شرڈی انڈسٹریز کو این سی ایل ٹی سے ملے Revival Package، بالخصوص اس کو ملازمین کے بقایا پی ایف کوپانچ سات سال تک ٹالنے کی اجازت کیسے ملی، اس کی جانچ کی جانی چاہئے۔
جب آپ پبلک لائف میں ہوتے ہیں تب آپ کے کسی رشتہ دار کے کام کے لئے آپ اخلاقی طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وزیر ریل پیوش گوئل نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ ممبئی کی لون ڈفالٹر کمپنی شرڈی انڈسٹریز سے سال 2010 میں اس کے چیئر مین عہدے سے استعفیٰدینے کے بعد سے ان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔لیکن اس سے یہ حقیقت نہیں بدل جاتی کہ شرڈی کے پروموٹرس اور اس کی اصل کمپنی اسیس انڈسٹریز کے ذریعے گوئل کی بیوی سیما گوئل کی ایک کمپنی انٹرکان کو 1.5 کروڑ روپیے کا اَن سیکیورڈ لون دیا گیا تھا۔ یہ لون انٹرکان کا مالی سال 2016-17 تک کی فائلوں میں بقایا دکھتا ہے، جب پیوش گوئل این ڈی اے کابینہ کے ایک اہم ممبر بن چکے تھے۔
گوئل نے کہا ہے کہ ان کی کسی بھی وزارت کی شرڈی یا اسیس انڈسٹریز سے کسی بھی طرح کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن گوئل صاحب، مدعا یہ ہے بھی نہیں۔بات یہ ہے کہ سیما گوئل پر ایسے وقت میں ان کمپنیوں کا 1.5 کروڑ روپے بقایا ہے، جب ان کمپنیوں نے نہ صرف کئی بینکوں سے لیا 650 کروڑ روپے کا قرض نہیں چکائے ہیں، بلکہ کمپنی کے ملازمین کے پروویڈینٹ فنڈ (پی ایف) کے بھی 4 کروڑ روپے جمع نہیں کروائے ہیں۔
اصولی طور پر، اگر سیما گوئل کی کمپنی نے شرڈی کے دیوالیہ پروموٹرس کو یہ 1.5 کروڑ روپے کا لون چکا دیا ہوتا جس سے کم سے کم ملازمین کا بقایا پی ایف کا کچھ حصہ تو جمع ہوا ہوتا۔پی ایف کا حصہ نہ جمع کروانا جرم کے زمرہ میں آتا ہے۔ ساتھ ہی، جب کسی کمپنی کے دیوالیہ ہونے کی کارروائی شروع ہوتی ہے تب قرض دار سے بھی پہلے کمپنی کے بچے ہوئے اثاثہ پر ملازمین کا بقایا خاص کر پی ایف کا دعویٰ بنتا ہے۔یہ اصول ہرجگہ بالکل واضح ہے۔ کمپنی کو اس کے علاوہ حکومت کوٹیکس، سیلس ٹیکس وغیرہ بھی چکاناہوتا ہے۔ لیکن قانون کے مطابق جب کوئی کمپنی دیوالیہ ہوتی ہے تب پہلا دعویٰ پی ایف کا ہی بنتا ہے۔
حالانکہ گزشتہ دسمبر میں شرڈی انڈسٹریز نیشنل کمپنی لاء ٹریبونل (این سی ایل ٹی) سے یہ اجازت لینے میں کامیاب ہوئی کہ وہ اپنے ملازمین کا پی ایف سال 2022-2024 تک جمع کروا سکتی ہے۔یہ غیر متوقع ہے اور ایسا لگتا ہے کہ این سی ایل ٹی نے پی ایف کا بقایا چکانے کے لئے پانچ سے سات سال کا وقت دےکر ایک بڑی بھول کی ہے۔ اگر آج کوئی شرڈی انڈسٹریز سے ریٹائر ہو رہا ہے تو اس کو اس کا پی ایف دینے کے لئے 5 سال کا انتظارکرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔
اس معاملے میں گوئل فیملی کی حصے داری کے علاوہ شرڈی انڈسٹریز کے Revival Package جس پر شرڈی کے دین دار متفقہیں، پر دیے این سی ایل ٹی کے حکم پر بھی کئی بڑے سوال اٹھتے ہیں۔مودی حکومت کے ذریعے ایک بڑی اصلاح کی طرح دکھایا گیا انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (آئی بی سی) ملازمین کا بقایا پی ایف اور حکومت کو دئے جانے والے ٹیکس کے نہ چکائے جانے پر خاموش کیوں ہے؟ اس بات کی بھی جانچ کی جانی چاہئے کہ شرڈی انڈسٹریز کو این سی ایل ٹی کے ذریعے ایسا حکم کیسے ملا۔
سمنت بترا ملک میں دیوالیہ کارروائی کے ریگولیشن نو تشکیل شدہ انسولوینسی اینڈ بینکرپسی بورڈ آف انڈیا کے صلاح کار اور سینئر وکیل بھی ہیں، ان کے مطابق ‘ کمپنی پر آئینی ادائیگی کے بارے میں حکم دینے کے لئے این سی ایل ٹی کا دائرہ اختیار بہت واضح نہیں ہے۔ ‘میں نے کئی دیگر سینئر وکیلوں سے بھی بات کی، جنہوں نے بھی یہی بات دوہرائی۔ اس لئے یہ طے نہیں ہے کہ شرڈی کے Revival Package کا حل کرتے وقت کمپنی کا بقایا پی ایف کو ٹالنے کی طاقت این سی ایل ٹی کے پاس ہے بھی یا نہیں۔
آئی بی سی کوڈ سے جڑے کچھ اور مدعے بھی ہیں۔ یہ بہت جلدی میں لایا گیا تھا۔ اور یہ یقینی بنانے کے لئے کہ بینک کی ایک طےشدہ قرض معافی کے بعد ہو رہی دیوالیہ کارروائی میں ملزم پروموٹرس یا ان کے قریبی رشتہ دار یا معاون اپنی ہی کمپنی نہ خرید سکے، اس کے لئے نومبر، 2017 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی۔
سوچا یہ گیا تھا کہ وہی پروموٹرس جو ایک بار لون واپس کرنے میں ڈفالٹ کر چکے ہیں، ان کو کوئی دوسرا موقع نہ دیا جائے۔ لیکن شرڈی انڈسٹری کے معاملے میں اصولوں میں ڈھیل دی گئی اور بینکوں کے ذریعے 65 فیصدلون معاف کرنے کے بعد انہی پروموٹرس کو اپنی دیوالیہ کمپنی خریدنے کی اجازت دی گئی۔اس کی وجہ بتائی گئی کہ نومبر 2017 کے اصلی پروموٹرس کو اپنی دیوالیہ کمپنی کے لئے این سی ایل ٹی کی نیلامی میں بولی لگانے سے روکنے والی ترمیم سے پہلے ہی 99 فیصد بینکوں نے روائیولپیکیج پر اپنا اتفاق دے دیا تھا۔
اس پر بھی وکیلوں کا کہنا ہے کہ بینکروں کے درمیان ہوئے کسی سمجھوتہ کی بنیاد پر نومبر 2017 میں آئے قانون کو خارج نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ دیوالیہ کارروائی دسمبر 2017 میں ختم ہوئی جب تک یہ نئی ترمیم آ چکی تھی۔ یہ کچھ ایسے سوال ہیں، جو شرڈی انڈسٹریز کے Revival Package پر کھڑے ہوتے ہیں اور جن کا جواب دیا جانا باقی ہے۔
Categories: فکر و نظر