سندھ طاس آبی معاہدہ:حیرت ہے کہ اتنے اہم معاملے میں ہندوپاک خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہا؟ دونوں پڑوسی ملکوں کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدہ سے آگے بڑھ کر کوئی پائیدار میکانزم وضع کریں تاکہ دونوں طرف سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات سے بچا جاسکے۔
پاکستان اور ہندوستان کے مابین سیاسی مکالمہ تعطل کا شکار سہی، مگر پانی کے مسائل پر ایک سال بعد سندھ طاس مشترکہ کمیشن کی نئی دہلی میں حال ہی میں ہوئی میٹنگ ایک خوش آئند قدم ہے۔ مگر اس میٹنگ کے چند روز قبل ہی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے پاکستان کو پانی روکنے کی دھمکی دے کرفضا مکدر کر دی تھی۔ وزیر موصوف ہریانہ کے کسانوں کو پانی کی فراہمی کی یقین دہانی کروارہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اترا کھنڈ اور ہماچل پردیش میں جلد از جلد زیاد ہ سے زیادہ ڈیم بناکر راوی، بیاس اور ستلج دریاؤں کے پانی کو ہندوستان میں ہی زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے گا۔ ان دریاؤں سے 18600میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ فی الحال ان سے11406میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔ دو سال قبل ہندوستان نے اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے بعد پانی کی تقسیم کے معاملے پر خاصا جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دھمکی بھرے لہجے میں یہ تک کہا کہ ؛
پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔
سندھ طاس آبی معاہدہ، جو ماضی میں کئی جنگیں اور انتہائی کشیدگی جھیل چکا ہے، کی از سر نو تشریح کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ 1960میں طے پائے گئے اس معاہدہ کی رو سے ہندوستانی پنجاب سے بہنے والے دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج پر ہندوستان کا حق تسلیم کیا گیا، اور کشمیر سے بہنے والے دریا یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ضروریات کے لیے وقف کر دیے گئے‘ مگر آب پاشی اور ایسے پروجیکٹ جن سے ان دریاؤں کی روانی میں خلل نہ پڑے‘ کی اجازت اس معاہدہ میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
1950سے قبل پانی کے حصول کے حوالے پاکستان خاصا مالدار تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق فی کس 5260 کیوبک میٹر پانی پاکستان میں دستیاب تھا، جو 2013میں گھٹ کر فی کس 964کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2035تک محض 500کیوبک میٹر تک رہ جائیگا۔ یعنی صرف ایک صدی کے اندر ہی پانی کی دولت سے مالامال یہ ملک شدید آبی قلت کے زمرے میں آجائیگا۔ اسکی وجوہات آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، بغیر پلاننگ کے پانی کے وسائل کا بے دریغ استعمال، قلیل سرمایہ کاری، موجودہ ذخیروں تربیلا، منگلا اور چشمہ کے رکھ کھاؤمیں کوتاہی و سلٹنگ کے علاوہ ریاست جموں و کشمیر میں پانی کے منبعوں کے ناقص انتطام اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہے۔ وادی کشمیر کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس سال برف کی بس ایک ہلکی سی تہہ جمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ موسم سرما میں نارمل سطح سے نہایت ہی کم برفبار ی کا ہونا ہے۔ جو کشمیر کے نشیبی علاقوں بشمول پاکستان کے کسانوں کیلئے فکر مندی کا باعث ہونا چائیے۔ کشمیر کے ندی نالوں میں اس سال پانی کی سطح بہت ہی کم ہوچکی ہے۔
جموں و کشمیر کے محکمہ آبپاشی نے حال ہی میں باضابطہ ایک ایڈوائزری جاری کرکے شمالی کشمیر کے کسانوں کو خبر دی ہے کہ اس سال دھان کی کاشت کیلئے محکمہ پانی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ کسانوں کو ہدایت دی ہے کہ دھان کی جگہ کوئی اور متبادل فصل اگائیں۔ امید ہے کہ سندھ طاس کمیشن کی میٹنگ میں یہ ایڈوائزری پاکستان کی دی گئی ہوگی۔
محکمہ آبپاشی کے چیف انجینیر شہنواز احمد کے بقول دریائے جہلم میں پانی کی سطح ریکارڈ لیول تک گر چکی ہے۔ سرینگر کے پاس سنگم کے مقام پر جہاں دریا کی سطح اسوقت 6فٹ ہونی چاہئے تھی ،محض 1.4فٹ ہے۔ ضلع کپواڑہ کے ندی نالوں میں 10فیصد پانی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ وادی کشمیر میں آنے والے مہینوں میں خشک سالی کا پاکستان کے کسانوں پر اثر انداز ہونا لازمی ہے۔ویسے بھی پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کے منبعے یعنی کشمیر میں موجود پانی کے ذخائر پچھلے 60 سالوں میں خطرناک حد تک سکڑ چکے ہیں۔ سرینگر کے نواح میں بڑی نمبل، میر گنڈ، شالہ بوگ، ہوکر سر اور شمالی کشمیر میں حئی گام کے پانی کے ذخائر تو خشک ہو چکے ہیں۔ ان کے بیشتر حصوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ سوپور میں تحصیل کے پاس مسلم پیربوگ، جو شہر کے اندر پانی کی ایک جھیل تھی، پر اب شان و بان سے ساتھ ایک شاپنگ مال کھڑا ہے۔
کشمیر میں کوئی ایسا ندی نالا نہیں ہے، جس میں پچھلے 60 سالوں میں پانی کی مقدار کم نہ ہوئی ہو۔ چند سال قبل ایکشن ایڈ کی ایک سروے میں بتایا گیا کہ اکثر میں پانی کی سطح ایک تہائی رہ گئی ہے اور چند میں تو نصف ریکارڈ کی گئی۔ ان ندی، نالوں کا پانی ہی جہلم، سندھ اور چناب کو بہاؤ فراہم کراتا ہے۔ علاوہ ازیں سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشئروں کے پگھلنے کی رفتار بھی دنیا کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی سے ان پر سرکاری رازداری قانون کا اطلاق ہوتا ہے، جس سے ان پر تحقیق ہی محدود ہو جاتی ہے۔ چین کے علاقہ تبت، نیپال، ہندوستان کی شمال شرقی ریاستوں اور اترا کھنڈ نیز جموں و کشمیر، جو ہمالیائی خط میں آتے ہیں، میں ایک اندازہ کے مطابق 15000 گلیشئرز ہیں، جو دنیا کے عظیم دریائی سلسلوں، میکانگ، برہم پترا، گنگا اور سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے 3136 گلیشئرز کشمیر کے کوہساروں کی پناہ میں ہیں۔ ہندوستان میں دریائے گنگا اور اس کے گلیشئرز کو بچانے کے لیے ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔
دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ سندھ طاس گلیشئرز کی حفاظت کو نظر انداز کیا جاتا ہے، بلکہ مذہبی یاتراؤں کے نام پر ایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے ایک کھرب بیس ارب روپے بھی مختص کئے۔ 2008ء میں اتراکھنڈ صوبے کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے دریائے گنگا کے منبعے ہندوؤں کے مقدس استھان گومکھ گلیشئر کو بچانے کیلئے وہاں جانے پر سخت پابندیاں عائد کر دیں‘ جس کی رو سے اب ہر روز صرف 250 یاتری اور سیاح گومکھ کے درشن کر پاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہر سال روزانہ تقریباً 20 ہزار یاتری کشمیر میں سندھ طاس ندیوں کے منبعے کولاہی اور تھجواسن گلیشئرز کو روندتے ہیں۔
پچاس سال قبل چناب کے طاس کا تقریباً8000 مربع کلومیٹر کا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا تھا‘ وہ آج گھٹ کر صرف 4000 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پیرپنجال رینج میں تو شاید ہی کوئی گلیشئر باقی بچا ہے۔ اور تو اور اب بی جے پی حکومت ایک اور روایت قائم کرکے پیر پنچال کے پہاڑوں میں واقع کوثر ناگ کی یاترا کی بھی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔اور تو اور ایک گروہ تو آزاد کشمیر میں واقع شاردا کو بھی اس یاترا سرکٹ میں شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفا ف اور آلودگی سے پاک کوثر ناگ پانی کا چشمہ جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریائے ویشو اور ٹونگری کو پانی فراہم کرتا ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش کشمیری پنڈتوں کو آلہ کار بنا کر ہندو فرقہ پرست قوتوں نیز حکومت نے امرناتھ یاترا کی طرح کوثر ناگ یاترا چلانے کا اعلان کیا۔ 2005ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ہندوستان کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر امر ناتھ کے مقدس گپھا تک سونہ مرگ کے پاس بل تل کے راستے ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشئر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا‘ لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے حکومت آج زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔
نتیش سین گپتا کمیٹی نے 1996ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کو ایک ماہ تک محدود کرکے زائرین کی تعداد بھی ایک لاکھ تک محدود کی جائے، لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کر دی اور اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کر دیا۔ آئندہ برسوں میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ یاترا اب، ایک مذہبی سبھا کے بجائے ہندوتوا غلبے کا پرچم اٹھائے کشمیر میں وارد ہوتی ہے۔
کولہائی گلیشئر گیارہ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ تین عشروں میں یہ ڈھائی مربع کلومیٹر سکڑ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند عشروں کے بعد پوری طرح پگھل چکا ہو گا۔ امرناتھ گپھا اسی گلیشئر کی کوکھ میں واقع ہے۔ ایک اور حیرت ناک پہلو یہ بھی ہے، کہ پچھلے 30سالوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان وولر بیراج یا ٹولبل آبی پروجیکٹ کے حوالے سے بات چیت کے کئی دور ہوئے، مگر شاید ہی کبھی اس جھیل کی صحت پر غور و خوض ہوا ہے۔ سوپور اور بانڈی پورہ کے درمیان واقع کئی برس قبل تک یہ ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل تھی۔ پاکستان اور میدانی علاقو ں کے کسانوں کیلئے یہ ایک طرح کا واٹر بینک ہے۔
جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سرینگر اور اس کے اطراف کو سیراب کرکے دریائے جہلم پوری طرح وولر میں جذب ہو جاتا ہے۔ اور سوپور کے نواح میں ایک بار پھر سے تازہ دم ہو کر بارہ مولہ سے ہوتے ہوئے اوڑی کے پاس لائن آف کنٹرول پار کرتا ہے۔ ہندوستانی حکومت کی ویٹ لینڈ ڈائریکٹری میں اس جھیل کی پیمائش189 مربع کلومیٹر درج ہے‘ جبکہ سروے آف انڈیا کے نقشے میں اس کا رقبہ58.7 مربع کلومیٹر دکھایا گیا ہے۔ کشمیر کے مالی ریکارڈ میں اس کی پیمائش 130مربع کلومیٹر ہے، جس میں 60 مربع کلومیٹر پر اب نرسریاں یازرعی زمین ہے‘ مگر ایک سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کے بقول اس کا رقبہ اب صرف 24 مربع کلومیٹر تک محیط ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جھیل بڑی حد تک سکڑ گئی ہے۔
پانی اور ماحولیاتی بربادی کی زمینی تصویر اس کالم کے بیان سے بھی شاید زیادہ خوفناک اور تشویش کن ہو سکتی ہے۔ مگر اور بھی حیرت ناک صورت یہ حال ہے کہ دونوں ملکوں نے ابھی تک قدرتی وسائل کی حفاظت کی سمت میں بات چیت کو بھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ چار سال سال قبل کشمیر میں آئے سیلاب نے جگانے کیلئے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی۔ کہاوت ہے کہ پہاڑ کی جوانی اور ندیوں کی روانی وہاں کے مکینوں کے کام نہیں آتی، بلکہ اس کا فائدہ میدانوں میں رہنے والے کسانوں، کارخانوں کو ملتا ہے، اور ان کی ہی بدولت شہر اور بستیاں روشن ہوتی ہیں۔
اس لیے پہاڑوں میں رہنے والے وسائل کے محافظین کو ترقی میں حصہ دلانا لازمی ہے۔ دونوں ممالک سے بھی گزارش ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کیلئے مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔ کشمیر کے بعداس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے منصوبوں پر پڑنے والا ہے ۔ اس خطے میں بے گناہ لوگوں کے لئے دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہوسکتی ہے لیکن ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے میں انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔
اس لئے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی؟ دونوں پڑوسیوں کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدہ سے آگے بڑھ کر کوئی پائیدار میکانزم وضع کریں تاکہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والوں کو سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات سے بچایا جاسکے۔ جبکہ اس وقت ما حولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت جیسے امور بین الاقوامی سفارتی گفت وشنید کا لازمی جز بن چکے ہیں، انتہائی پڑوسی ملک ہونے اور مشترک قدرتی وسائل کے باوجود ہندوستان اور پاکستان ابھی تک اس اہم مسئلہ کو باہمی تعلقات کا حصہ نہیں بنا پائے۔
Categories: فکر و نظر