اگر لوک سبھا اسپیکر یا پریزائیڈنگ آفیسر کسی بہانے ایسے واجب عدم اعتماد کی تجویز پر عمل کرنے سے انکار کر دیں تو پھر پارلیامانی جمہوریت پر ٹکے ہمارے نظام پر کون بھروسا کرےگا؟
گزشتہ پارلیامنٹ سیشن کے دوران حزبِ اقتدار کی چانکیہ نیتی نے کیسے حزب مخالف کی عدم اعتماد تجویز کی ہوا نکالی، اس سے اکثریت اور اقلیت پر ٹکی ملک کی پارلیامانی جمہوریت کے لئے ایک بڑے خطرے کی گھنٹی بجتی دکھ رہی ہے۔ایک منٹ کے لئے بھی کوئی تسلی سے سوچے کہ اگر مستقبل میں حکومت میں اکثریت کھو چکی کوئی جماعت چاہے وہ کانگریس یا تیسرے مورچے کی ہی کوئی پارٹی کیوں نہ ہو، کے خلاف پارلیامنٹ یا اسمبلی میں آئین کے نظام کے حساب سے عدم اعتماد تجویز آنے پر کیا ہونا چاہیے۔اگر لوک سبھا اسپیکر یا پریسائڈنگ آفیسر کسی بہانے ایسے واجب عدم اعتمادکی تجویز پر عمل کرنے سے انکار کر دے تو پھر پارلیامانی جمہوریت پر ٹکے ہمارے نظام پر کون بھروسہ کرےگا۔ بلاشبہہ مودی حکومت کو لوک سبھا میں مکمل اکثریت ملی ہے۔
معاون این ڈی اے کے ممبروں کی تعداد تکنیکی طور پر 300 کے پار ہے۔ آئین کے ماہرین اس بات کو لےکر کشمکش میں ہیں یا بٹے ہوئے ہیں کہ ایوان کے اندر اس گتھی سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ اگر مودی حکومت کو پکا یقین ہے کہ اس کو اکثریت حاصل ہے تو ایمانداری سے عدم اعتماد کی تجویز کا سامنا کرنے میں اس کے اندر کس بات کا ڈر بیٹھا ہوا تھا۔لوک سبھا میں عدم اعتماد تجویز کا پیچیدہ مسئلہ،حزب اقتداراور حزب مخالف کے بیچ بھاری اٹھاپٹک کا فوکس اب پارلیامنٹ کے باہر سڑکوں پر ایک بڑی سیاسی سرگرمی میں تبدیل ہو گیا ہے۔
مرکز میں کسی حکومت کے خلاف مکمّل اکثریت ہونے کے باوجود وزیر اعظم کی قیادت والی مرکزی وزارت کے خلاف عدم اعتماد تجویز کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جواہرلال نہرو کے وزیراعظم رہتے ایسا ہوا ہے لیکن اس بار یہ جانتے ہوئے بھی کہ لوک سبھا میں مودی حکومت کو مکمّل اکثریت حاصل ہے تو اسپیکر کے ہاتھ کیوں بندھے رہے ہوںگے۔اس نکتہ پر جانکار گہری کشمکش میں ہیں کہ لوک سبھااسپیکر پر واقعی ایسا کون سا دباؤ تھا، جس کی وجہ سے ان کو اپنی غیر معمولی طاقتوں کا استعمال کرنے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔راجیہ سبھا کے سابق جنرل سکریٹری اور آئینی معاملوں کے جان کار ڈاکٹر وی کے اگنی ہوتری مانتے ہیں کہ اگر ایوان میں ہنگامہ یا بدانتظامی تھی تو تکنیکی طور پر لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کی یہ دلیل سمجھ میں آتی ہے کہ اس طرح کے حالات میں وہ عدم اعتماد تجویز پر گفتگو کرانے میں نااہل تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ہنگامہ اور مداخلت کرنے والے اے آئی اے ڈی ایم کے پارٹی کے رکن پارلیامان کی تعداد تین درجن کے قریب ہو تو ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں رکن پارلیامان پر معطلی کی کاروائی کی تجویز لانے کے لئے حکومت کو پہل کرنی چاہیے تھی۔ اتنے سخت قدم کے لئے اسپیکر پر منحصر رہنا غلط ہوگا۔واضح ہو کہ ایوان کےجاری عمل میں اسپیکر کی طاقتیں اتنی غیر معمولی ہوتی ہیں کہ ہنگامہ کرنے والے ممبروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے اسپیکر کو حکومت پر منحصر رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چھے مہینے پہلے لوک سبھا میں ہنگامہ کرنے والے آدھا درجن کانگریس رکن پارلیامان کو ایوان سے پانچ دن کے لئے معطل کرنے کے معاملے میں موجودہ لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن نے انہی طاقتوں کا استعمال کیا تھا۔ اس بار عدم اعتماد تجویز پر قریب دو ہفتے سے زیادہ دنوں تک پس و پیش کی حالت میں رہی۔
لوک سبھا سکریٹریٹ کے ذرائع کا ماننا ہے کہ لوک سبھا اسپیکر گزشتہ دو ہفتے سے عدم اعتماد تجویز کو نپٹانے کے راستے تلاش کرنے کو لےکر کافی دباؤ میں تھی۔ حالانکہ حکومت کے ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک اور تمام ریاستوں میں ایک ساتھ لوک سبھا اور اسمبلی انتخاب کرانے کے پیٹرن نافذ ہوئے تو خطرہ یہ ہے کہ پانچ سال تک کسی اقلیت میں آئی حکومت کو ٹس سے مس نہیں کیا جا سکےگا کیونکہ جو اس بار لوک سبھا میں بنیاد پڑ گئی، اس روایت کا حوالہ دےکر کوئی بھی حکومت یا اسپیکر اب پارلیامنٹ ہی نہیں اسمبلی میں بھی حزب مخالف جماعتوں کی آواز کو سست کر دےگا۔
لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری اور ملک کے جانے مانے آئین کےماہر ڈاکٹر سبھاش کشیپ مانتے ہیں کہ ایک ریاست کے مسئلہ کو لےکر اگر اس ریاست کی ایک پارٹی کے ایک سے زیادہ رکن پارلیامان کئی کئی دنوں تک جان بوجھ کر ایوان نہ چلنے دیں تو ایسی صورت میں لوک سبھا اسپیکر کو ان کو کم سے کم پانچ دن کی معینہ مدت کے لئے ایوان سے معطل کرنے کا پورا حق تھا۔ ان کو تعجب ہے کہ لوک سبھا اسپیکر نے کیوں اس بار اپنے اس حق کا استعمال نہیں کیا ہوگا۔
ڈاکٹر کشیپ یاد دلاتے ہیں کہ اس معاملے میں ہنگامہ کرنے والے حزب مخالف رکن پارلیامان کی تعداد کی اہمیت نہیں ہے۔ ان کو یاد ہے کہ راجیو گاندھی کے وزیر اعظم رہتے ٹھکّر کمیشن کے معاملے میں لوک سبھا میں ہنگامہ کرنے اور ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے قریب 70 رکن پارلیامان کی ایک ساتھ معطلی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپیکر کو ایوان سے ہی طاقتیں ملتی ہیں اور انہی طاقتوں اور حقوق کا استعمال ایوان کو خوبصورت طور پر چلانے کے لئے کام میں لانا ہرایک اسپیکر کی آئینی ذمہ داری ہے۔
اس پورے معاملے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوان کے کام کاج میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ممبروں کے خلاف کارروائی کا جو حق لوک سبھا اسپیکرکو ہے وہ راجیہ سبھا کے اسپیکر کو نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں مداخلت پیدا کرنے والے ممبروں پر کارروائی یا معطلی کے معاملے میں حکومت کی طرف سے تجویز آنا ضروری ہوتی ہے۔واضح ہو کہ راجیہ سبھا میں ڈپٹی چیئرمین پی جے کرین نے اس معاملے میں ایوان میں یہ انتظام بھی کیا تھا جب ٹی ڈی پی اور اے آئی اےڈی ایم کے رکن پارلیامان ایوان کو نہیں چلنے دے رہے تھے۔
واضح ہو کہ اس معاملے میں راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اصول الگ ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ لوک سبھا میں ہنگامہ کرنے والوں کو اسپیکر پانچ دنوں کے لئے خودہی معطل کرنے کے لئے اہل ہیں۔پارلیامنٹ کے ہنگامے اور عدم اعتماد تجویز پر عملکے معاملے میں حزبِ اقتدار کی طرف سے یہ بھی دلیلیں پیش کی جا رہی ہیں کہ حکومت اور حزب مخالف میں گہری کھائی پیدا ہونے کی وجہ سے یہ بھی خدشہ تھا کہ حزب مخالف بات چیت کے دوران حکومت پر خود تو الزام تراشی کرتا لیکن جب حکومت کی طرف سے وزیر اعظم کے جواب کی باری آتی تو وہ ہنگامہ شورشرابہ کر تے جس سے حکومت کی بات لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی۔
حالانکہ حزب مخالف پارٹیاں حزبِ اقتدار کی اس دلیل کو یہ کہتے ہوئے خارج کر رہی ہیں کہ این ڈی اے میں درار اور بی جے پی کے اندر بڑی تعداد میں دلت اور دوسرے غیراطمینان بخش رکن پارلیامان کی بڑھتی تعداد سے مودی حکومت کے سیاسی منتظمین نے خطرہ مول لینے کے بجائے عدم اعتماد تجویز سے کنی کاٹنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔
(مضمون نگار سینئرصحافی ہیں)
Categories: فکر و نظر