بی جے پی نے جہاں اس کو بازار کی مانگ اور فراہمی سے جڑا معاملہ بتایا ہے۔ وہیں، کانگریس سمیت حزب مخالف جماعت اس کو بدعنوانی سے جوڑ رہے ہیں۔ وہ تیندو پتے کے کاروبار کو انتخابی فنڈ تیار کرنے کا ذریعہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔
چھتیس گڑھ میں تیندوپتا اکٹھا کرنے کا کام خصوصاً آدیواسی اور دلت کمیونٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ پورے ملک کی 20 فیصد تیندوپتے کی پیداوار یہیں ہوتی ہے۔ یہاں کے پتے بہترین ہوتے ہیں۔ ریاستی حکومت کوآپریٹو کمیٹیوں کے ذریعے اس کا ذخیرہ کرتی ہے۔ اب اگر ریاست کی بی جے پی حکومت کے دعووں پر یقین کریں تو اس کا کہنا کہ 14 لاکھ تیندوپتا جمع کرنے والے کے ‘ Interest-promotion ‘ میں یہ حکومت سب سے آگے ہے اور اس کی تیندوپتا پالیسیوں نے قبائلی علاقوں کی قسمت کو چمکا دیا ہے۔ لیکن ریاستی حکومت کے اس دعویٰ پر گزشتہ دنوں کانگریس نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کانگریس صدر بھوپیش بگھیل نے الزام لگایا ہے کہ اس سال تیندوپتے کی فروخت میں 300 کروڑ روپے کا گھوٹالہ کیا گیا ہے۔Forest Produce Associationکی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا ہے کہ کیوں ہر بار انتخابی سال میں ہی تیندوپتا کی پیداوار گھٹ جاتی ہے اور فروخت کی قیمت میں گراوٹ آتی ہے؟
فہرست1 میں تیندوپتا زخیرہ، مزدوری کی تقسیم، فروخت کی قیمت کے کچھ سالوں کے اعداد و شمار اسی ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں۔ بی جے پی نے ان الزامات کا کوئی سیدھا جواب نہیں دیا ہے اور اس کو صرف بازار، مانگ اور فراہمی سے جڑا معاملہ بتایا ہے۔
ویسے تو تیندوپتا اسٹوریج فاریسٹ افسروں ، ٹھیکے داروں اور سیاست دانوں کی ‘ غیر قانونی کمائی ‘ کا ایک بہت بڑا ماخذ ہے اور بوٹا کٹائی ( تیندوپتا زخیرہ سے دو مہینہ پہلے جنگل میں ا س کے پودوں کی شاخوں کی کٹائی کی جاتی ہے، تاکہ معیاری پتے پیدا ہو) اور فڑ منشیوں کی تقرری کے وقت سے ہی اس میں بد عنوانی شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ مقامی سطح پر ہی ہوتا ہے۔ فہرست1 کا تجزیہ کریں تو ہم پاتے ہیں کہ چھتیس گڑھ ریاست کی تشکیل کے پہلے 4 سالوں میں اوسطاً 18.31 لاکھ مانک بوری (1 معیاری بوری = 50-50 پتیوں کی 1000 گڈی) تیندوپتا کی پیداوار ہوئی۔ بی جے پی حکومت میں 2004 کے بعد اتنی پیداوار آج تک نہیں ہوئی۔
جہاں سال 2010 میں 2.86 لاکھ معیاری بورے کی، تو سال 2015 میں 5.3 لاکھ معیاری بورے کی کم پیداوار ہوئی۔ مختلف سالوں میں یہ کمی 15 فیصد سے 29 فیصد تک ہے اور اس سال بھی اوسط سے 3.1 لاکھ بورےکم پیداوار کا تخمینہ ہے۔ جانکاروں کے مطابق، موسم سمیت مختلف وجہوں سے معمولی پیداوار سے 10 فیصد تک کی کمی قبول کی جا سکتی ہے، لیکن 29 فیصد تک کی نہیں۔ اس لئے ان کا دعویٰ ہے کہ اصل میں پیداوار زیادہ ہو رہی ہے، کاغذات میں کم دکھایا جا رہا ہے اور اس طرح کروڑوں کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ (فہرست-2)
چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن سے جڑے کسان رہنما نندکمار کشیپ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس انتخابی سال میں 2500 روپے فی معیاری بورا زخیرہ مزدوری دینے کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 12 سالوں میں اوسطاً 854 روپے فی بورا مزدوری ہی دی گئی ہے۔ اس طرح ٹھیکے داروں نے اصل پیداوار میں کمی دکھاکر جمعکاروں کی 422 کروڑ روپیوں کی مزدوری ہڑپ لی ہے۔ اسی طرح ویب سائٹ کے مطابق، سال 2002 میں تیندوپتا کی اوسط فروخت قیمت 1015 روپے فی معیاری بورا تھی، جو سال 2004 میں گھٹکر 787 روپے رہ گئی ۔ سال 2002 کی اوسط فروخت قیمت سے یہ 22.4 فیصد کم تھا اور یہ انتخابی سال تھا۔
2007 میں اس پتے کی نیلامی 1895 روپے کی شرح سے ہوئی، جو سال 2008 کے انتخابی سال میں 1434 روپے رہ گئی ۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ کمی 21.7 فیصد تھی۔ سال 2012 میں یہی تیندوپتا 3772 روپے کی شرح پر بکا، تو سال 2013 میں اس کی نیلامی 2461 روپے کے ریٹ پر ہی ہوئی۔ یہ پھر انتخابی سال تھا اور دروں میں گراوٹ 34.76 فیصد تھی۔ سال 2017 میں اس کی اوسط قیمت 7945 روپے تھی، تو اس سال اوسط قیمت 5847 فی معیاری بورا ملنے کا دعویٰ فوریسٹ پروڈیوز ایسوسی ایشن نے کیا ہے۔ سال 2018 انتخابی سال ہے اور پھر گزشتہ سال کے مقابلے میں 26.4 فیصد کی گراوٹ درج کی جا رہی ہے۔
اس لئے سیاسی حلقوں میں یہ سوال فطری طور پر اٹھ رہا ہے کہ انتخابی سال میں ہی تیندوپتا کی نیلامی شرح میں اتنی گراوٹ کیوں اور کیسے ہو جاتی ہے؟ کانگریس اور سی پی ایم سمیت تمام سیاسی جماعت اس کو بدعنوانی سے جوڑ رہے ہیں اور تیندوپتا کاروبار کو انتخابی فنڈ تیار کرنے کا ذریعہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے صفائی دی ہے کہ ای ٹینڈرنگ کے ذریعے پوری شفافیت برتی جا رہی ہے اور قیمت میں گراوٹ کا بازار کی مانگ اور فراہمی سے سیدھا تعلق ہے۔ لیکن معیشت کا معمولی اصول یہی کہتا ہے کہ مانگ قائم رہنے پر بھی، فراہمی میں کمی آنے سے قیمت بڑھتی ہے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں ہے۔
جانکاروں کا پھر یہ کہنا ہے کہ کسی وجہ سے گزشتہ سال کے مقابلے میں ریٹ میں 10 فیصد تک کی گراوٹ منظور کی جا سکتی ہے، لیکن اس سے زیادہ کی نہیں۔ ویسے بھی جب سابق سال میں زیادہ داموں پر پتا بکا ہو، تو اگلے سال اس سے کافی کم شرح پر فروخت ممکن ہی نہیں تھی۔ لیکن ایسا ‘ معجزہ ‘ ہوا ہے، تو اس کی ذمہ داری حکومت کو اٹھانی ہی پڑےگی، کیونکہ جمعکاروں اور ٹھیکے داروں کے درمیان ریگولیٹری سسٹم وہی ہے اور اس کی ہی ذمہ داری ہے کہ آدیواسیوں کے مفادات کی حفاظت کرے۔ پتا فروخت کی کم از کم بنیادی قیمت طے کرکے ایسا وہ آسانی سے کر سکتی تھی۔ لیکن اس حکومت کے رہتے ہوئے آدیواسیوں کو اقتصادی طور پر چوٹ پہنچی ہے۔
لیکن یہ نقصان کتنا ہوگا؟ چھتیس گڑھ کسان سبھا، جو اکھل بھارتیہ کسان سبھا سے وابستہ ہے، نے اس کا حساب مذکورہ دونوں عوامل کو دھیان میں رکھکر کیا ہے۔ اس حساب میں تیندوپتا کی پیداوار میں29-15 فیصد کی گراوٹ اور فروخت قیمت میں 35-22فیصد کی گراوٹ کو دھیان میں رکھا گیا ہے۔ کسان سبھا کے مطابق پچھلے 15 سالوں میں بی جے پی حکومت میں اصل پیداوار سے 40 لاکھ معیاری بورے سے زیادہ تیندوپتے کی پیداوار کو چھپایا گیا ہے اور مزدوروں کو 3128.44 کروڑ روپیوں کی چوٹ پہنچائی گئی ہے، یعنی فی جمعکار فیملی کو 26570 روپیوں سے محروم رکھا گیا ہے، (فہرست-2)
Primary forest produce cooperativeکے مینیجر رہے مہر رائے، جو کہ مینیجروں کو منظم کر کے آندولن کرنے کے ‘ جرم ‘ میں دو دہائی پہلے برخاست کئے جا چکے ہیں، بتاتے ہیں، ‘ تیندوپتا زخیرہ میں کمی صرف کاغذات میں ہے۔ افسروں اور رہنماؤں سے ساز باز کرکے ٹھیکے دار تیندوپتا توڑتے زیادہ ہے، وہ کارٹیل بناکر ٹینڈر شرحوں کو گراتے ہیں۔ حکومت نے بھی ان کو اس کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ لیکن اس کا سیدھا نقصان مزدوروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کو نہ مزدوری ملتی ہے، نہ بونس۔ ‘
اودنتی سینکچوری میں نقل مکانی کے خلاف لڑ رہے قبائلی رہنما روپ دھر دھروو کہتے ہیں، ‘ جنگل ہمارا، لکڑی ہماری، ہماری محنت، لیکن ہم ہی غریب۔ چپل اور سائیکل تک خریدنے کی طاقت نہیں۔ یہ کون سی پالیسی ہے کہ جنگل کا مالک ٹھن ٹھن گوپال اور دلال ہو گیا مالامال!! ‘ وہ بتاتے ہیں کہ تیندوپتا توڑنے کے لئے ان کے4 لوگوں کی فیملی 16 گھنٹے محنت کرتی ہے۔ وہ سب مل کر تقریباً ایک بورا تیندوپتا توڑکر، گڈی بناکر فڑ میں پہنچا دیتے ہیں، لیکن جو پیسے ملتے ہیں، وہ کم از کم مزدوری کے برابر نہیں ہوتا۔
کسان سبھا کے رہنما سکھ رنجن نندی نے کہا کہ ایک مزدور 8 گھنٹے میں تقریباً 150 گڈی تیندوپتا ہی توڑ سکتا ہے۔ اس محنت کی بنیاد پر فی معیاری بورا زخیرہ رقم 4000 روپے طے کی جائے اور اس کو مہنگائی اشاریہ سے جوڑ دیا جائے، تو مزدوروں کو کچھ راحت مل سکتی ہے… Minor Forest Produce Federation کا ماننا ہے کہ تیندوپتا مزدوری آدیواسیوں کی کل آمدنی کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کو ‘ اضافی آمدنی ‘ دیتا ہے۔ کوربا میں زمینوں سے ہٹائے گئے لوگوں کی لڑائی لڑ رہے سی پی ایم رہنما سپورن کلدیپ اس کو منووادی سوچ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندو سورن وادی کا فلسفہ آدیواسی ، دلتوں کو ان کی جمع شدہ رقم اور جائیداد سے محروم کرنے کا فلسفہ ہے اور بی جے پی حکومت تیندوپتا کے مزدوروں کی ‘ اضافی آمدنی ‘ کو ہڑپنے کے کھیل میں گزشتہ 15 سالوں سے لگی ہے۔
(مضمون نگار چھتیس گڑھ میں سی پی ایم کے ریاستی سکریٹری ہیں)
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ