ڈاکٹر کفیل معاملہ :سیاسی اٹھا پٹک میں اپنے مفاد کے لیے کسی مسلمان کو اس کے مذہب کے نام پر دہشت گرد ثابت کرنا کتنا آسان ہے۔ آپ فلم کے ڈاکٹر انصاری ہوں یا گورکھپور والے سچ مچ کے ڈاکٹر کفیل… مذہب مذہب کھیلنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
کیاراجکمار سنتوشی کی فلم خاکیکے ڈاکٹر انصاری آپ کو یاد ہیں۔ڈاکٹر کفیل یاد ہیں …؟ وہ خبر تو یاد ہوگی کہ گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بچوں کی موت ہوگئی تھی ۔اسی معاملے میں بدنام ڈاکٹر کفیل کی بات کر رہی ہوں،جی دلچسپ بات یہ ہےکہ فلم کے ڈاکٹر اقبال انصاری اور بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ڈاکٹر کفیل کی کہانی میں سیاست،قانون،پولیس اورمیڈیا کا چہرہ ایک جیسا ہے،مکروہ…
فلم کی ابتدا میں انصاری دہشت گرد کے کردار میں نظر آتے ہیں،اوراگر آپ نے پوری فلم نہیں دیکھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ بھی ڈاکٹر انصاری کو دہشت گرد ہی مان بیٹھیں۔انجام تک پہنچنے کے لیے کہانی کے ساتھ چلنا پڑتا ہے لیکن ہماری’ گودی میڈیا’ گود میں بیٹھی ‘ہندو مسلمان’ کر رہی ہے۔خیرفلم کے کلائمکس میں پتہ چلتا ہے کہ انصاری دراصل ایک ایماندار ڈاکٹر تھےجنھوں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک غلط اور غیر قانونی کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اورانھیں پہنایا گیا دہشت گردی کا لباس اسی بات کی سزا تھی۔
اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرنے والوں کا انجام شاید یہی ہوتا ہے اسی لیے آج مجھے ڈاکٹر کفیل اور ڈاکٹر انصاری دونوں ایک ساتھ یاد آرہے ہیں۔اکشے کمار جو فلم میں پولیس افسر ہیں کے منھ سے آئی ایس آئی ایجنٹ اور غدار جیسے لفظ سن کر آخر کار ڈاکٹر انصاری کی خاموشی ٹوٹتی ہے ،وہ خاموشی جو پوری فلم میں کہیں نہیں ٹوٹی تھی۔ اس خاموشی کو ڈیفائن کرتے ہوئے انصاری کا وہ ڈائیلاگ بھی کوٹ کیے جانے لائق ہے کہ آخر وہ کس کے سامنے بولتے ؟
’کیا بولتا میں اور کس سے بولتااس پولیس سے جنہوں نے خود میرے گھر پر ہتھیار چھپاکر مجھے پھنسا دیا ۔یا اس پریس سے جنھوں نے بنا سچائی جانے آتنک وادی ہونے کی سیاہی میرے منھ پر پوت دی ۔کس سے بولتا میں میرے بولنے سے کچھ نہیں ہونے والا میرا مرنا تو طے ہے۔‘
ڈاکٹر کفیل کے معاملے میں بھی کم و بیش ایسا ہی ہوا۔ میڈیا نے ان کو ولن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ کچھ ہی ادارے ایسے تھے جو فیکٹ کے ساتھ کفیل کے کام اور اس کی بے گناہی کوٹھیک ٹھیک عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔میڈیا میں’ کفیل ‘ کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا گیاجبکہ اسی معاملے میں کفیل کے ساتھ کئی دوسرے لوگ بھی گرفتار کیے گئے تھےلیکن میڈیا کی توجہ کا مرکزصرف کفیل رہے؟ کیوں…؟ یہ سوال اپنے آپ میں کافی اہم معلوم ہوتا ہے۔ آج یہ بات کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی اٹھا پٹک میں اپنے مفاد کے لیے کسی مسلمان کو اس کے مذہب کے نام پر دہشت گرد ثابت کرنا کتنا آسان ہے۔ آپ فلم کے ڈاکٹر انصاری ہوں یا گورکھپور والے سچ مچ کے ڈاکٹر کفیل… مذہب مذہب کھیلنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
انصاری کے آنسوؤں میں اس کی کہانی اسی کی زبانی سننی ہو تو فلم دیکھیے ،پھر شاید ڈاکٹر کفیل کی کہانی سے اس کی مماثلت سمجھ میں آئے ،ستااور کرسی کا کھیل بھی ۔ جہاں انتظامیہ سے لے کر خاکی تک سب گروی پڑے ہیں۔ فلم میں کچھ پولیس افسر ایسے بھی ہیں جو خاکی کا وقار برقرار رکھنے کے لیے اپنی جان کی پروانہیں کرتے ،ہو سکتا ہے ہمارے آس پاس بھی ہوں لیکن سسٹم ان کا شکار کیسے کرتی ہے یہ بھی اسی فلم میں دیکھ سکتے ہیں۔ فلم کے آخر میں سسٹم کے غنڈے یا یوں کہہ لیں سیاسی غنڈے، ڈاکٹر انصاری کو مارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ایماندار اور فرض شناس خاکی وردیاں ڈاکٹر انصاری کو صحیح سلامت کورٹ تک نہیں پہنچا پاتیں۔ یہ کہانی آپ فلم سمجھ کر بھول سکتے ہیں لیکن اس کہانی میں وہ چہرے بھی ہیں جن کو ڈاکٹر کفیل کی کہانی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔شاید یہی وہ مماثلت ہے جس کے خوف اور دکھ میں مجھے ڈاکٹر کفیل کی سونی آنکھیں بھی گیلی نظر آتی ہیں۔ ان کی خاموشی میں ڈاکٹر انصاری کا وہ ڈائیلاگ سنائی دیتا ہے۔
ان کے گھر والے بھی خاموش تھے لیکن اب وہ سامنے آئے ہیں اور بولنے کا جوکھم مول لے رہے ہیں۔کفیل کی بھابھی کو ہم شور میں سن نہیں رہے،وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے؛
‘سچ سب جانتے ہیں کہ کفیل بے قصور ہے لیکن انتظامیہ کے ڈر سے ہمارےحق میں کوئی نہیں بول سکتا۔‘
ڈاکٹر کفیل کی ضمانت عرضی کیوں نامنظور ہوئی ؟ ان کا جرم کیا ہے ؟ یہ سوال شاید اب غیر ضروری ہو گیا ہے اسی لیے ہماری میڈیا بھی خاموش ہےکہ اس کو جو کرنا تھا اس نے مہینوں پہلے ہی کر دیا۔خبریں اَپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں،لیکن میڈیا ہمیں یہ نہیں بتا رہا کہ ؛ کفیل کے وکیل نے نئی تاریخ دیے جانے کے متعلق جج کو لکھا،لیکن ابھی تک ضمانت عرضی کی شنوائی کے لیے کوئی نئی تاریخ نہیں دی گئی ۔ کیس کی شنوائی کے لیے جو تاریخ پہلے دی گئی تھی اس پر بھی شنوائی نہیں ہوئی ۔
ضمانت عرضی پر شنوائی کانہ ہونا کیا سوال کھڑےنہیں کرتا جبکہ اسی معاملے میں ہیڈآف ڈپارٹمنٹ اور کفیل سے سینئر دوسرے ڈاکٹرجو اس وقت انچارج تھے نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ان کے خلاف اب کوئی کیس بھی نہیں ہے۔
جی ہاں ،گورکھپور ٹریجڈی میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر کفیل، جنہوں نے اس وقت کئی بچوں کی جان بچائی تھی ،وہ تقریباً سات مہینے سے جیل میں ہیں،اور اسی معاملے میں ہاسپٹل میں آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی پشپا سیلس پرائیویٹ لمیٹیڈ کے مالک کو سپریم کورٹ نے ضمانت دے دی ہے۔جبکہ کمپنی پر مبینہ طور پرآکسیجن کی سپلائی بند کرنے کا الزام تھا۔سپریم کورٹ کی بنچ نے کمپنی کے مالک منیش بھنڈاری کی عرضی پر ریاستی حکومت سے ایک ہفتے کے اندر جواب بھی مانگا ۔لیکن ڈاکٹر کفیل اب بھی جیل میں ہیں اور کفیل کو ولن کی طرح پیش کرنے والا میڈیا خاموش ہے۔کوئی نہیں بتا رہا کہ کفیل کی ضمانت عرضی کورٹ نےگزشتہ 17 جنوری کو خارج کر دی تھی۔
یہ بات اب ہر کوئی جانتاہے کہ اگر ڈاکٹر کفیل نے اپنے طور پر کوششں نہ کی ہوتی تو مرنے والوں بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ۔ میڈیا نے ہی اس وقت بتا یا تھا کہ اس دن ڈاکٹر کفیل کی ڈیوٹی دوسرے وارڈ میں تھی لیکن پھر بھی بچوں کی جان بچانے کے لیے انھوں نے ہر ممکن کوشش کی،جہاں جہاں سے سلینڈر لا سکتے تھے لائے،رات بھر کام کیا ،ضرورت پڑنے پر اپنی جیب سے بھی پیسے خرچ کیے۔یہاں رک کر کفیل کے بھائی کی بات غور سے سنی جانی چاہیے جن کا بیان میڈیا کی کئی خبروں پر نہ صرف سوال اٹھاتا ہے بلکہ اس کہانی کے دوسرے رخ کوبھی سامنے لاتا ہے جو میڈیا میں نظر انداز کیا گیا اور مسلسل کیا جا رہا ہے۔
میڈیا بتا رہی تھی کہ کفیل میڈیکل کالج کے 100بیڈ والے اے ای ایس وارڈ کے نوڈل افسرتھے ۔پروسیکیو شن نے کورٹ میں بھی یہی بات کہی جبکہ کفیل کے بھائی عدیل نے دی ویک سے اپنی بات چیت میں کہا ہے کہ کفیل نیشنل ہیلتھ مشن کے نوڈل آفیسر اور Paediatrics departmentمیں لیکچرار تھے۔ان کے مطابق وارڈ کا نوڈل آفیسر کوئی اور تھاجو ڈپارٹمنٹ کاہیڈبھی تھا،وہ بھاگ گیا۔
عدیل کو سنیے پلیز؛
‘اس دن(10اگست)جب آکسیجن کی کمی ہوئی میرا بھائی چھٹی پر تھا لیکن جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ صرف 52 سلینڈر ہیں جو کہ ناکافی ہیں ،وہ سلینڈر کا انتظام کرنے میں جٹ گیا اور اگلے دو دنوں کے اندر اس نے 250 سلینڈر کا انتظام کیا۔’
ڈاکٹر کفیل کو 2ستمبر کو گرفتار کیاگیا تھا اور وہ آج بھی جیل میں ہیں۔ تقریباً7 مہینے بعدآئی ایم اے (انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن)نے اس سلسلے میں اپنی کئی مانگوں اور سوال کے ساتھ گزشتہ سوموار کو پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ اگر جیل میں بند ڈاکٹروں کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو وہ آندولن کرنے پر مجبور ہوگا۔ آئی ایم اے کے اس قدم کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے، لیکن یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ ‘انھیں اس بڑی سازش کی بو’ کو سونگھنے میں اتنا وقت کیوں لگ گیا؟
سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ جب پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے آج تک یہ قبول نہیں کیا کہ بچوں کی موت آکسیجن کی کمی سے ہوئی،توپھر سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر س جیل میں سزا کس جرم کی کاٹ رہے ہیں؟
यूपी के हेल्थ मिनिस्टर और CM दोनों दलील दे रहे हैं कि 'अगस्त में तो बच्चे मरते ही हैं!'
"बच्चों दुनिया छोड़ो…" ये है इनकी अगस्त क्रांति! pic.twitter.com/pYeTUf3xVF
— Umashankar Singh (@umashankarsingh) August 12, 2017
یوگی حکومت اور خود وزیر اعظم کی اس معاملے کو لے کر سنجیدگی دیکھنی ہو تو یہ بیان پڑھیے ،جس میں یوگی سمیت ،وزیر صحت اور وزیراعظم کی دلچسپی کچھ زیادہ ہی صاف طور پر نظر آتی ہے۔ریاست کے وزیر صحت کا بیان ہے کہ‘اگست میں بچےمرتےہی ہیں ۔’ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ‘اب لوگوں کے بچے بھی کیا سرکار پالے’ ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے بچوں کی موت کو قدرتی آفات سے جوڑتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی قدرتی آفات ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہیں۔اچھی بارش ملک کی خوشحالی میں بہت اہم رول ادا کرتی ہےلیکن کبھی کبھی کلائمٹ بدلنے کی وجہ سے یہی قدرتی آفات پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ملک کے بہت سے حصوں کو قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔کچھ دنوں پہلے ایک ہاسپٹل میں ہمارے معصوم بچوں کی موت ہو گئی۔مصیبت اور دکھ کے اس لمحے میں ملک کے 125 کروڑ لوگوں کی ہمدردی ان کے ساتھ ہے’۔
یہ ملک کے وزیر اعظم کا بیان ہے۔ بہت خوبصورتی سے انھوں نے معصوم بچوں کی موت کے معاملے میں حکومت کی لاپرواہی کو قدرتی آفات کے سپرد کر دیا۔ کہاں تو انھیں اس معاملے کی جانچ اور قصوروار لوگوں کو کڑی سزا دی جانے کی بات کہنی چاہیے تھی ،لیکن انھوں نے یوں ظاہر کیا جیسے یہ سب قدرتی آفات کی وجہ سے ہوا ہے۔
اپنے ہاسپٹل کے دورے میں یوگی آدتیہ ناتھ نے ڈاکٹر کفیل سے کیوں کہا تھا کہ
‘ تم سوچتے ہو باہر سے سلینڈر لاکر تم نے زندگی بچائی ہے اور تم ہیرو ہو،ہم دیکھ لیں گے،تمھیں سبق سکھائیں گے’۔
اس کے بعد ڈاکٹر کفیل کو معطل کر دیا گیا ۔شاید یہ اسی ‘will teach you a lesson’کا اثر تھا کہ ڈاکٹر کفیل نے نہ صرف اپنی نوکری کھوئی بلکہ سات مہینے سے جیل میں ہیں۔ ان کا قصور کیا تھا یہ اب تک میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔کیا انھیں اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں؟ شاید کفیل یہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ،ٹھیک اسی طرح جیسے خاکی فلم کا ڈاکٹر انصاری جانتا تھا ۔
کفیل کو ستمبر میں دو دوسرے ڈاکٹروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا ۔ شروع میں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی رکھے گئے تھے لیکن بعد میں ان کو جنرل کریمنل وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حال میں ان سے ملنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ ریاستی حکومت نے 9 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کی تھی جس میں ڈاکٹر کفیل کا نام بھی تھا،اس کےبعدایس ٹی ایف نے ان کو گرفتار کیا تھا۔ ان پرکئی الزام لگائے گئے تھے۔
دستاویزوں سے پتا چلتا ہے کہ ان پر آئی پی سی کی دفعات 409(سرکاری فنڈکے غبن) ،308 اور 120 بی کے چارج ہیں جو اگر ثابت ہوئے توعمر قید ہوسکتی ہے۔لیکن جانچ کے بعدکوئی ثبوت نہ ملنے پر بد عنوانی ،پرائیویٹ پریکٹس ،سیکشن 66 آئی ٹی ایکٹ اور آئی پی سی 420فراڈ کے چارج واپس لے لیےگئے ہیں۔کفیل کے گھر والے اب اگلی ضمانت عرضی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے قانون پر ان کا یقین کیا رنگ لاتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جیل میں کفیل کی خراب صحت کو نظر انداز کیا جانا بھی کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔
کفیل پر مختلف قسم کے الزامات لگنے کے بعد سے ہی ان کے گھر والے جس ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں ،اس کی بات تو جانے دیجیے، پولیس بھی انھیں پریشا ن کر رہی ہے۔ان کے گھر والوں کے مطابق لوگ انھیں آئی ایس آئی ایجنٹ ، چور اور پاکستانی جیسی گالیوں سے نواز رہے ہیں۔کیااس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ سیاست نے لوگوں کے ذہن میں جو مذہبی زہر گھولا ہے یہ اسی کی ایک مثال ہے۔اور کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ ڈاکٹر کفیل سیاست کا شکار ہوئے ہیں بلکہ اسے مذہبی سیاست کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا۔
آج کسی بھی طرح کا سوال کرنے والے کو ملک کا غدار اور اینٹی نیشنل کہا جا رہا ہے ۔ قانون ، عدلیہ ہر جگہ بد نظمی پھیلی ہوئی ہے،سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے بار بار سوال اٹھانے پر بھی حالات میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ ایسے میں ڈاکٹر کفیل کی پوزیشن کا اندازہ لگانا آسان نہیں جن کاسب سے بڑا قصور شاید ان کا کسی خاص مذہب سے جڑے ہونا ہے۔ وہ مذہب جو آج کل کسی کو غدار ثابت کرنے کے لیےنہ صرف کافی ہے بلکہ شاید پہلی وجہ بھی ہے۔یہ سب جانتے بوجھتے ایک اہم سوال کہ میڈیا توڈاکٹرکفیل کو جیل بھیج کرگہری نیند سو گئی،لیکن آپ کیا کر رہے ہیں…آپ اس معاملے پر کب بولیں گے ؛
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
Categories: فکر و نظر