کانگریس کے اس فیصلے نے پارٹی کے اندر ایک نظریہ کو جنم دیا ہے کہ کمل ناتھ اور دگوجئے سنگھ کے خیمے نے سندھیا خیمے پر ایک بڑی جیت حاصل کی ہے۔
مدھیہ پردیش کانگریس صدر کے عہدے پر جیوترادتیہ سندھیا کے بجائے کمل ناتھ کا تقرر ہونا چونکا دینے والی بات ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ کانگریس اعلیٰ کمان کے ذریعے سندھیا کو ہی ریاست کی کمان سونپی جائےگی۔سندھیا جوان ہیں، ان کی طرز بیان بھی اچھا ہے۔ وہ عمر سے بھی نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ لیکن، ریاستی صدر کا انتخاب کرتے وقت کانگریس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سندھیا خیمہ اور دگوجئے خیمہ ریاست کی سیاست میں کانگریس کے دو الگ الگ کیمپ ہیں۔
ان میں آپس میں تال میل نہیں ہے۔ یہاں کمل ناتھ کو آگے لاکر کانگریس نے ایک تھری وے پیٹرن تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف کمل ناتھ اور سندھیا ساتھ ساتھ ہیں۔ تو دوسری طرف کمل ناتھ اور دگوجئے سنگھ ساتھ ساتھ ہیں۔ اس طرح سے کانگریس کی انتخابی بساط بچھائی جا رہی ہے۔وہیں، لوگ اس پر تو گفتگو ہی نہیں کر رہے کہ چار قائم مقام صدر بھی بنائے گئے ہیں۔ جو کمل ناتھ سندھیا اور دگوجئے کے خاص ہیں اور اس میں کوئی ایس سی ہے تو ایس ٹی ہے، تو کوئی پچھڑے طبقے سے ہے۔ اس بنیاد پر ایک تال میل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ کمیونٹی اور علاقائی توازن بٹھانے کی ہی ایک ناکام کوشش کا حصہ ہے۔ بالا بچان کمل ناتھ کے خیمے کے ہیں، رام نواس راوت سندھیا خیمے کے ہیں، تو جیتو پٹواری ایک ابھرتے ہوئے نو جوان رہنما ہے جن کا پہلے دگوجئے سنگھ سے تعلق مانا جاتا تھا۔اسی طرح درج فہرست قبائل کے رہنما کے طور پر پہچان رکھنے والے سریندر چودھری کو بھی قائم مقام صدر بنایا گیا ہے۔ یہ علاقائی بنیاد پر ایک ہم آہنگی بنانے کی کوشش ہے۔ لیکن، کمل ناتھ اور سندھیا کے بڑے ناموں کی ہوا میں ان صدور کے کردار پر بہت گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔
وہیں، جو رہنما 9بار لوک سبھا کا ممبر رہا ہو، جو نہ اسمبلی ممبر ہے اور نہ اسمبلی کا انتخاب لڑ رہا ہے، اس کو ریاست کے صدر بناتے ہیں تو فطری طورپر تجسس ہوتا ہے کہ کیا وہ وزیراعلیٰ کا بھی دعوے دار ہوگا؟
کانگریس نے پنجاب میں امریندر سنگھ کا نام انتخاب سے ٹھیک پہلے وزیراعلیٰ کے طور پرپیش کیا، لیکن اسی روایت پر عمل مدھیہ پردیش میں نہیں ہو رہا ہے۔ کمل ناتھ کا نام وزیراعلیٰ کے طور پر نہیں پیش کیا گیا۔بلکہ اس کے بجائے کہا گیا کہ کمل ناتھ اور سندھیا ایک ساتھ کام کریںگے اور اس کے بعد جو انتخابی نتیجہ آئےگا، اس کو دیکھتے ہوئےوزیر اعلیٰ کا امیدوار چناجائے گا۔
یہاں یہ بھی کہنا ہوگا کہ کانگریس کے صلاح مشورہ اور آپسی گفتگو میں تھوی سی غلطی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے فیصلہ لینے میں اتنا سوچا جس سے میڈیا میں بھی بہت سی غلط فہمیاں پھیل گئی تھیں۔
ریاستی صدر کی تبدیلی یا اس عہدے پر کس کی تقرری ہوتی ہے اور وزیراعلیٰ کے چہرے کا انتخاب، دو الگ الگ چیز ہے۔ لیکن، فیصلے میں دیری نے کئی قسم کی ہواؤں کو جنم دیا۔پر لب لباب یہ ہے کہ اصل میں یہ فیصلہ لےکر کانگریس اعلیٰ کمان کے ذریعے ریاست میں پارٹی کے اندرونی انتشار کو قابو میں کرنے کی ایک ناکام کوشش کی گئی ہے۔
ناکام کوشش اس لئے کیونکہ اس فیصلے نے پارٹی کے اندر ایک سوچ کو جنم دیا ہے کہ کمل ناتھ اور دگوجئے سنگھ کے خیمے نے سندھیا خیمے پر ایک بڑی جیت حاصل کی ہے۔انتخابات سے چھے مہینے پہلے اس کو ایک سیاسی جماعت کے لحاظ سے مبارک اشارہ نہیں مانا جا سکتا۔ یہاں کانگریس کو شکست تو شیوراج سنگھ چوہان کو دینا تھا، لیکن شکست خوردہ جیوترادتیہ سندھیا ہو گئے۔
2013 میں بھی سندھیا نے ہی کیمپیننگ کی کمان سنبھالی تھی۔ سنبھالنے کا کام اصل میں کافی نہیں ہوتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ پنجاب ماڈل کی طرز پر کانگریس کو وزیراعلیٰ کے طور ر چہرہ پیش کرنا تھا، وہ حالت ہی پارٹی کے لئے زیادہ بہتر اور موثر ہوتی۔وہیں، کہا جاتا ہے کہ کسی رہنما کے ریاستی صدر کے عہدے پر تقرری اس کو وزیراعلیٰ کی دوڑ سے باہر کرنے کی پہلی کڑی ہوتی ہے۔ لیکن، مدھیہ پردیش کی سیاست اور ریاست کے نومنتخب صدر کمل ناتھ کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
مدھیہ پردیش میں حالات برعکس ہیں کہ جو رہنما نو بار لوک سبھا کا ممبر رہ چکا ہے، جو پارٹی میں اس وقت سب سے زیادہ سینئر رہنماؤں میں ہے، ملک کا رکن پارلیامان ہے، مرکزی وزیر بھی رہا ہے، کانگریس سے اسی کی دہائی سے جڑا ہوا ہے، اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی کے زمانے سے پارٹی کا حصہ ہے، تمام کانگریس صدور کے ساتھ اس نے کام کیا ہے، ایسے آدمی کو ریاستی صدر بناکر لایا گیا ہے۔
عام طورپر اس قد کے رہنما کا ریاست کی سیاست میں آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اگر کانگریس آئندہ انتخابات میں جیتتی ہے تو ریاست میں ان کا ایک بڑا کردار ہوگا۔ لیکن، یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ کانگریس ابھی بھی کمل ناتھ پر داؤ نہیں لگا رہی ہے اور اگر مگر کی بات ہو رہی ہے۔ابھی کہا جا رہا ہے کہ جب انتخاب ہوگا اور نتیجہ آئےگا، اس کے بعد ہی طے ہوگا کہ کون پانچ سال کے لئے ریاست میں کانگریس کا چہرہ ہوگا۔
پارٹی کی طرف سے صاف اشارہ ہے کہ ابھی سب اپنااپنا زور لگائیں۔ جیتنے پر کانگریس ہائی کمان ایم ایل اے جماعت کے رہنما کے نام پر فیصلہ کریںگے۔یہ ایک ادھوری ناکام کوشش کی طرح ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے سوچ سمجھ کرداؤ کھیلا ہے۔ جوکھم اٹھاکر جس طریقے کا انتخابی داؤ کھیلنا چاہئے تھا، انہوں نے وہ نہیں کھیلا ہے۔
جہاں تک پارٹی کے سابق ریاستی صدر ارون یادو کی بات ہے تو وہ بھی ریاست کی سیاست میں بڑا قد رکھتے ہیں اور پارٹی کے اندرونی خیمےبازی کا حصہ بھی ہیں۔ ان کی اہمیت اور کیا ان کا قد ریاست کی سیاست میں کم کرنے سے کانگریس کو نقصان ہوگا تو اس کے لئے ہمیں ریاست کی سیاست کے کمیونٹی کے حاصل جمع سمجھنا ہوگا۔اس حاصل جمع پر بات کریں تو مدھیہ پردیش میں پسماندہ کمیونٹی کے رائےدہندگان کی تعداد چالیس سے پینتالیس فیصدی کے قریب ہے۔ ارون یادو پچھڑے طبقے سے ہی آتے ہیں۔ لیکن، کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا موازنہ کریں تو کانگریس کی پالیسی پر سوال اٹھتے ہیں۔
کچھ وقت پہلے کی بات ہے، اندور میں ایک جگہ دیوار کے اوپر لکھا ہوا تھا، ‘ بی جے پی کے ممبر بنیے ‘، اس کو لوگ دو طریقے سے پڑھتے تھے۔ پہلا کہ بی جے پی کی رکنیت لےکر پارٹی کا حصہ بنیں اور دوسرا جو کہ کڑوا سچ ہے کہ بنیا کمیونٹی کے لوگ بی جے پی کے ہی ممبر ہوتے ہیں۔
اب یہاں دیکھیے کہ جو بنیاہیں ان کی ریاست میں بہت کم تعداد ہے باوجود اس کے بی جے پی نے ان کو اس طرح قابو کر رکھا ہے کہ وہ اس کی ہی طرف کھڑے دیکھے جاتے ہیں۔ تو دوسری طرف کانگریس 40-45 فیصدی پچھڑے طبقے کی بھی اہمیت نہیں سمجھ رہی ہے۔اس پس منظر میں دیکھیں تو کانگریس کو کمیونٹی کی بنیاد پر اس فیصلے سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔
وہیں، ایسا کہنا کہ ایک طرف کانگریس نوجوان قیادت کو آگے لانے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف 71 سال کے کمل ناتھ پر داؤ لگاکر اپنا نظریاتی تضاد ظاہر کرتی ہے۔ تو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ضروری نہیں ہے کہ جوان ہی تبدیلی لا سکتے ہیں۔اگر دیکھیں تو ہندوستانی سیاست میں جب مہاتما گاندھی منظرنامے میں آئے اور ملک میں اپنی تحریک شروع کی، تب ان کی عمر 50 سال سے اوپر تھی۔ اسی طرح، جئے پرکاش نارائن اندرا گاندھی کے خلاف ایک سیاسی انقلاب لائے تو وہ بھی 70 سال کے اوپر تھے۔
1989 میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے بوفورس گھوٹالہ میں راجیو گاندھی کے خلاف تال ٹھونکے تھے تب وہ بھی 65 سال کے قریب تھے، انا ہزارے جنہوں نے یوپی اے کو نقصان پہنچانے کا کام کیا وہ بھی 70-80 سال کی عمر کے ضعیف ہی تھے۔کانگریس کے اندر ہی دیکھ لیں تو جو ہوا کے خلاف جیتے، ان میں 2012 میں ویربھدر سنگھ تھے، ابھی 2017 میں امریندر سنگھ جیتے، دونوں ہی 70 سال کے اوپر ہیں۔اس لئے عمر اور سیاسی مہارت کا کوئی تال میل نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک فیشن ایبل بیان ہوتا ہے کہ ہم نوجوانوں کو آگے لائیںگے۔ ایسا بس کانوں کو سننے میں اچھا لگتا ہے۔
ورنہ، نوجوان تو ارون یادو بھی تھے، وہ کامیاب نہیں ہو پائے اور سچن پائلٹ بھی نوجوان ہی ہیں، پر راجستھان میں کامیاب ہیں۔ اس لئے یہ باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عمر کے لحاظ سے ریاستی صدر کا انتخاب ہونا تھا یا نہیں۔کل ملاکر راہل گاندھی نے زیادہ جوکھم نہ دکھاتے ہوئے جوکھم کو کم رکھنے والا فیصلہ لیا ہے۔ اگر وہ جوکھم اٹھاتے تو سندھیا کا انتخاب کرتے۔ لیکن سندھیا کا انتخاب نہ کرکے اس نام کا انتخاب کیا جس پر ساٹھ فیصدی کانگریسی متفق ہیں۔
یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ سندھیا کو الگ تھلگ کرنے اور اپنی راہ سے ہٹانے کے لئے وہ متفق ہو گئے۔ یہاں راہل کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے تھا کہ انتخاب کے وقت پارٹی کے کیا جذبات ہیں۔ان کو عوام کے جذبات پر فیصلہ لینا چاہئے تھا۔ پارٹی کے جذبات غیر ضروری ہوتے ہیں۔ عوام کے کیا جذبات ہیں، وہ اہمیت رکھتی ہیں۔وزیراعلیٰ کا چہرہ کون ہوگا، شیوراج بنام کمل ناتھ یا شیوراج بنام سندھیا، عوام کے لئے یہ اہمیت رکھتا، پارٹی کے اندر کے رہنما کیا چاہتے ہیں، وہ اہمیت نہیں رکھتا۔
پر کانگریس کا مسئلہ ہے کہ اس نے اپنے اندازے میں یہ مان لیا ہے کہ عوام میں شیوراج کو لےکر اتنا غصہ ہے کہ وہ شیوراج کے خلاف ووٹ دےگی، جس سے کانگریس آسانی سے جیت جائےگی۔
(رشید قدوائی سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ دیپک گوسوامی سے بات چیت پر مبنی)
Categories: فکر و نظر