نہرو سے لڑتے لڑتے وزیر اعظم مودی کے چاروں طرف نہرو کا بھوت کھڑا ہو گیا۔ نہرو کی اپنی تاریخ ہے۔ ان کتابوں کو جلا دینے اور تین مورتی بھون کو منہدم کر دینے سے نہیں مٹےگی۔ یہ غلطی خود مودی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی کے لئے انتخاب جیتنا بڑی بات نہیں ہے۔ وہ جتنے انتخابات جیت چکے ہیں یا جتا چکے ہیں یہ ریکارڈ بھی لمبے وقت تک رہےگا۔ کرناٹک کی جیت کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن آج وزیر اعظم مودی کو اپنی ہار دیکھنی چاہئے۔ وہ کس طرح اپنی تقریروں میں ہارتے جا رہے ہیں۔ آپ کو یہ ہار انتخابی نتیجوں میں نہیں دکھےگی۔ وہاں دکھےگی جہاں ان کی تقریروں کا جھوٹ پکڑا جا رہا ہوتا ہے۔ ان کے بولے گئے فیکٹس کی جانچ ہو رہی ہوتی ہے۔ تاریخ کی دہلیز پر کھڑے ہوکر جھوٹ کے سہارے وزیر اعظم تاریخ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ تاریخ ان کی اس گستاخی کو نوٹ کر رہی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے اپنا عروج چن لیا ہے۔ ان کا عروج آسمان میں بھی ہے اور اس گڈھے میں بھی ہے جہاں نہ تو کوئی شرافت ہے نہ سطح ہے۔ ان کو ہر قیمت پر اقتدار چاہئے تاکہ وہ سب کو دکھائی دیں عروج پر مگر خود رہیں گڈھے میں۔ یہ گڈھا ہی ہے کہ ہیرو ہوکر بھی ان کی باتوں کی دھلائی ہو جاتی ہے۔ اس گڈھے کا انتخاب وہ خود کرتے ہیں۔ جب وہ غلط فیکٹ رکھتے ہیں، جھوٹی تاریخ رکھتے ہیں، مخالف رہنما کو ان کی ماں کی زبان میں بحث کے لئے چیلنج دیتے ہیں۔ یہ گلی کی زبان ہے، وزیر اعظم کی نہیں۔
دراصل وزیر اعظم مودی کے لئے نہرو چیلنج بن گئے ہیں۔ انہوں نے خود نہرو کو چیلنج مان لیا ہے۔ وہ لگاتار نہرو پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ان کے حامیوں کی فوج وہاٹس اپ نام کی جھوٹی یونیورسٹی میں نہرو کو لےکر لگاتار جھوٹ پھیلا رہی ہے۔ نہرو کے سامنے جھوٹ سےتشکیل دیا گیا ایک نہرو کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اب لڑائی مودی اور نہرو کی نہیں رہ گئی ہے۔ اب لڑائی ہو گئی ہے اصلی نہرو اور جھوٹ سے تشکیل دیے گئے نہرو کی۔ آپ جانتے ہیں اس لڑائی میں جیت اصلی نہرو کی ہوگی۔
نہرو سے لڑتے لڑتے وزیر اعظم مودی کے چاروں طرف نہرو کا بھوت کھڑا ہو گیا۔ نہرو کی اپنی تاریخ ہے۔ ان کتابوں کو جلا دینے اور تین مورتی بھون کو منہدم کر دینے سے نہیں مٹےگی۔ یہ غلطی خود مودی کر رہے ہیں۔ نہرو نہرو کرتے کرتے وہ چاروں طرف نہرو کو کھڑا کر رہے ہیں۔ مودی کے آس پاس اب نہرو دکھائی دینے لگے ہیں۔ ان کے حمایتی بھی کچھ دنوں میں نہرو کے ماہر ہو جائیںگے، مودی کے نہیں۔ بھلےہی ان کے پاس جھوٹ سے تشکیل دیا گیا نہرو ہوگا مگر ہوگا تو نہرو ہی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم مودی نے کہا کہ کوئی کانگریسی جیل میں انقلابیوں سے نہیں ملا، لیکن سچ یہ نہیں ہے
وزیر اعظم کی انتخابی تقریروں کو سنکر لگتا ہے کہ نہرو کی یہی شراکت ہے کہ انہوں نے کبھی بوس کی، کبھی پٹیل کی تو کبھی بھگت سنگھ کی بے عزتی کی۔ وہ آزادی کی لڑائی میں نہیں تھے، وہ کچھ رہنماؤں کو ذلیل کرنے کے لئے لڑ رہے تھے۔ کیا نہرو ان لوگوں کی بے عزتی کرتے ہوئے برٹش حکومت کی جیلوں میں 9 سال رہے تھے؟ ان رہنماؤں کے درمیان نظریاتی دوری، داخلی انتشار اور الگ الگ راستے پر چلنے کی دھن کو ہم کب تک بےعزتی کے فریم میں دیکھیںگے۔ اس حساب سے تو اس دور میں ہرکوئی ایک دوسرے کی بے عزتی ہی کر رہا تھا۔
قومی تحریک کی یہی خوبی تھی کہ الگ الگ خیالات والے ایک سے ایک قد آور رہنما تھے۔ یہ خوبی گاندھی کی تھی۔ ان کے بنائے دور کی تھی جس کی وجہ سے کانگریس اور کانگریس سے باہر رہنماؤں سے بھرا آسمان دکھائی دیتا تھا۔ گاندھی کو بھی یہ موقع ان سے پہلے کے رہنماؤں اور سماجی مصلحین نے دستیاب کرایا تھا۔ مودی کے ہی الفاظ میں یہ بھگت سنگھ کی بھی بے عزتی ہے کہ ان کی ساری قربانی کو نہرو کے لئے رچے گئے ایک جھوٹ سے جوڑا جا رہا ہے۔
بھگت سنگھ اور نہرو کو لےکر وزیر اعظم نے جو غلط بولا ہے، وہ غلط نہیں بلکہ جھوٹ ہے۔ نہرو اور فیلڈ مارشل کریپا، جنرل تھیمیا کو لےکر جو غلط بولا ہے وہ بھی جھوٹ تھا۔ کئی لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی ریسرچ ٹیم کی غلطی ہے۔ آپ غور سے ان کے بیانات کو دیکھئے۔ جب آپ ایک الفاظ کے ساتھ پورے بیان کو دیکھیںگے تو اس میں ایک ڈیزائن دکھےگا۔ بھگت سنگھ والے بیان میں ہی سب سے پہلے وہ خود کو الگ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کو تاریخ کی جانکاری نہیں ہے اور پھر اگلے جملوں میں اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سوالوں کے انداز میں بات رکھتے ہیں کہ اس وقت جب بھگت سنگھ جیل میں تھے تب کوئی کانگریسی رہنما نہیں ملنے گیا۔ اگر آپ گجرات انتخابات میں منی شنکر ایر کے گھر ہوئی میٹنگ پر ان کے بیان کو اسی طرح دیکھیںگے تو ایک ڈیزائن نظر آئےگا۔
بیانات کے ڈیزائنر کو یہ پتا ہوگا کہ عوام تاریخ کو کتابوں سے نہیں کچھ افواہوں سے جانتی ہے۔ بھگت سنگھ کے بارے میں یہ افواہ حقیقی ہے کہ اس وقت کے رہنماؤں نے ان کو پھانسی سے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی افواہ سے تار ملاکر اور اس کی بنیاد پر نہرو کو مشتبہ بنایا گیا۔ نام لئے بغیر کہا گیا کہ نہرو بھگت سنگھ سے نہیں ملنے گئے۔ یہ اتنا عام فیکٹ ہے کہ اس میں کسی بھی رسرچ ٹیم سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ تاریخ یا سال میں چوک ہو سکتی تھی مگر پورا سیاق و سباق ہی غلط ہو یہ ایک پیٹرن بتاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بھگت سنگھ فرقہ پرستی کے سنگین مخالف تھے اور ایشور کو ہی نہیں مانتے تھے۔ فرقہ پرستی کے سوال پر ناستک ہوکر جتنے بھگت سنگھ واضح ہیں، اتنے ہی مادیت پرست ہوکر نہرو بھی ہیں۔ بلکہ دونوں قریب دکھتے ہیں۔ نہرو اور بھگت سنگھ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ مخالفت بھی ہوگی تو کیا اس کا حساب انتخابی ریلیوں میں ہوگا۔
نہرو کی ساری تاریخ ان کی تنقید کے ساتھ کئی کتابوں میں درج ہے۔ وزیر اعظم مودی ابھی اپنی تاریخ تیار کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کم سے کم وہ جھوٹ پر مبنی نہ ہو۔ ان کو یہ چھوٹ نہ تو بی جے پی کے کیمپینر کے طور پر ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے طور پر۔ قاعدے سے ان کو اس بات کے لئے معافی مانگنی چاہئے تاکہ وہاٹس اپ یونیورسٹی کے ذریعے نہرو کو لےکے پھیلائے جا رہے زہر پر قدغن لگے۔ اب مودی ہی نہرو کو آرام دے سکتے ہیں۔ نہرو کو آرام ملےگا تو مودی کو بھی آرام ملےگا۔
(یہ تبصرہ بنیادی طور پر رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر