گراؤنڈ رپورٹ:بنارس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی دیرینہ آرزو والی اسکیم کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کی تعمیر کے لئے تقریباً 300 مکانوں کا حصول ہونا ہے، جس سے 600 فیملی کے نقل مکانی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
’پکّا مہال‘کہے جانے والے بنارس کے چوک گودولیا علاقے میں موجود کاشی وشوناتھ مندر کے پچھلے حصے سے گزرنے پر مندر سے سٹا ایک بڑا حصہ ڈھایا ہوا دکھتا ہے۔اس منہدم ہوئے حصے میں گنیش، شنکر، لکشمی جیسے ہندو دیوی دیوتاؤں کے ٹوٹے پھوٹے مندر دکھائی دیتے ہیں۔ حال میں ہی گرائے گئے اس حصے کو لےکر بنارس میں ایک بڑی جدو جہد ہو رہی ہے، جس کو جنم دینے میں کہیں نہ کہیں وزیر اعظم اور وارانسی کے رکن پارلیامان نریندر مودی اور ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا بڑا ہاتھ ہے۔
دراصل گزشتہ دو تین مہینوں سے کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور کی تعمیر کے لئے مندر کے آنگن کی توسیع کا پروگرام چلایا جا رہا ہے۔ اس توسیع کے تحت ایک کاریڈور کی تعمیر ہونی ہے، جس سے کاشی وشوناتھ مندر اور گنگا ندی ایک دوسرے کے سیدھے رابطہ میں آ جائیںگے۔اس کاریڈور کی تعمیر کے بعد کاشی کے اس قدیم مندر میں زیارت کرنے کو آ رہے لوگ سیدھے گنگا ندی جا سکتے ہیں۔ ہری دوار واقع ہر کی سیڑھی کے طرز پر بنائے جا رہے اس کاریڈور کی تعمیر سے پہلے ہی مودی اور یوگی کی یہ اسکیم تنازعات کے گھیرےمیں آ گئی ہے۔
ریاست کی یوگی حکومت کی طرف سے مندر والے علاقے کی توسیع کرنے کی اسکیم کے تحت کاشی وشوناتھ مندر سے لےکر للیتا گھاٹ تک جانے والے 700 میٹر کے راستے کی چوڑائی کو لے کر کا کام ہونا ہے۔ اس چوڑائی کے لئے اس راستے میں پڑنے والے تقریباً 300 مکانوں کے انہدام کی کارروائی کی جانی ہے۔ ان مکانوں میں کئی مندر بھی ہیں، جن کو توڑا یا منتقل کیا جانا ہے۔نقل مکانی کی نظر سے دیکھیں تو ان 300 مکانوں میں رہ رہے تقریباً 600 فیملی کو مودی اور یوگی کی اس دیرینہ آرزو والی اسکیم کے بعد منتقل ہونا پڑےگا۔
لیکن اسی جگہ پر کاریڈور اسکیم کو سب سے زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کاریڈور کے حد ودمیں آنے والی زیادہ تر عمارتیں 100 سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں، اور ان عمارتوں میں رہ رہے لوگ پانچ یا چھے پشتوں پہلے یہاں آکر بسے تھے۔وشوناتھ مندر کی سرسوتی پھاٹک پر موجود پوجا کے سامان بیچنے والے 50 سالہ وجئے کمار بتاتے ہیں، ‘ اس کاریڈور کی تعمیر میں مودی جی پوری بسی بسائی بستی کو اجاڑ دینا چاہتے ہیں۔ کئی لوگوں سے مکان خریدے جا رہے ہیں، اور کئی لوگوں کو ان کے مکانوں کو بیچنے کے لئے دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ‘
وجئے کمار آگے بتاتے ہیں، ‘ میری تو بس دوکان ہے۔ یہاں رہنے والے لوگوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ لوگ چاہتے نہیں کہ کسی بھی قسم کے کاریڈور کی تعمیر کی جائے۔ اس کاریڈور سے یہاں رہ رہے لوگوں کے گزر بسر پر بہت برا اثر پڑنے والا ہے۔ ‘بنارس کا پکامہال کا ڈھانچہ کئی سو سالوں سے نہیں بدلا ہے۔ کہاوت ہے کہ یہاں جو کسی وقت پر وقتی طورسے ہے، وہ وہاں صدیوں سے وہیں بنے رہنے کے لئے۔ چاہے وہ لوگ ہوں یا جگہ۔ لیکن مودی اوریوگی کی کاریڈور اسکیم بنارس سے غالباً اس کی ‘ گلیوں اور مندروں کا شہر ‘ والی پہچان چھین لیناچاہتی ہے ۔
اس اسکیم کے لئے جب ایڈمنسٹریشن کی جانب سے تیزی آئی تو محلّے میں رہ رہے اسپورٹ جرنسلٹ پدم پتی شرما نے ایک فیس بک پرپوسٹ لکھاجو موضوع بحث میں رہا۔ پدم پتی شرما نے اپنے فیس بک پوسٹ میں خودکشی کی دھمکی دےکر کہا کہ اتر پردیش وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا برتاؤ مغل حکمراں اورنگ زیب سے بھی زیادہ بدتر ہے۔’ دی وائر ‘ سے بات چیت میں پدم پتی شرما کہتے ہیں، ‘ یوگی اور مودی ایسا کام کر رہے ہیں جیسا کسی مغل حکمراں نے بھی نہیں کیا۔ وہ ہندو راشٹروادی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حکومت وکاس کے نام پر مندر توڑ رہی ہے اور بابا وشوناتھ کے سایہ میں رہ رہے سینکڑوں ہندوؤں کو نقل مکانی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ‘کاریڈور اسکیم کے تحت آنے والے جغرافیائی خطہ میں کئی سو سال پرانے مکان تو موجود ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کئی دہائی پرانے مندر بھی موجود ہیں۔
پدم پتی شرما کہتے ہیں، ‘ جس گھر میں میں رہتا ہوں وہ 175 سال پرانا ہے۔ پورے محلے میں چھوٹےبڑے کئی قسم کے مندر ہیں۔ میں پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ ان مندروں کو توڑکر آپ مندر کو کیسی توسیع دینا چاہ رہے ہیں؟ ‘اس کاریڈور اسکیم کی بنیاد سال 2009 میں اس وقت کی ریاستی حکومت کے زمانے میں رکھی گئی تھی۔ لیکن مقامی مخالفت کے چلتے اس اسکیم کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ لیکن سال 2018 کے شروع ہوتے ہوتے موجودہ ریاستی حکومت نے اس اسکیم کو پھر سے زندہ کیا ہے۔شروعات میں اس اسکیم میں 166 عمارتوں کا حصول ہونا تھا، لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد 300 کے آس پاس پہنچ چکی ہے۔ سرکاری دعوے کے مطابق ان 300 مکانوں میں سے 63 کا کامیابی سے حصول کیا جا چکا ہے، اور ان میں سے 32 مکانوں کا انہدام بھی کیا جا چکا ہے۔
لیکن انہدامی کارروائی شروع ہوتے ہی تنازعات میں پڑ گئی۔ وشوناتھ مندر کے ایک حصے کی طرف جب کارروائی شروع کی گئی تو کچھ چھوٹے چھوٹے مندر بھی توڑ دئے گئے۔ کارروائی کی جلدبازی کا عالم یہ تھا کہ پورے زون کو پولیس اور پی اے سی کے ذریعے سیل کرنے کے بعد کارروائی کی گئی۔ لیکن مندر پر ہتھوڑا چلتا دیکھ کر بنارس کا سنت سماج فوراً حرکت میں آ گیا۔گزشتہ ہفتے سوامی اوی مکتیشورانند کی رہنمائی میں سنت سماج سے جڑے سینکڑوں لوگ مندر کے سرسوتی پھاٹک کے حصے میں آ کر جمع ہو گئے، جہاں انہدامی کارروائی کے بعد دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں مبینہ طور پر ملبے میں دب گئی تھیں۔ سوامی اوی مکتیشورانند نے ان دیوتاؤں کی مورتیاں کو نکالا اور ان کی عبادت شروع کی، جو آج تک جاری ہے۔
28 سالہ بٹک شیلیش تیواری روزانہ ان ٹوٹے مندروں میں عبادت کرتے ہیں۔ بات چیت میں شیلیش بتاتے ہیں، ‘ سوامی جی کی مداخلت کے بعد سے ہم عبادت کر رہے ہیں، ورنہ مندر ٹرسٹ اور انتظامیہ کا بس چلے تو تمام مورتیوں کو گنگا میں پھینک دے۔ ‘شیلیش آگے بتاتے ہیں، ‘ ہم روزانہ یہاں پوجا پاٹھ کے لئے آتے ہیں، لیکن وشوناتھ مندر کاانتظامیہ ہمیں اکثر ٹوکتا رہتا ہے۔ پاس میں ہی ایک مندر ہے جو کاریڈور اسکیم کے تحت بک چکے مکان کے اندر ہے۔ پہلے اس مندر میں پوجاپاٹھ ہوتا تھا، لیکن اب وہاں جانے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ اس لئے ہم گھر کے تالے پر ہی پوجا کر لیتے ہیں۔ ‘
کاشی وشوناتھ مندر کی کاریڈور اسکیم کا ایک اہم پوائنٹ بھی غور کرنے لائق ہے، جس کی وجہ سے پوری اسکیم شک کے گھیرے میں آ جاتی ہے۔ مندر سے سٹی ہوئی گیان واپی مسجد ہے، جس کو اورنگزیب نے سال 1669 میں اصل مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی تھی۔ اس کے بعد کئی بار اس مسجد کو گراکر پھر سے مندر بنانے کی کوشش ہوئی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آخرکار سال 1780 میں اہلیابائی ہولکر نے مسجد کی چہاردیواری سے سٹاکر نئے مندر کی تعمیر کرایا، جو آج بھی متنازعہ ہے۔
1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ایک نعرہ بہت رائج ہوا تھا، ‘ ایودھیا تو جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے ‘۔ اس نعرے میں کاشی کی طرف کیا گیا اشارہ وشوناتھ مندر اور بابری مسجد کی طرف تھا۔1983 میں مندر کے پورے جاری عمل کا اترپردیش حکومت کے ذریعے حصول کرنے کے بعد ریاست میں جب جب بی جے پی کی حکومت آئی ہے، یہ نعرہ بلند ہو جاتا ہے۔موجودہ کاریڈور اسکیم مندر کے اسی حصے سے آتی ہے، جو مسجد سے لگا ہوا ہے۔ اسکیم کے تحت مندر اور عمارتوں کو گرائے جانے کے بعد مسجد اب ایک دم کھلے میں آ گئی ہے۔ مقامی لوگوں کی مانیں تو حکومت کا اسکیم مندر کی توسیع کاری کے ساتھ ساتھ مسجد کو بھی نشانے پر لینے کا ہے۔
26 سالہ منوج شرما اسی محلے میں چائے کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا 300 سال پرانا گھر بھی اس اسکیم کی زد میں ہے۔منوج شرما کہتے ہیں، ‘ ہم لوگوں کو تو صاف پتا ہے کہ حکومت کیا گرانا چاہ رہی ہے؟ یہاں زیادہ تر لوگ بی جے پی اور آر ایس ایس سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن کوئی نہیں چاہتا کہ مسجد گرائی جائے جس سے بنارس کا ماحول خراب ہو۔ لیکن کاریڈور اسکیم میں حکومت کا اہم نشانہ گیان واپی مسجد ہے۔ اتنے بڑے کاریڈور کی تعمیر اسی لئے ہو رہی ہے کہ لوگ جمع ہو سکیں۔ آپ ایسے کاشی کو کیوٹو بنائیںگے؟ ‘
منوج آگے کہتے ہیں، ‘ اتنے مکانوں، مندروں اور گلیوں کے درمیان ابھی تک مسجد محفوظ تھی، آگے کا نہیں پتا۔ ‘اس محلے میں اکثریت میں بی جے پی کا ووٹ بینک ہے اور لمبے وقت سے محلے کے نامی گرامی لوگ سنگھ کے کارکن رہے ہیں، چاہے وہ پدم پتی شرما ہوں یا 200 سال پرانے مکان میں پانچ نسلوں سے رہ رہے کرشن کمار شرما۔کرشن کمار شرما بتاتے ہیں، ‘ میرا اور میرے بھائیوں کا بچپن سنگھ کی شاخوں میں کبڈی اور کھوکھو کھیلتے گزرا ہے۔ 2014 کے انتخاب کے دوران ہم نے نریندر مودی کے کیمپین کو بھرپور حمایت دی، لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ ہم سے ایسے بدلا لیا جائےگا۔ ‘کرشن کمار آگے کہتے ہیں، ‘ اس کاریڈور اسکیم سے بنارس کاآپسی بھائی چارہ اور مذہبی ہم آہنگی دونوں ہی چلے جائیںگے۔ جس پارٹی کا میں اپنی 55 سال کی عمر تک حامی رہا، اب میں اس کے خلاف جانے کو مجبور ہوں۔ ‘
کاریڈور اسکیم کے ساتھ غلط فہمی کا ماحول اس لئے بھی بنا ہوا ہے کیونکہ اسکیم کا خاکہ یا بلیوپرنٹ ابھی تک عام نہیں کیا گیا ہے۔ سرکاری دعویٰ ہے کہ مئی مہینے کے آخر میں رکن پارلیامان اور وزیر اعظم نریندر مودی وارانسی میں اس اسکیم کی نقاب کشائی کریںگے۔مقامی لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ افسروں کی طرف سے یہ بھی مطلع نہیں کیا گیا ہے کہ کن مکانوں کا حصول کیا جانا ہے۔ کسی بھی دن مکانوں کی تعداد بدل جاتی ہے، جس سے پیدا ہو رہی غلط فہمی کا نقصان لوگوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
انتظامیہ پر یہ بھی الزام ہے کہ لوگوں سے سیدھے بات کرنے کے لئے کوئی بھی افسر یا ذمہ دار شخص نہیں آیا، بلکہ انتظامیہ کی طرف سے دلال بات کر رہے ہیں۔للیتا گھاٹ واقع دلت بستی میں موجود تقریباً 40 مکان بھی اسی کاریڈور اسکیم کے تحت گنے جا رہے ہیں۔ یہاں رہنے والی 55 سالہ سشیلا بتاتی ہیں، ‘ کوئی بھی افسر ہم سے بات کرنے نہیں آیا۔ ہم لوگ اخبار میں خبر پڑھتے تھے کہ ایسا ہونے جا رہا ہے، پھر اچانک سے گلی اور سڑک پر دلال ہمیں گھیرنے لگے اور پوچھنے لگے کہ ہم اپنے مکان کی کیاقیمت چاہ رہے ہیں؟ ‘
اسی دلت بستی میں رہنے والے 28 سالہ راجیش کنوجیا بتاتے ہیں، ‘ ہم لوگ تو اپنا مکان خالی نہیں کریںگے، نہ ہی بیچیںگے۔ لیکن اب جب لالچ دینے سے کام نہیں بنا تو دلال تو سیدھے سیدھے ڈرانے لگے ہیں کہ مکان چھوڑ دو ورنہ کیڑے مکوڑے کی طرح کچل دئے جاؤگے۔ ‘اس کاریڈور اسکیم کو مضبوطی سے عملی جامہ پہنانے میں وشوناتھ مندر ٹرسٹ کےچیف ایگزیکٹو افسر وشال سنگھ پورے زور شور سے لگے ہوئے ہیں۔ کسی بھی مصروفیت والے دن میں وشال سنگھ کا دفتر رجسٹری کرنے یا کرانے آ رہے لوگوں، وکیلوں یا اس کاریڈور اسکیم سے جڑے لوگوں سے بھرا رہتا ہے۔
‘ دی وائر ‘ سے بات چیت میں وشال سنگھ بتاتے ہیں، ‘ اس اسکیم کو لےکر جو آپ کو ڈر دکھ رہا ہے، وہ ڈر نہیں ہے۔ یہ اس اسکیم میں نشان زد مکانوں میں رہ رہے ان تمام غیر قانونی طور پرقبضہ کرنے والوں کی فکر ہے کہ ان کو اس مکان سے بے دخل کیا جا رہا ہے جو ان کا ہے ہی نہیں۔ ‘وشال سنگھ آگے کہتے ہیں، ‘ اسی طرح سے مندروں کو توڑنے پر جو لوگ شور کر رہے ہیں، وہ لوگ بھی سیاسی طور پر استعمال ہورہےہیں۔ سوامی اوی مکتیشورانند کی سیاست سے سبھی لوگ آشنا ہیں۔ میں خود ناستک ہوں۔ ہم نے ابھی تک 32 مکان گرائے ہیں، لیکن کسی بھی مکان میں موجود مندر کو ہم نے نہیں چھوا ہے۔ ‘
ہر طرح کی مخالفت کو سیاسی بتاتے ہوئے وشال سنگھ وشوناتھ مندر سے سٹی گیان واپی مسجد پر آ رہے خطرے کے بارے میں کہتے ہیں، ‘ لوگوں نے تو مجھ سے کہا ہے کہ آس پاس کا غیرقانونی قبضہ ہٹ جانے سے مسجد اور محفوظ ہوئی ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجد گرانے کے احاطے کا تعمیر کیا جا رہا ہے، وہ دراصل حزب مخالف پارٹیوں سے جڑے لوگ ہیں۔ ‘
مجوزہ کاریڈور کے پاس پشپتی ناتھ کا ایک مندر بھی ہے، جس کے رکھ رکھاؤ کی پورا ذمہ نیپال سرکار کا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کی مانیں تو اس ‘ نیپالی مندر ‘ کو بھی اس کاریڈور اسکیم کے تحت گرائے جانے کی اسکیم تھی۔ساوتھ ایشیا فاؤنڈیشن سے جڑے بی ایچ یو کے نیورولاجسٹ پروفیسر وجئے ناتھ مشر کہتے ہیں، ‘ حکومت کی پوری اسکیم نیپالی مندر کو گرانے کی بھی ہے، لیکن وہ اس کو عام نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ہندوستان اور نیپال کے تعلق میں تلخی بڑھ سکتی ہے۔ ‘
وشال سنگھ ایسے کسی خدشہ سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری اسکیم میں نیپالی مندر کو بھی توسیع دی جانی ہے، گرانے کی بات بے بنیاد ہے۔سماجوادی پارٹی سے ودھان پریشد کے ممبر شترودر پرکاش نے اس معاملے کو کونسل میں بھی اٹھایا ہے لیکن وزیر دنیش شرما کی طرف سے دئے گئے جواب میں کسی وراثت کو خطرہ نہیں ہے، بتایا گیا ہے۔شترودر کہتے ہیں، ‘ کاریڈور اسکیم کا نہ تو پلان تیار ہے، نہ تو کوئی عمارت ہی نشان زد ہے۔ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں، کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی اس کاریڈور اسکیم کے پلان کی نقاب کشائی کریںگے۔ یعنی ریاستی حکومت کی کارجوئی کو آپ نے مرکزی حکومت کو دے دیا۔ یہ کیسے؟ ‘
اپنی اس کارروائی کی حفاظت میں وشوناتھ مندر ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر وشال سنگھ کہتے ہیں کہ پلان سامنے آنے پر سبھی کے لئے اسکیم کھل جائےگی۔ وہ کہتے ہیں، ‘ میرا دعویٰ ہے کہ یہاں رہ رہے آدھے سے زیادہ لوگوں میں خون اور وٹامن کی کمی ہے۔ اتنی تنگ گلیوں میں رہنے سے ان کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ یہاں ایمبولینس بھی نہیں پہنچ سکتی ہے۔ ‘ لیکن تب تک کس بنیاد پر عمارت اور مندر نشان زد کئے اور گرائے جا رہے ہیں، اس کا جواب کسی افسر کے پاس اب تک نہیں ہے۔
بہر حال کاشی وشوناتھ مندر کاریڈور تعمیر اور گنگا کے گھاٹوں کی حسن کاری کے کام کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر دی گئی ہے۔کورٹ نے اس پر سماعت کے لئے دو جولائی کی تاریخ طے کی ہے اور کہا ہے کہ اس دوران جاری کام پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق، سندیپ کمار سنگھ کی پی آئی ایل پر چیف جسٹس ڈی بی بھوسلے اور جسٹس سنیت کمار کی بنچ سماعت کر رہی ہے۔ یاچی کا کہنا ہے کہ کاریڈور تعمیر سے مندر کے آس پاس کے کئی تعمیر اور چھوٹے چھوٹے مندر منہدم کئے جا رہے ہیں۔
گنگا کے گھاٹوں کے اصل شکل سے بھی حسن کاری کے نام پر چھیڑچھاڑ کی جا رہی ہے۔ اس سے بنارس کی قدیم وراثت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ مانگ کی گئی ہے کہ تعمیر کو روکا جائے۔ کورٹ نے یاچی سے کہا ہے کہ اس بات کی تفصیل پیش کرے کہ کن قدیم مندروں اور تعمیر کو نقصان پہنچا ہے۔
وارانسی میں مندروں کو توڑنے والوں کی چتا کو آگ نہیں دےگا ڈوم سماج
الہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ہونے والی سماعت میں ابھی وقت ہونے سے انتظامیہ اپنی تیزی دکھا رہا ہے، تاکہ سماعت کے پہلے زیادہ تر مکانوں کی خرید و فروخت کر لی جا سکے۔اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے سوامی اومی کتیشورانند نے اپنی تحریک کو 16 مئی سے بنارس کی سڑکوں پر لے جانے کا اعلان بھی کیا ہے، جس کو مقامی عوام کی بھرپور حمایت بھی مل رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی وراثت بچاؤ کمیٹی کو مقامی عوام کے ساتھ ساتھ بنارس کے ملاحوں اور مانجھیوں اور منیکرنیکا گھاٹ سے جڑے چودھری سماج کی بھی حمایت ملی ہے، جس سے آنے والے دنوں میں اس کاریڈور اسکیم کی مخالفت میں ایک بڑی تحریک بھی کھڑی ہو سکتی ہے۔
ادھر، کاریڈور تعمیر کے لئے مندروں کو توڑے جانے کی مخالفت میں چل رہی تحریک کو حمایت دیتے ہوئے کاشی ڈومراج کے پوتا وشوناتھ چودھری نے مندروں کو توڑنے یا ان کی جگہ بدلنے والوں کی چتا کو جلانے کے لئے آگ نہیں دئے جانے کا اعلان کیا ہے۔اسی کے تحت ڈوم سماج کے سینئر بریا چودھری کی موجودگی میں کاشی ڈومراج کے پوتا وشوناتھ چودھری نے خبر رساں ایجنسی بھاشا سے بات چیت میں کہا ہے کہ مندر عقیدے کے مراکز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مندروں کو توڑنے اور اس کی جگہ بدلنے کی کوشش کرنے والوں کو کاشی کے منیکرنیکا گھاٹ پر چتا کے لئے آگ دینا ممکن نہیں ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ