پرنب مکھرجی کو لےکر ہمارے دل میں اتنی عزت ہے ان کے بارے میں تھوڑا سا اور جان لیں تو باتوں کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی۔
کئی دنوں سے خبر چل رہی ہے کہ سابق کانگریسی صدر پرنب مکھرجی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سرو شکشا ورگ ٹریننگ کیمپ میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر اسمرتی مندر احاطہ میں اختتامیہ تقریر 7 جون کو کریں گے۔ یہ آر ایس ایس میں تیسری اور آخری سطح کی ٹریننگ ہے جو پچھلے 25 دنوں سے چل رہی ہے۔ کل ملاکر یہ پرنب بابو ان سویم سیوک کو خطاب کریں گے جو پوری طرح سے تین طرح کی ٹریننگ لےکر ملکی ‘ خدمات ‘ کرنے کو تیار ہیں۔ مطلب یہ کہ پکے طورپر وہاں وہی سویم سیوک ہوں گے جن میں ‘ نظریاتی بھٹکاؤ’ نہیں کے برابر ہوگا!
یہ صحیح ہے کہ پرنب مکھرجی ملک کے سابق صدر رہے ہیں اور کچھ سالوں کو چھوڑ دیا جائے تو سال 1969 سے لگاتار اقتدار کے تمام کھیل میں حصہ دار رہے ہیں۔ کون کون عہدے پر نہیں رہے ہیں مالی، تجارتی، دفاعی، خارجہ، پلاننگ کمیشن کے نائب صدر، لوک سبھا میں پارٹی کے رہنما اور راجیہ سبھا میں بھی پارٹی کے رہنما۔ پھر یکایک ایسا کیا ہو گیا کہ جس کانگریس پارٹی نے اتنا کچھ دیا، اب وہ آر ایس ایس کی شاخ میں جاکر خطاب کرنے کو تیار بیٹھے ہیں؟ جبکہ ان کا ایک بیٹا ابھی بھی کانگریس پارٹی سے رکن پارلیامان ہے اوربیٹی کانگریس پارٹی کی ترجمان ہے؟
کانگریس پارٹی میں اس بات کو لےکر گھماسان مچا ہے۔ پارٹی میں کئی ایسے لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ ‘ ہمیں ‘ ان کے ذاتی فیصلے پر سوال نہیں اٹھاناچاہئے۔اس کے سب سے بڑے پیروکار سلمان خورشید اور ہنس راج بھاردواج ہیں۔ ہنس راج بھاردواج وہ شخص ہیں جن کی سافٹ ہندوتوا کی لائن ہمیشہ سے رہی ہے۔ خورشید کا کہنا ہے، پرنب مکھرجی وہ انسان ہیں جن کے پاس ضمیر ہے، جب وہ صدر تھے تو ان کا دروازہ سب کے لئے کھلا رہتا تھا، جو صدر کے طور پر بہت ہی اہم بات ہے۔ وہ ایسے آدمی ہیں جو دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرتے ہیں۔ اگر پرنب مکھرجی کے اوپر ہم بھروسہ نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے۔ ہاں، ابھی تک پرنب مکھرجی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے جس سے آر ایس ایس کو فائدہ ہوا ہو۔ ‘
اور جن پرنب مکھرجی کو لےکر ہمارے دل میں اتنی عزت ہے ان کے بارے میں تھوڑا سا اور جان لیں تو باتوں کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی۔ رکن پارلیامان سے صدر بننے کے عمل کو سمجھنا ہو تو کئی حصوں میں چھپی ان کی آپ بیتی کو ‘ بٹ وین دی لائنس ‘ پڑھئے۔ بہت سی تہیں کھلیںگی۔ جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا تو کہا جاتا ہے کہ سینئرہونے کی بنیاد پر دبے آواز میں انہوں نے اس عہدے پر اپنا دعویٰ بھی جتایا تھا۔ اور شاید اسی کی وجہ سے راجیو گاندھی نے ان سے کنارہ کشی اختیارکر لیا تھا اور پرنب مکھرجی کو نیشنل سوشلسٹ کانگریس پارٹی کی تشکیل کرنی پڑی تھی۔
پھر سے مین اسٹریم کی کانگریس پارٹی میں ان کی واپسی تب ہوئی تھی جب راجیو اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہاں، اس کے بعد لگاتار وہ کانگریس پارٹی کے ساتھ رہے اور سارے اہم عہدوں یہاں تک کہ آئینی صدر کا عہدہ بھی اس کے بعد ہی ان کو حاصل ہوا۔ لیکن یہ مت بھولئے کہ سارے کے سارے عہدے ان کو اس لئے نہیں ملے کیونکہ وہ کانگریس پارٹی یا دس جن پتھ کے متعلق کافی وفا دار رہے۔ ہاں، وہ ملک کے سب سے طاقت ور فیملی دھیروبھائی امبانی کے لئے ہمیشہ ہی وفا دار بنے رہے۔ ایک بار بڑے بھائی انل امبانی نے دھیروبھائی امبانی کی تیسری سالگرہ پر مراری بابو کے ذریعے دئے جا رہے لیکچر کے دوران بتایا تھا کہ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا جب اباجان کے جنم دن منانے کی ساری تیاریاں ہو گئی ہیں لیکن کیک نہیں کٹتا تھا کیونکہ پرنب بابو نہیں آئے ہوتے تھے۔ ایک بار تو ویسا بھی ہوا کہ جب پرنب بابو گھر پہنچے تب تک تاریخ بدل گئی تھی! اس کے بعد اباجان کا کیک کٹا۔ لیکن ہاں، ویسا کبھی نہیں ہوا کہ پرنب بابو آئے نہ ہوں!
لیکن بات اتنی سی نہیں ہے۔ بات اس سے کہیں آگے کی ہے۔ آر ایس ایس کے اس گیم پلان کو سمجھیں تو یہ اس کے لئے ماسٹر اسٹروک ہو سکتا ہے۔ کافی لمبے وقت سے کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ مودی حکومت اتنا خطرناک اس لئے ہے کیونکہ اس کے پیچھے آر ایس ایس ہے۔ راہل ایسا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑتے جب آر ایس ایس پر نشانہ سادھنا ہو اور وہ اس سے چوک جائیں!راہل گاندھی بھلے ہی کانگریس صدر بنا دئے گئے ہوں، ابھی تک وہ تمام لوگوں میں مقبول نہیں ہو پایا ہے۔ ابھی بھی بہت سے لوگ اس کو پردھان سیوک یا ان کی پارٹی کے ذریعے دئے گئے صفاتی نام ‘ پپّو ‘ سے مخاطب کرتے ہیں جبکہ اب راہل اس سے کافی آگے نکل گئے دکھتے ہیں۔ ان کی باتوں میں سنجیدگی ہوتی ہے، وسیع سماج کی فکر ہوتی ہے، ساتھ ہی، زبان میں شرافت ہے۔ لیکن قبولیت اس سطح پر نہیں ملی ہے۔ اس کے برعکس پرنب مکھرجی تقریباً ہر اہم عہدے پر رہے ہیں، کانگریسی ہیں اور سابق صدر بھی ہیں۔ اگر وہ جاکر سنگھ کے بارے میں کچھ بھی اچھا کہہ آتے ہیں تو راہل کے ذریعے آر ایس ایس کے اوپر لگایا گیا الزام خودبخود ختم ہو جائےگا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سردار پٹیل نے گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی لیکن کچھ باہری وجہوں سے پنڈت جواہر لال نہرو نے 1963 کے یوم جمہوریہ کے پریڈ میں اس کو شامل ہونے کی اجازت دے دی۔
آج کی حالت اور اس وقت کی حالت پر غور کریں تو زمین آسمان کا فرق دکھےگا۔ پنڈت نہرو اس وقت چین سے ہارنے کے بعد جمہوری شکل سے مضبوط ہونے کے باوجود پریشان تھے۔ جبکہ آر ایس ایس پر مہاتما گاندھی کے قاتل ہونے کا الزام تھا، جس سے وہ کسی بھی حالت میں باہر نکلنا چاہتا تھا۔ اور جب آر ایس ایس کو یوم جمہوریہ پریڈ میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی، اس کے لئے نجات تھی۔ وہ قوم پرستی کا پرچم لےکر نکل پڑا، دھیرےدھیرے اس نے یہ بتانا شروع کیا کہ اگر ہمارا بابائے قوم کے قتل سے کچھ بھی لینا دینا ہوتا تو بابائے قوم کے اصلی وارث ہمیں پریڈ میں کیوں شامل ہونے کی اجازت دیتا؟ پھر بھی آر ایس ایس ہندوستانی سماج میں قابل قبول نہیں ہوا تھا۔ اس کو تب تک ہندوستانی سماج کا اعتماد حاصل نہیں ہوا تھا لیکن ایمرجنسی کے دوران جئے پرکاش نارائن نے اس کو سرٹیفیکٹ دےکر اس کو مین اسٹریم کی سیاسی پارٹی بنوا دی اور رہی سہی کسر انہوں نے تب پوری کر دی جب آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم جن سنگھ کا جنتا پارٹی میں انضمام کروا دیا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جب 1925 میں آر ایس ایس کا جنم ہوا تھا تو مہاتما گاندھی پوری طرح سیاست میں تھے اور 1948 میں ان کا قتل ہوا، تب تک آر ایس ایس کو ‘ سماج سیوا ‘ کرتے ہوئے 23 سال بیت گئے تھے، انہوں نے ایک بار بھی اس کی تعریف نہیں۔ ہاں، وردھا میں جب آر ایس ایس نے 1934 میں کیمپ لگایا تھا تو تھوڑی دیر کے لئے وہاں گئے ضرور تھے کیونکہ گاندھی اس وقت وردھا میں ہی اپنے آشرم میں تھے۔ پھنیشورناتھ رینو کا کلاسیکی شاہکار ‘ میلا آنچل ‘ کا ایک کردار کہتا ہے ان کالی ٹوپی والوں پر بھروسہ مت کرو … دھوکادےکر ہمیں لے گیا تھا … اس پربھروسہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر