کرناٹک کی بازی اگر ہاتھ سے چھوٹی تو اس سے پیدا ماحول سے راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی مشکل ریاستوں میں بی جے پی کے لئے اپنی حکومتیں بچا پانا مشکل ہوگا۔ اگر ریاستوں میں حکومتیں گرنے کا سلسلہ آگے بڑھا تو 2019 میں مودی اکیلے اپنے دم پر حالات کو بےقابو ہونے سے نہیں بچا پائیںگے۔
راہل گاندھی کے پارٹی صدر بننے کے بعد کانگریس کی سرگرمی اور تابڑ توڑ تیاریوں سے کمزور اور الگ تھلگ پڑی پارٹی مرکزی دھارے میں آنے کی بےشمار کوششوں میں ہے۔ اس کو حیدر آباد سے سکون دینے والی خبر ملی ہے کیونکہ سی پی ایم کی حال ہی میں منعقد پارٹی کی حالیہ کانگریس نے اس کو ایک دم اچھوت ماننے کا اپنے چھ ماہ پرانے اعلان پر ازسرنو غور کرکے اس کو کچھ راحت دے ڈالی۔دوسری طرف سیتارام یچوری کے پارٹی جنرل سکریٹری بنکر لوٹنے سے سی پی ایم کے انتہاپسندوں کی لائن کمزور پڑی ہے۔ کانگریس سکون کی سانس لے رہی ہوگی کہ حزب مخالف بیڑے میں سی پی ایم کی شمولیت ایک بڑی کھائی کو پاٹنے میں مدد بھی کرےگی اور یکجہتی کا کارواں آگے بڑھانے میں یچوری کا فعال کردار حزب مخالف کے کردار کو طاقتور بنائےگا۔
پارلیامنٹ میں گزشتہ ماہ عدم اعتماد کی تجویز کی مانگ ٹھکرائے جانے کی بھاری جدو جہد کے بعد حکومت کے ساتھ پیدا تصادم سے لےکر ابتک ملک کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف Impeachment تک حزب مخالف پارٹیوں کے ترکش میں کئی طرح کے تیر سج چکے ہیں۔راہل گاندھی اور ان کی پارٹی 29 اپریل کو رام لیلا میدان کی ریلی کے ذریعے کرناٹک انتخاب کی تشہیر کے درمیان پارٹی کے لئے ماحول بنانے اور شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں کانگریس کارکنان کو میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ رام لیلا میدان میں مشکل سے ایک لاکھ لوگوں کی جگہ ہے لیکن اس ریلی کی تیاریوں میں مصروف لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کے لئے بھیڑ جٹانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ 2019 کے انتظار کے پہلے ہی پارٹی کو پوری طرح انتخابی موڈ میں لا کھڑا کرنا ہے۔
مودی حکومت کے کام کاج پر ٹکٹکی نگاہ رکھنے والے کئی لوگ مانتے ہیں کہ کئی مورچوں پر مودی حکومت مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی۔ اقتصادی مورچے اور بینکنگ علاقے میں عوام کا صبر اس انتخابی سال میں ٹوٹنا اور بھی بڑی مشکلیں کھڑی کرنے جا رہا ہے۔بی جے پی اور سنگھ کے اندرونی حلقوں میں اس بات کو گہرائی سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ 2014 کے مقابلے میں مودی کا جادو اتر رہا ہے۔ کرناٹک کی بازی اگر ہاتھ سے چھوٹی تو اس سے پیدا ماحول سے راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی مشکل ریاستوں میں بی جے پی کے لئے اپنی حکومتیں بچا پانا مشکل ہوگا۔
اس سے کانگریس مکت بھارت کی بجائے بی جے پی کے ہاتھ سے ریاستوں میں حکومتیں گرنے کا سلسلہ آگے بڑھا تو 2019 کی شروعات آتے آتے مودی اکیلے اپنے دم پر حالات کو بےقابو ہونے سے نہیں بچا پائیںگے۔سب سے بڑی ریاست یوپی اور بہار میں بی جے پی کو گزشتہ لوک سبھا انتخابات کی اپنی تعداد برقرار رکھنا ابھی سے مشکل ہے کیونکہ حزب مخالف کی سیاست کے توازن پچھلی بار کے مقابلے میں اس بار بی جے پی کے لئے کوئی آسان کھیل نہیں رہا۔ دلتوں، اقلیتوں کے علاوہ شہری غریبی اور بھاری بےروزگاری اور کئی سماجی گروہوں میں عدم اطمینان کا خمیازہ بی جے پی پر بھاری پڑےگا۔
مودی حکومت کے لئے کرناٹک کےانتخابی نتیجوں کا کنیکشن سیدھے طور پر مغرب اور وسط ہندوستان کے مذکورہ تینوں ہی ریاستوں سے ہے۔ کچھ آگے بڑھے تو ان تینوں ریاستوں میں اگر اقتدار مخالف رجحان کی آندھی نے بی جے پی کو حکومتیں گنوانی پڑیں تو 2019 آتے ہی پارلیامانی انتخابات کے مشکل وقت کا پار کرنا مودی اور ان کی پارٹی کے لئے کانٹوں بھری کھائی بن سکتی ہے۔مانا جا رہا ہے کہ ایسے حالات کا مقابلہ کرنے سے پہلے مودی کوئی بڑا شارٹ کٹ تلاش کرنے میں زیادہ توجہ دیںگے۔ ایسے حالات میں وہ اہم ریاستوں کو گنواکر پارلیامانی انتخابات میں جانے کے وقت کو ہر حال میں ٹالنا چاہیںگے۔ یہ وہ داؤ ہوگا جس کے ذریعے مودی حکومت اسمبلی انتخابات کے ساتھ لوک سبھا کے عام انتخابات ملک میں ایک ساتھ انتخاب کرانے کا پیٹرن تیار کرنے کا بڑا موقع بھی دےگا۔
کانگریس کی حکمت عملی تیار کرنے والے مانتے ہیں کہ آئندہ 15 مئی کو دن میں جس وقت 224 سیٹوں والی کرناٹک اسمبلی کے انتخابات کے نتیجہ نکلیںگے انہی لمحوں مودی یہ بھی طے کر سکتے ہیں کہ 9-8مہینے بعد طےشدہ پروگرام کے مطابق لوک سبھا عام انتخابات کا انتظار کیا جائے یا نومبر میں ہی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے ساتھ ہی لوک سبھا کے عام انتخابات کے پروگرام کا اعلان ہوگا۔
واضح ہو کہ کانگریس نے ان تینوں ہی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات کی متوازی تیاریوں کا خاکہ کھینچتے ہوئے سیٹوں کے تجزیے کی مشینری کو پہلے ہی درست کر دیا ہے۔ کانگریس کو ڈر یہ ہے کہ ان تینوں ہی ریاستوں میں انتخابی حکمت عملی کے رخ کو گجرات انتخاب کے طرز پر مودی بنام راہل بناکر بی جے پی کی شطرنجی چالیں کانگریس کی جیت کو آخری لمحوں میں پلیتہ لگا سکتی ہیں۔ کانگریس نے ان تینوں ہی ریاستوں میں اسمبلی اور لوک سبھا کی ان سیٹوں کو پہلے سے ہی نشان زد کر لیا ہے جہاں اس کی ہار کا فرق ایک دم معمولی تھا۔
مارچ 18-17 کو دہلی میں راہل گاندھی کی تاج پوشی کے لئے منعقد کانگریس اجلاس کے بعد رام لیلا میدان کی ریلی ایک طرح سے پارلیامنٹ کی لڑائی کو ایک سدھے ہوئے انداز میں عوام کے درمیان لے جانے کی مہم کو آگے بڑھانا ہے۔ اس لئے جو اجلاس میں طے ہوا اس کو موٹے طور پر کارکنان کو انتخاب کے لئے مدعا بنانے کا سری گنیش ابھی سے کیا جا رہا ہے۔بی جے پی کو بخوبی پتا ہے کہ کانگریس ہی اپوزیشن کے درمیان ایک مرکزی محور بنکر آگے بڑھےگی۔ امیٹھی، رائے بریلی میں راہل اور سونیا کی جیت کو ناکام بنانا اس وقت بی جے پی کی سب سے بڑی کوشش ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ حزب مخالف کے ان دو اسٹار کیمپینر کو اگر ان کی سیٹوں پر ہی تھام لیا تو اس سے ملک میں انتخابی تشہیر کا وقت نکالنا ان کے لئے مشکل ہوگا۔
بی جے پی میں اندر سے باہر تک بےچینی اس لئے ہے کہ گزشتہ دو مہینے سے وقت مودی حکومت کا ساتھ نہیں دے رہا۔ ان کا ہر داؤ گلے پڑ رہا ہے۔ بی جے پی رہنماؤں کی الٹی سیدھی بیان بازیاں مودی کی مشکلیں اور بڑھا رہی ہیں۔ مودی نے پارٹی کے ایسے بیان بازوں کو آگاہ تو کیا ہے لیکن ابتک بہت دیر ہو چکی۔ کٹھوعہ اور اناؤ میں نابالغ لڑکیوں کے ریپ کے حادثات نے بی جے پی کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ آئینی اداروں میں آئے دن دخل اندازی اور ان کی پہچان اور عزت کو گرانے کے معاملوں میں مودی حکومت پر کئی بدنما داغ لگے ہیں۔
آئندہ 29 اپریل کو دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس کی ‘ سنودھان بچاؤ-دیش بچاؤ ‘ ریلی کی تیاریاں اس طرح سے پروان چڑھتی دکھ رہی ہیں گویا کہ لوک سبھا کے عام انتخابات کا ڈنکا بجنے والا ہے۔ دہلی میں گرودوارا رکاب گنج میں کانگریس کے وارروم میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔صوبہ کی تنظیم کی تیاریوں کا خاکہ اس طرح پروان چڑھ رہا ہے کہ اگر کرناٹک کے انتخابی نتیجوں کے بعد ملک میں باقی ریاستوں کے ساتھ ہی لوک سبھا بریک کر کےنئے انتخابات کی نوبت آ جائے تو انتخابی سال میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے یہ چیلنج ایک بڑی چٹان بنکر کھڑا ہے کہ کیسے حکومت کے چار سال کے دور میں بہ معنی نتائج نہ دے پانے کی وجہ سے ان کو عوام کے کام کا حساب دینا ہوگا۔
مودی حکومت کو عدم اطمینان اور وعدہ خلافی کا سب سے زیادہ غصہ ملک بھرکے کسانوں کی طرف سے جھیلنا پڑا ہے۔ کسانوں کو پیداوار کا ڈیڑھ گنا دام دینے، ان کی آمدنی دوگنی کرنے اور قرض معافی کا وعدہ دھڑام سے زمین پر گرا ہے۔ کسانوں کی حالت سدھارنے کے لئے ایم ایس سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ دھول پھانک رہی ہے اور فصل کی لاگت کا ڈیڑھ گنا تو دور اس کا آدھا بھی نہیں نصیب ہوا۔ قرض کا بوجھ اور خودکشیوں کا سلسلہ عام شرح سے آگے بڑھ رہا ہے۔
یوپی میں گزشتہ انتخابات سے پہلے قرض معافی تب مذاق بن گئی جب 50-25اور محض 500 روپے تک لوگوں کا قرض معاف کر کے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا۔ چھوٹی جوتکے کسانوں کا ہی کام بنا قرض لئے چلتا نہیں ہے اور لاگت پانے کے بھی لالےجب کسانوں کو پڑتے ہیں تو وہ قرض کی ادائیگی کے لئے اور بھی نئے قرضوں کے بوجھ سے دبتے چلے جانا ان کی تقدیر بن جاتی ہے۔ کسانوں کی دشواریاں یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یوپی سمیت کچھ ریاستوں میں چینی ملیں جب کسانوں سے گنا خرید تی ہیں تو سالوں سال ان کا بقایا ہی نہیں دیتی۔ گنا کسانوں کی مانگ ہے کہ جس دن حکومت بقائے پر سود کا اہتمام کروا دےگی تو مل منتظمین کے لئے کسانوں کا بقایا روکنا مہنگا سودا ہوگا۔ حکومتیں نہیں مان رہیں سو کسان عدالت میں جانے کو مجبور ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
Categories: فکر و نظر