خبریں

دیپک مشرا کو ہٹائے جانے کی تجویز کو نائب صدر نے کیا خارج ، کانگریس نے فیصلہ کو ٹھہرایا غلط

کانگریس کی قیادت میں سات اپوزیشن  جماعتوں کی طرف سے لائے گئے Impeachment کی تجویز کو خارج کرتے ہوئے نائب صدر وینکیا نائیڈو نے کہا کہ یہ سیاسی ہے۔

چیف جسٹس دیپک مشرا اور نائب صدر وینکیا نائیڈو۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

چیف جسٹس دیپک مشرا اور نائب صدر وینکیا نائیڈو۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف اپوزیشن کی سات پارٹیوں  کی طرف سے لائے گئے Impeachment کی تجویز کو سوموار کو نائب صدر وینکیا نائیڈو نے خارج کر دیا۔نوبھارت ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، نائب صدر نے Impeachment کی تجویز کو خارج کرنے کی وجہ  تکنیکی بنیاد کو بتایا ہے۔ اس کے علاوہ 20 پیج کے آرڈرمیں نائب صدر نے لکھا ہے کہ یہ سیاسی ہے۔خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق نائب صدر نے کہا، Impeachment تجویز کے انسلاکات کو دیکھنے اور آئینی ماہرین سے تفصیل سے بات چیت کے بعد میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ اس تجویز کا نوٹس نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی یہ اس لائق ہے۔

آرڈر میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن کے 71 رکن پارلیامان کے دستخط کئے گئے جن میں سات سابق رکن پارلیامان کے دستخط تھے۔ اس لئے تکنیکی بنیاد پر اس کو خارج کیا جاتا ہے۔واضح ہو کہ کانگریس کی قیادت میں حزب مخالف جماعتوں نے گزشتہ  20 اپریل کو نائب صدر وینکیا نائیڈو سے مل‌کر ہندوستان کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف Impeachment کی  نوٹس دی تھی۔مختلف سیاسی پارٹیوں  سے تقریباً 71 رکن پارلیامان نے چیف جسٹس کے خلاف Impeachment کا نوٹس دیا۔ Impeachment کے نوٹس پر دستخط کرنے والے رکن پارلیامان میں کانگریس، این سی پی، سی پی آئی (ایم)، سی پی آئی، سماجوادی پارٹی  اور بہوجن سماج پارٹی کے ممبر شامل تھے۔

اپوزیشن  نے ان پانچ الزامات پر مبنی تجویز پیش کی تھی؛

پہلا الزام پرساد ایجوکیشنل ٹرسٹ سے متعلق ہے۔ اس معاملے سے متعلق افرادوں کو غیر قانونی فائدہ دیا گیا۔ اس معاملے کو چیف جسٹس نے جس طرح سے دیکھا اس کو لےکر سوال ہے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ سی بی آئی نے ایف آئی آر درج کی ہے۔ اس معاملے میں ثالثوں کے درمیان ریکارڈ کی گئی بات چیت کی تفصیل بھی ہے۔تجویز کے مطابق اس معاملے میں سی بی آئی نے الہ آباد کی ہائی کورٹ کے جج جسٹس نارائن شکلا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت مانگی اور چیف جسٹس کے ساتھ ثبوت شیئر کئے۔ لیکن انہوں نے جانچ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حزب مخالف کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی  گہری تفتیش ہونی چاہئے۔

دوسرا الزام اس رٹ عرضی کو چیف جسٹس کے ذریعے دیکھے جانے کے انتظامی اور عدالتی پہلو کے تناظر میں ہے جو پرساد تعلیمی ٹرسٹ کے معاملے میں تفتیش کی مانگ کرتے ہوئے دائر کی گئی تھی۔کانگریس اور دوسری جماعتوں کا تیسرا الزام ہے کہ یہ روایت رہی ہے کہ جب چیف جسٹس آئینی بنچ میں ہوتے ہیں تو کسی معاملے کو سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ اس معاملے میں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔

تجویز میں حزب مخالف جماعتوں نے کہا کہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے وکیل رہتے ہوئے غلط حلف نامہ دےکر زمین لی اور 2012 میں عدالت سپریم کورٹ  میں جج بننے کے بعد انہوں نے زمین واپس کی، جبکہ مذکورہ زمین کا بٹوارہ سال 1985 میں ہی منسوخ کر دیا گیا تھا۔پانچواں الزام ہے کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں کچھ اہم اور حساس معاملوں کو مختلف بنچ کو مختص کرنے میں اپنے عہدے اور حقوق کا غلط استعمال کیا۔

دریں اثنا چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹانے جانے کی تجویز خارج ہونے کے بعد کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے ٹوئٹ کیا کہ یہ جمہوریت کو خارج کرنے والوں اورجمہوریت بچانے والوں کے بیچ کی لڑائی ہے۔واضح ہوکہ چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف Impeachment چلانے کے لیے دیے گئے نوٹس کو راجیہ سبھا کےچیئر مین اور نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو کے خارج کیے جانے کے بعد کانگریس نے کہا ہے کہ نائب صدرکو اس تجویز کی اچھائی برائی پر فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے نوٹس خارج ہونے کے بعداپنے کئی ٹوئٹ میں ناراضگی ظاہر کی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ ؛

انہوں نے کہا 64 رکن پارلیامان کے نوٹس دیے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر راجیہ سبھا میں ہاؤس کے لیڈر (وزیر خزانہ) نے راجیہ سبھا کے چیئر مین کے فیصلے پر ایک طرح سے لگ بھگ فیصلہ سنا دیا ۔انہوں نے تعصب میں اس کو Revenge Petitionبتایا۔

کانگریس کے علاوہ سینئر وکیل پرسانت بھوشن نے بھی وینکیا نائیڈو کے فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں ۔انہوں نے پوچھا کہ راجیہ سبھا کے چیئر مین وینکیا نائیڈو نے تجویز کس بنیا دپر خارج کی ۔اس پر راجیہ سبھا جے 64 ممبران کے دستخط تھے۔ ان کے پاس میرٹ کی بنیا د پر اس کو خارج کرنے کا اختیار نہیں ہے۔یہ اختیار تین ججوں کی جانچ کمیٹی کے پا س ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا سے انپٹ کے ساتھ)