہ خیمہ کے، حزب اللہ کے علاوہ تمام خیمے اور پارٹیاں مالدار افراد کو اپنا امیدوار بنارہے ہیں تاکہ پارٹی صدر فائدہ میں رہیں، انتخابات میں بطورامیدوار کھڑے ہونے والوں کے سامنے اس کے سوا کوئی واضح مقصد نظرنہیں آرہا ہے کہ کم از کم خرچ میں پارٹی فہرست میں کامیاب امیدوار کی تعداد زیادہ ہو، وہیں پر کچھ پارٹیاں اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ نقصان ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ اس کی ایک مثال یہ ہے ایک اسلامی پارٹی کا اتحاد ایک مسیحی اکثریت والی پارٹی آزاد قومی پارٹی( Free Patriotic Movement) سے چند انتخابی حلقوں میں ہورہا ہے۔ اسی طرح سے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کی پارٹی مختلف انتخابی حلقوں میں مختلف پارٹیوں سے اتحاد کررہی ہے،صرف حزب اللہ ہی ایسی پارٹی بن کر ابھری ہے جو کہ ماضی کے حریفوں سے اتحاد نہیں کررہی ہے اور اور پارٹی ممبران کے علاوہ دوسرے باہری افراد اس کے ٹکٹ پر الیکشن بھی نہیں لڑرہے ہیں۔
تین سال قبل 26 مارچ 2015 کو سعودی عربیہ کی قیادت میں عرب الائنس نے “عاصفۃ الحزم” نامی آپریشن یمن میں حوثیوں کے خلاف شروع کیا تھا ، اس آپریشن کا مقصد عبد ربہ منصور ہادی کی جائز حکومت کا تعاون، یمن میں سیاسی استحکام کی واپسی اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کا یمن پر گرفت مضبوط کرنے سے روکنا تھا جوکہ صنعا پر کنٹرول حاصل کرچکی تھی اور سعودی سرحد کے قریب عدن تک پہنچ چکی تھی۔
اس فوجی آپریشن پر مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے ماضی میں ردعمل ظاہر کیا ہے ا ور کررہے ہیں ۔یمنی باشندے بہت سے مسائل سے دوچار ہیں۔
خلیجی ممالک سے شائع ہونے والے اخبارات اس آپریشن کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ روزنامہ ” الشرق الاوسط” نے اس آپریشن کے تین سال مکمل ہونے پر ایک تجزیہ شائع کیا ہے۔ اخبار کے مطابق اس آپریشن کی وجہ سے اب تک 80 فیصدی یمنی علاقوں کو حوثیوں کی گرفت سے آزاد کرایا جاچکا ہے ، قومی فوج کا وجود عمل میں آچکا ہے ،حوثیوں کی ذریعہ یمن پر قبضہ کا ایرانی خواب چکنا چور ہوگیا اور یمن دوبارہ عربوں کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔
متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار الاتحاد نے یہ خبر دی ہے کہ براکہ نیوکلیر پاور پلانٹ سے تجربہ کے طورپر ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرکے متحدہ عرب امارات ،عرب ممالک میں نیوکلیر ٹکنالوجی کے ذریعہ بجلی پیداکرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ باقاعدہ طور پر اس پلانٹ نے کام کرنا نہیں شروع کیا ہے کیونکہ اس کےلیے لائسنس اور دیگر منظوریاں حاصل کرنا باقی ہے۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں