ہندوستان کے الیکشن کمشنر کو ایک تھینک یو نوٹ جلدہی مارک زکربرگ کو بھیج دینا چاہئے کیونکہ فیس بک تو اس کا پارٹنر ہے۔ جہاں دنیا کے ادارے الیکشن میں فیس بک کے سازشی کردار کو لےکر محتاط ہیں وہیں ہندوستان کا الیکشن کمیشن فیس بک سے قرارکر چکا ہے۔
ورلڈکے چیف الیکشن کمشنر مسٹر مارک زکربرگ جی نے احسان جتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیںگے کہ ہندوستان اور پاکستان میں آزاد اور غیر جانبدار الیکشن ہو۔ اس کے لئے سب کچھ کریںگے۔ مارک زکربرگ جی نے امریکی سینیٹ میں رکن پارلیامان کے سوالوں کے جواب میں یہ یقین دہانی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں میں نفرت پھیلانے والے عناصر کو ٹریک کرنا مشکل ہے۔ اسی لئے ہندوستان کے سوشل میڈیا میں ٹرولنگ اور غیر مناسب کٹینٹ کی کثرت رہتی ہے۔ زکربرگ جی کو امید ہے کہ پانچ سے دس سال میں وہ ایسا طریقہ تلاش کر لیںگے جس سے دوسری زبانوں کے الفاظ کے معنی و مفہوم کو پکڑا جا سکےگا۔
ہندوستان کے الیکشن کمشنر کو ایک تھینک یو نوٹ جلدی بھیج دینا چاہئے کیونکہ فیس بک تو اس کا پارٹنر ہے۔ جہاں دنیا کے ادارےالیکشن میں فیس بک کی سازشی کردار کو لےکر محتاط ہیں وہیں ہندوستان کا الیکشن کمیشن فیس بک سے قرارکر چکا ہے۔بہت کم لوگوں کو پتا ہوگا کہ 2016 اور 2017 میں کمیشن نے فیس بک سے قرار کیا تھا کہ وہ 18 سال کے ہو رہے اپنے یوزر کو یاد دلائےگا کہ ووٹر آئی کارڈ بنوانا ہے۔ ظاہر ہے کہ فیس بک نے اس کے لئے ڈیٹا بھی جمع کئے ہوںگے۔ امریکہ ہوتا تو کم سے کم وہاں کے میڈیا میں جان کار سوال اٹھا رہے ہوتے لیکن ہندوستان میں نہ میڈیا کا پتا ہے اور نہ جانکاروں کا۔ ہوںگے بھی تو میڈیا ان کو کچھ سمجھتا نہیں۔
آپ انٹرنیٹ پر اس بابت کئی رپورٹ پڑھ سکتے ہیں۔ تب فیس بک نے کہا تھا کہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے لئے وہ 13 زبانوں میں کام کرےگا۔ جبکہ امریکی پارلیامنٹ میں فیس بک کے زکربرگ نے بتایا کہ ان کے پاس انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کے مواد پکڑنے کے اوزار نہیں ہیں۔ دھندا کرنا ہوتا ہے تو زبان دقت نہیں ہے، نفرت کے مواد پکڑنا ہوتا ہے تو زبان دقت ہے۔ہمارے یہاں کیمبرج انالٹیکا کو لےکر تین نمبر کی سیاست ہوئی۔ آدھی ادھوری جانکاری والے اینکر اور کچھ نہیں جاننے والے بیوقوف ترجمان کو بٹھاکر نپٹا دیا گیا۔ امریکی کانگریس میں زکربرگ کو بلاکر سوال تو پوچھا یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر سوال بچکانہ تھا۔ وہاں لوگ لکھ رہے ہیں کہ رکن پارلیامان نے زکربرگ سے دودھ بھات والے سوال پوچھے۔
اس سے ہم نے سیکھا کہ امریکہ میں انتظام تو ہے مگر کوئی اپنے گلوبل کارپوریشن کو نقصان پہنچانے والا سوال نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تو اس انتظام کا بھی ایک حد کے بعد کچھ خاص مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ گارڈین میں جان گریس کی رپورٹ پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح رکن پارلیامان نے سوال پوچھنے کے نام پر خانہ پری کی ہے۔یوروپین کمیشن کے ریگولیشن کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے۔ ای یو اس بات کی جانچکر رہا ہے کہ سوشل میڈیا سے نفرت پھیلانے والی باتوں کو کیسے ہٹایا جائے۔ سخت قانون تو ایک متبادل ہے لیکن کیا کوئی دوسرا طریقہ بھی ہو سکتا ہے۔
ای سی کے صارف اور انصاف معاملوں کی کمشنر ویرا جورووا نے کہا ہے کہ وہ فیس بک کے چیف آپریٹنگ آفیسر سے بھی پوچھ تاچھ کرنے والی ہیں کیونکہ پچھلے ہفتہ کمپنی نے ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کی اسکیموں کو لےکر کچھ سوالوں کے جواب نہیں دئے تھے۔ہیٹ اسپیچ یعنی اشتعال انگیز اور نفرت پھیلانے والی باتوں کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے۔ زکربرگ نے امریکی سنیٹ میں کہا ہے کہ 2018 کے آخر تک 20000 لوگوں کی ٹیم بنائےگا تو ایسے کنٹینٹ کا تجزیہ کرےگا۔
میانمار اور سری لنکا میں نفرت پھیلانے والے پیغامات کو لےکر فیس بک پر کافی سوال اٹھ رہے ہیں۔ زکربرگ نے بھی مانا ہے کہ میانمار میں جو ہو رہا ہے وہ تکلیف دہ ہے۔ ہم برمی زبان کے جانکاروں کو نوکری پر رکھیںگے تاکہ ایسے کنٹینٹ پر نظر رکھی جا سکے۔جرمنی میں تو قانون بن گیا ہے کہ اگر آپ ہیٹ اسپیچ نہیں ہٹائیںگے تو کمپنی کو لاکھوں ڈالر کا فائن دینا ہوگا۔ مگر ای یو اس کے حق میں نہیں ہے۔ اس کی کمشنر جورووا کا کہنا ہے کہ اشتعال انگیز باتوں کو ہٹانے اور سینسرشپ میں بہت کم فرق ہے اس لئے جرمن قانون کو لےکر وہ بہت پرجوش نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک پر نفرت بھری باتیں بھر گئی ہیں، اس سبب انہوں نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ بند کر دیا ہے۔
ہندوستان کے وزیر آئی ٹی روی شنکر پرساد تو گبر سنگھ میں آ رہا ہوں ٹائپ کا بیان دےکر فارغ ہو گئے۔ فیس بک نے ایک خط بھیج دیا اور خوش ہو گئے سب۔ کیا ہندوستان کو بھی زکربرگ کو بلاکر سوال نہیں کرنا چاہئے تھا۔اس سے لوگوں میں بھی سمجھ بنتی اور ہیٹ اسپیچ کو لےکر بحث ہوتی۔ دقت یہ ہے کہ اقتدار کو پتا ہے کہ ہیٹ اسپیچ پھیلانے والا کون ہے۔ ثالثی کے طور میں فیس بک کے بھلے استعمال ہو رہا ہو مگر یہ نہیں بھی ہوتا تو ہاتھ میں تلوار، کلہاڑی لےکر دوسرے کمیونٹی کو دھمکانے اور نعرے لگانے سے کون روک سکتا ہے۔ وہ تو آج بھی فیس بک کے باہر جاری ہے۔
انڈین ایکسپریس کے پرنو مکل کی رپورٹ آپ پڑھ لیجئےگا۔ ہندوستان میں پیسے چکانے والے کئی ایپ ہیں۔ پے ٹی ایم، تیز، یو پی آئی پن، پھونپے، امیزون پر جیسے کئی ایپ ہیں جن کی شرطوں کو آپ پڑھے اور سمجھے بغیر تسلیم کر لیتے ہیں۔یہ لوگ آپ کا ڈیٹا جیسے بینک اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ، بیلینس، لین دین کا رکارڈ، ذاتی ڈیٹا، لوکیشن سمیت پاس ورڈ تک تیسری پارٹی کے ساتھ شیئر کر دیتے ہیں۔امریکی رکن پارلیامان نے پوچھا کہ کیا عام لوگ آپ کی شرطوں کو سمجھ پاتے ہیں تب فیس بک کے زکربرگ نے کہا کہ عام لوگ نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ اس کا یہی حل ہے کہ کسی بھی ایپ کو پرسنل ڈیٹا جمع کرنے یا کسی کے ساتھ شیئرکرنے کی اجازت ہی نہ ہو۔ بات ختم۔
Categories: فکر و نظر