مودی حکومت کے آنے کے بعد تعلیم کے میدان میں بہت احتیاط کے ساتھ اس نظریہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا ملک کے فطری مزاج کے ساتھ کوئی میل نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں قدیم شہر اجین میں منعقد ہوئے عالمی ویراٹ گروکل کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں بولتے ہوئے ملک کے ہیومن ریسورس منسٹر پرکاش جاویڈ کر اور ان کے معاون وزیر ستیہ پال سنگھ نے تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلی کے اشارے دئے ہیں اور تعلیم کو لےکر مودی حکومت کی متوقع اسکیموں کی جھلک پیش کی ہے۔
پرکاش جاویڈکر نے کہا کہ ، ‘ تعلیم کو بہ معنی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔گروکل اور جدید تعلیم کے بیچ تال میل بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔گروکل نظام تعلیم کو مناسب مقام دیا جائے گا۔اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ ان کی حکومت 11ویں اور 12ویں کلاس کے طالب علموں کے لئے ‘ بھارت بودھ ‘ پر ایک موضوع شروع کرنے کی اسکیم بنا رہی ہے جس کا مقصد طالب علموں کو قدیم ہندوستان کے ایسٹرونامی، سائنس اور ایروناٹکس وغیرہ میں شراکت کے بارے میں بتانا ہے۔
اس موقع پر جاویڈکر نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو ہندوستانیوں کے لئے واحد حوصلہ افزائی کا ذریعہ بتاتے ہوئے یہ بھی کہا ، ‘ ہم نئی تعلیمی پالیسی پر کام کر رہے ہیں اور اس کے لئے مشورے منگائے گئے ہیں۔ ایک مہینے میں ڈرافٹ تیار ہو جائےگا اور تین مہینے میں ہرکوئی پالیسی کو دیکھ سکےگا۔ ‘ اسی طرح ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کے وزیر مملکت ستیہ پال سنگھ نے کہا کہ کیا موجودہ تعلیمی نظام ہر شعبہ میں ترقی کر سکتی ہے، اس پر غور و فکر ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ گروکل تعلیمی نظام آج کے لیے معقول ہے۔ اگر ہم لوگ چاہتے ہیں کہ ملک میں اچھے شہری ہوں تو ہمیں ویدک تعلیمی نظام کی طرف آنا ہی ہوگا۔دونوں وزیر جس گروکل کانفرنس میں بول رہے تھے اس کا انعقاد 28 سے 30 اپریل کو بھارتیہ شکشن منڈل ناگ پور اور کلچرل منسٹری مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعے مشترکہ طور پر کیا گیا۔
اس کانفرنس کے سرپرست مرکزی انسانی وسائل کے وزیر پرکاش جاویڈکر تھے اور اس کا افتتاح سنگھ کے چیف موہن بھاگوت کے ذریعے کیا گیا۔ افتتاحی سیشن کے موقع پر پرکاش جاویڈکر ، ستیہ پال سنگھ، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے۔ اس کانفرنس میں تقریباً 3 ہزار سے زیادہ نمائندے شامل رہے جس میں 1000 سے زیادہ گروکل 50 سے زیادہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، ماہر تعلیم اور سنت شامل ہوئے۔ اس پروگرام کا مقصد ہندوستان کے احیا کے لئے گروکل کا منشور تیار کرنا اور اس امکان پر غور و فکر کرنا تھا کہ کیسے مین اسٹریم میں گروکل تعلیم کو شامل کیاجائے ۔
دراصل بھارتیہ شکشن منڈل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ تنظیم ہے جو تعلیم میں ‘ ہندوستانیت ‘ کو دوبارہ وقار بخشنے کے لئے کام کرتی ہے جس سے تعلیمی پالیسی، نصاب اور طریقہ تینوں ہندوستانی اقدار پر مبنی ہو سکے۔ ان کا ماننا ہے کہ جدید تعلیمی نظام سے سماج کا نقصان ہو رہا ہے اس لئے گروکل تعلیم کو ایک بار پھر سے مین اسٹریم میں قائم کرنا ہوگا جس سے میکالے پتر نہیں مہرشی پتر کی تعمیر ہو سکے۔ ظاہر ہے ‘ ویراٹ گروکل سمیلن ‘ نام کا یہ انعقاد تعلیم کو ایک خاص نظریہ سے جوڑنے کی اس عظیم کڑی کا حصہ ہے جس کی جڑیں پچھلے کچھ سالوں میں بہت گہری ہوتی گئی ہیں۔
ویسے تو کئی دہائیوں سے اس نظریہ کے لوگ ملک کے کئی صوبوں میں حکومتیں چلا رہے ہیں اور اپنے حساب سے نصاب میں تبدیلی بھی کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مرکز میں جب اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بی جے پی کی ملی جلی حکومت تھی، اس دوران اس وقت کے ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ منسٹر مرلی منوہر جوشی کے ذریعے بھی اس طرح کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن 2014 میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بھگوا خیمے کے لوگ اکثریت کے ساتھ مرکز کے اقتدار پر قابض ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سے تاریخ کو اپنے مطابق گڑھنے اور تاریخی حقیقتوں میں پھیر بدل کی کوششیں بہت تیز ہو گئی ہے۔ دراصل سنگھ پورے ہندوستان میں اسکول کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلاتا ہے اور اس کو اچھی طرح پتا ہے کہ کسی نظریہ کے ایجنڈے کو نافذ کرانے کے لئے تعلیم ایک اہم ہتھیار ہے۔
وہ اس ہتھیار کا استعمال پہلے بھی کرتا رہا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس اوزار کا استعمال کثیر جہتی طریقے سے کر رہا ہے، جس میں تعلیمی اداروں میں اپنے نظریہ سے جڑے ذہنیت والے لوگوں کا تسلط، نصاب میں تبدیلی تمام کچھ شامل ہے۔ بھگوا یجنڈا کوئی پردے کی بات نہیں رہ گیا ہے، یہ بہت صاف طور پر نظر آ رہا ہے کہ حکومت کی دلچسپی تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے تعلیمی اداروں میں اپنے ہندو مذہب کے ایجنڈے کو نافذ کرنا ہے۔ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے تعلیم کے بھگواکرن کی بات بہت کھلکر لیکن احتیاط کے ساتھ اعلان کیا جانے لگا ہے۔ نریندر مودی کے حلف کے بعد دیناناتھ بترا کا مشہور بیان آیا تھا، ‘ نریندر مودی جی سے ملاقات کرنے جا رہا ہوں۔ ہم نے پہلے سے ہی اپنی مانگ ان تک پہنچا دی ہے، سیاسی تبدیلی آ چکی ہے اور اب تعلیم میں مکمّل اصلاح ہونی چاہئے۔ ‘
2015 میں سنگھ کے ماؤتھ پیس ‘ آرگنائزر ‘ میں ‘ ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن ‘ نام سے شائع اداریہ میں ملک کی سماجی اور ثقافتی جڑوں کی بنیاد پر تعلیمی نظام کا ‘ بھارتیہ کرن ‘ کرنے کی وکالت کی گئی تھی۔ سال 2016 میں مرکزی انسانی وسائل ترقی کے وزیر مملکت رام شنکر کٹھیریا کا بیان آتا ہے، ‘ ہم دانشوروں اور رہنماؤں سے بات کرکے نئی تعلیمی پالیسی لا رہے ہیں، ملک کو جس طرح کی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے، ٹھیک ویسی ہی تعلیمی پالیسی ہم لا رہے ہیں۔ اور اگر ملک کے بھلائی کے لئے ضرورت پڑی تو تعلیم کا بھگواکرن بھی کیا جائےگا۔ ‘
اس کے بعد انسانی وسائل ترقی کے وزیر پرکاش جاویڈکر کی نئی تعلیمی پالیسی کو لےکر سنگھ کے سینئر اہلکاروں سے بند کمرے میں ملاقات کی خبریں آتی ہیں۔ اس اجلاس میں ودیا بھارتی، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد، راشٹریہ شیکشک مہاسنگھ، بھارتیہ شکشن منڈل، سنسکرت بھارتی، شکشا بچاؤ آندولن، وگیان بھارتی اور اتہاس سنکلن یوجنا کے نمائندوں کے ساتھ آر ایس ایس کے جوائنٹ سکریٹری کرشنو گوپال، اکھل بھارتیہ سمپرک صدر انیرودھ دیش پانڈے اور بی جے پی صدر امت شاہ شامل ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال سنگھ سے جڑے شکشا سنسکرتی اتھان نیاس نام کی تنظیم کے ذریعے اسکولی نصاب میں بڑی تبدیلی کی جو سفارشیں مرکزی حکومت کو بھیجی گئی ہیں اس میں ہندوستان کی تاریخ کو ایک روپ میں رنگنے کی مانگ کی گئی ہے۔
این سی ای آر ٹی کو جو مشورے دئے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ ‘ کتابوں میں انگریزی، عربی یا اردو کے لفظ نہ ہوں، مشہور پنجابی شاعر اوتار سنگھ پاشا کی نظم نہ ہو، غالب کی تخلیق یا ٹیگور کے خیالات نہ ہوں، ایم ایف حسین کی خودنوشت کے جزو ہٹائے جائیں، رام مندر تنازعہ اور بی جے پی کی ہندووادی سیاست کا ذکر نہ ہو، گجرات فسادات کی تفصیل ہٹائی جائے وغیرہ وغیرہ۔ ‘ اسی طرح سے مرکز اور بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے ذریعے نہ صرف بہت ہی ہوش مندانہ طریقے سے تاریخی شخصیتوں، واقعات، علامتوں اور تفصیلات کو اپنے حساب سے منتخب کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ چھیڑچھاڑ بھی کی جا رہی ہے۔ تاریخ کے ایک بڑے حصے پر جان بوجھ کر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی واحد پہچان کبھی نہیں رہی ہے لیکن پورا زور ہندوستان کی اسی کثیر جہتی صورت کو پوری طرح سے بدل ڈالنے کی ہے۔
سب سے زیادہ زور تاریخ بدلنے پر ہے، گزشتہ دنوں راجستھان بورڈ کی کتابوں میں ساورکر کو گاندھی سے بڑا ہیرو دکھانے اور راجستھان یونیورسٹی کی کتابوں میں حقیقتوں کے برعکس مہارانا پرتاپ کو ہلدی گھاٹی کی لڑائی کا فاتح بتانے کی خبریں سرخیاں بنیں۔ اسی طرح سے مہاراشٹر ایجوکیشن بورڈ نے 7ویں اور 9ویں کلاس کی تاریخ کی کتابوں میں ملک کے مسلم حکمرانوں سے جڑی حقیقتوں میں پھیر بدل کی بھی خبریں آئیں۔ اترپردیش میں بھی ‘ جنرل نالج مقابلہ 2017 ‘ کے تحت جو بک لیٹ جاری کی گئی تھی اس میں تاریخ کو توڑ مروڑکر پیش کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے ہندوتوا کی تشہیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سوال و جواب کے فارمیٹ میں تیار کی گئی اس بک لیٹ میں سوال اور جواب اس طرح کے تھے…
سوال : ہندوستان کو ہندو ملک کس نے کہا؟
جواب : ڈاکٹر کیشو ہیڈگیوار۔
سوال : رام جنم بھومی کہاں واقع ہے؟
جواب : ایودھیا۔
سوال : سوامی وویکا نند نے شکاگو میں کس مذہب کی نمائندگی کی؟
جواب : ہندو توا۔
سوال : مہاراج سہیل دیو نے کس مسلم حملہ آور کو گاجرمولی کی طرح کاٹ دیا تھا؟
جواب : سید سالار مسعود غازی۔
ان سوال اور جوابات کا سیدھا تعلق ہندوتوا کے ایجنڈے سے ہے۔
یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں بھی لوگوں کی تقرری ان کی قابلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ نظریاتی وابستگی کے حساب سے کی جا رہی ہے، آئی سی ایچ آر ، آئی سی ایس ایس آر (Indian Council of Social Science Research)، ، نیشنل بک ٹرسٹ جیسے اداروں اور حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، ایف ٹی آئی آئی، بنارس ہندو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، آئی آئی ایم سی جیسے اداروں میں سنگھ سے جڑے لوگوں کی تقرری ہو چکی ہیں۔ گجرات، مدھیہ پردیش اور راجستھان ان شروعاتی ریاستوں میں شامل ہیں جہاں تعلیم کے بھگواکرن کے پروجیکٹ کو بخوبی اپنایا گیا ہے۔ یہاں لمبے وقت سے بی جے پی کی حکومتیں رہی ہیں۔ ان ریاستوں کو سنگھ کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی تجربہ گاہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
گجرات کی زمین اس طرح کے تجربوں کے لئے کافی مشہور رہی ہے۔ یہ گجرات ہی ہے جہاں دیناناتھ بترا کا ادارہ ‘ شکشا سنسکرتی اتھان نیاس ‘ کے ذریعے تیار کتابیں نصاب میں شامل کی گئی تھیں۔ Gujarat State School Textbook Boardکے ذریعے مارچ 2014 میں دیناناتھ بترا کے ذریعے لکھی 8 کتابوں کی اشاعت کی گئی تھی اور گجرات حکومت کے ذریعے ایک سرکلر جاری کرکے ان کتابوں کو ریاست کے پرائمری اور سیکنڈری لیول کے بچوں کو اضافی سبق کے طور پر پڑھانے کو کہا گیا تھا۔
ان کتابوں میں پشپک ہوائی جہاز کو دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بتایا گیا ہے جو کہ بھگوان رام کے ذریعے استعمال میں لایا گیا تھا۔ ایک کتاب میں نسل پرستی سے متعلق متن بھی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ بھگوان نے جب پہلی روٹی پکائی تو وہ کم پکی اور انگریز پیدا ہوئے۔ بھگوان نے جب دوسری بار روٹی پکائی تو وہ زیادہ پککر جل گئی اور نیگرو پیدا ہوئے۔ بھگوان نے جب تیسری روٹی بنائی تو وہ ٹھیک مقدار میں پکی اور اس طرح سے ہندوستانیوں کا جنم ہوا۔
ان کتابوں میں ہمارے پرانے رشیوں کو ایسے سائنس دانوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے طب، ٹیکنالوجی اور سائنس کے علاقے میں کئی ساری ایسی دریافت کی ہیں جن کو بعد میں مغرب کے ذریعے قبضہکر لیا گیا۔
اس سے پہلے وہاں کی نصابی کتابوں میں ہٹلر کو ایک ایسےمثالی کردار کے طور پر پیش کیا جا چکا ہے جس نے جرمن فخر اور جرمن نسل کی برتری کو ازسرنوقائم کیا تھا۔ سال 2005 میں اسرائیل کے سیاسی رہنما کے گجرات دورے کے بعد اس سبق کو کتاب سے ہٹایا گیا تھا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے راجستھان حکومت کی اس سمت میں کئی کوششیں کافی مشہور رہی ہیں۔ یہاں تاریخ اپنی سہولت اور پسند کے حساب سے پھر سے لکھی جا رہی ہے جیسے یہ قائم کیا جا رہا ہے کہ دراصل ہلدی گھاٹی کی جنگ میں مہارانا پرتاپ کی ہار نہیں ہوئی تھی بلکہ انہوں نے مغل شہنشاہ اکبر کو ہرا دیا تھا۔
یہاں کے نصاب سے کئی ناموں کو منصوبہ بند طریقے سے غائب کر دیا گیا ہے جیسے جنگ آزادی میں جواہر لال نہرو کا کردار اور مہاتما گاندھی کےقاتل ناتھو رام گوڈسے کے ذکر کو ہٹا دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال خبر آئی تھی کہ آر ایس ایس سے وابستہ ‘ ودیا بھارتی اکھل بھارتیہ شکشا سنستھان ‘ نے مدھیہ پردیش حکومت کو تجویز بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سرسوتی ششو مندر سے جڑے تقریباً 1000 استاد نزدیکی سرکاری اسکولوں میں اپنی خدمات دے سکتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے اسکولی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے اس تجویز کا استقبال بھی کیا ہے۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو جلدہی سرسوتی ششو مندر سے جڑے استاد صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اپنی خدمات دیتے ہوئے ملیںگے۔
تعلیم کو روشنی کے مترادف مانا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کو ہی اندھیرے کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی دلچسپی تعلیم کو بہتر بنانے کی جگہ کسی خاص نظریہ کا ایجنڈا نافذ کرنے میں زیادہ ہے۔ مودی حکومت آنے کے بعد سے سنگھ پریوار کے ہندوتوا منصوبہ کو پنکھ مل گئے ہیں، بہت احتیاط کے ساتھ اس نظریہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا ملک کے قدرتی مزاج کے ساتھ کوئی میل نہیں ہے۔ یہ نظریہ ملک کے تنوع کو نکارتے ہوئے ہمارے ان اقدار کو چیلنج دیتا ہے جن کو آزادی کے بعد بنے نئے ہندوستان میں بہت مضبوطی کے ساتھ قائم کیا گیا تھا، یہ اقدار مساوات، سیکولرزم، تنوع، عدم اتفاق کے ساتھ رواداری کے ہیں۔ان اقدار کے ساتھ چھیڑچھاڑ ایک جمہوری سماج کے طور پر ہندوستان کی ترقی کے سفر کو متاثر کر سکتے ہیں، آنے والے وقت میں شدت پسندی ، تنگ ذہنیت اور جمود کا عروج جدید اور ترقی پذیر ہندوستان کے لئے بڑا چیلنج ثابت ہونے والے ہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں)
Categories: فکر و نظر