خبریں

یہ کریں‌گے، وہ کریں‌گے کی جگہ یہ بتاؤ کہ 4سال میں کیا کیا؟

ضمنی انتخاب کے نتیجےبتا رہے ہیں کہ اب جملوں سے کام نہیں چلنے والا۔

فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر

فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر

دس ریاستوں میں پھیلی لوک سبھا کی چار اور اسمبلیوں کی دس سیٹوں کے ضمنی انتخابی نتائج  کا پیغام،کم سے کم ملک پر حکومت‌کررہی بی جے پی کے لئے، آئینے کی طرح صاف ہے-جنوب میں کرناٹک سے لےکر شمال میں کیرانہ تک ووٹر کا من تو اس سے کھٹاہے ہی، موڈ اتنا خراب ہے کہ اس نے دہلی، بہار اور پنجاب کی کراری شکستوں کے باوجود بےحد کوشش سے گڑھے جاتے رہے ‘ مودی کے کرشمے ‘ یا ‘ناقابل شکست  بی جے پی ‘کے متھ  کو ایک دم سے تہس نہس کر ڈالا ہے۔

یہ کہنے میں بھی جھجک نہیں کہ وہ دن ہوا ہو گئے، جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔  بہت ہوئے سبزباغ، اب جواب دینے کے دن ہیں۔  سوجھتے ہوں تو دو، ورنہ پھوٹو سرکاری بنگلہ سے۔ نیچے اترو فوکٹ کی کار سے۔

ہاں، خالی کرو سنہاسن۔  کیونکہ عوام غصے میں ہے اور یہ نہیں ہونے دے سکتا کہ ایک بار جیسےتیسے، اپنے خونخوار ڈینےچھپا اور وکاس کا طلسماتی چولا اوڑھ‌کراس سے اپنے حق میں ای وی ایم کا بٹن دبوا لیا تو ہمیشہ کے لئے اس کو اپنا گروی سمجھنے لگے۔  سینہ پر مونگ دلتے ہوئے ڈھیٹ چور کی طرح سیندھ میں گانا گاؤ اور ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ایک پیسے کی کٹوتی کا بھدا مذاق کرتے ہوئے چت اور پٹ اپنے اور انٹا اپنے بابا کے نام کرنے کی شاطر انہ چالاکی سے بھی باز نہ آؤ!

بہر حال، کیرانہ کی شکست تو ایسی ہے کہ بی جے پی کے پاس اپنے بچاؤ میں کچھ کہنے کو ہی نہیں بچا ہے۔  گورکھ پور اور پھول پور کی شکستوں کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ دراصل، وہ بہت خوداعتمادی میں تھے اور اچانک ہوئے سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد کو سنجیدگی سے نہیں لینے کی غلطی کر بیٹھے۔  لیکن اس کو مستقبل میں نہیں دوہرائیں‌گے۔

لیکن اب وہ یہ بھی نہیں کہہ  سکتے کہ حزب مخالف کے اتحاد کے داخلی انتشار کو صحیح سے  اجاگر نہیں کر پائے۔  وہ اس کو سانپ اور نیولا کی دوستی بتاکر بھی ہار گئے ہیں، مظفرنگر کے فسادات کی یاد دلاکر اور فرقہ وارانہ تقسیم کی ہر ممکن کوشش کرکے بھی۔ ہاں، کیرانہ تو کیرانہ، نور پور اسمبلی حلقہ  کے عوام نے بھی ان کے اس شاطرانے سے دوستی نہیں نبھائی ہے۔

اس کی ہیبت اس معنی میں کہیں زیادہ ہے کہ یہ جتنی وزیراعلیٰ یوگی کی ہار ہے، اتنی ہی وزیر اعظم مودی کی بھی۔ اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ کیرانہ کی بغل کے ضلع باغپت میں ایسٹرن پیریفیرل ایکسپریس وے کا افتتاح پہلے وزیر اعظم کی ترجیحات سے اس قدر باہر تھا کہ وہ اس کے لئے وقت ہی نہیں نکال پا رہے تھے۔

معاملہ سپریم کورٹ میں لے جایا گیا اور اس نے کہا کہ وہ 31 مئی تک اس کام کے لئے دستیاب نہیں ہو پاتے تو ایکسپریس وے کو بنا ان کے افتتاح کئے ہی عوام کے لئے کھول دیا جائے۔بعد میں یہی افتتاح کیرانہ کے ضمنی انتخاب کے لحاظ سے مفید لگنے لگا تو وزیر اعظم کے لئے 31 مئی کا انتظار بھی ناقابل برداشت ہو گیا اور انہوں نے کیرانہ میں رائے دہندگی کے ایک دن پہلے ہی اس ایکسپریس وے کا افتتاح کرنا طے کر لیا-اتوار، 27 مئی کو۔ تاکہ، جیسا کہ ان کی عادت ہے، ایک تیر سے دو شکار کر کے اپنا لوہا منوا سکیں۔

دہلی میرٹھ ایکسپریس وے کا افتتاح کرتے وزیر اعظم مودی (فوٹو بشکریہ : نریندر مودی / ٹوئٹر)

دہلی میرٹھ ایکسپریس وے کا افتتاح کرتے وزیر اعظم مودی (فوٹو بشکریہ : نریندر مودی / ٹوئٹر)

باغپت سے دلتوں پچھڑوں پر بھرپور ڈورے ڈال‌کر بھی ان کا دل مطمئن نہیں ہو پایا تو انہوں نے اسی روز دہلی  میرٹھ ایکسپریس وے کے پہلے مرحلے کا افتتاح بھی کر ڈالا۔  روڈ شو بھی، جو دہلی کے نظام الدین پل سے شروع ہوکر 6 کلومیٹر تک چلا۔ٹی وی چینلوں نے اس روڈ شو کا سیدھا نشر کیا تو غالباً جان بوجھ کر یہ نہیں بتایا کہ وزیر اعظم کے ذریعے افتتاح کے وقت 7500 کروڑ روپے کی لاگت والے 82 کلومیٹر لمبی دہلی میرٹھ ایکسپریس وے کا دو تہائی سے زیادہ کام پورا ہی نہیں ہوا تھا اور وزیر اعظم نے اس کے پہلے مرحلے کا ہی، جس کی لمبائی محض 8.36 کلومیٹر ہے، افتتاح کر ڈالا تھا۔

یہ تب تھا، جب وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے چار سال پورے ہونے کے بعد ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کے نعرے سے کام چلتا نہ دیکھ ووٹر کو پٹانے کا ایک اور نعرہ دے دیا تھا-صاف نیت، صحیح وکاس۔اس سے یہ تو صاف ہوا ہی کہ وزیر اعظم کے کیرانہ میں جیت کی پیاس کتنی تیز تھی، یہ بھی ثابت ہوا کہ پچھلے چار سالوں میں وزیر اعظم کو کس قدر مغالطہ ہوا ہے اور عام لوگوں سے ان کا کٹاو کتنا گہرا ہوتا گیا ہے۔

تبھی تو جہاں کیرانہ یہ پوچھ رہا تھا کہ یہ ان کی نیت کی کیسی صفائی ہے، جس میں وہ آدھےادھورے بھی نہیں تہائی چوتھائی ایکسپریس وے کا افتتاح کرنے پر اتر آئے اور اس کو ہی صحیح وکاس ٹھہرا رہے ہیں، نرگسی وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ ان کی حکومت کے 4 سالوں کے کارنامے لاثانی ہیں اور ماضی کی کانگریسی حکومتیں تو اس کے مقابلے کہیں ٹھہرتی ہی نہیں ہیں۔

اب ووٹر نے ان کو بتا دیا ہے کہ کانگریس کی اوٹ لینا اب ان کے بہت کام نہیں آنے والا۔  کانگریس نے اپنی باری پر جو کچھ بھی کیا، ملک اس کی سب سے بڑی سزا اس کو سنا چکا ہے۔  اب آپ کسوٹی پر ہیں اور سارے سوالوں کا منھ آپ کی طرف ہے۔  صحیح سے ان کا جواب دیجئے تو ٹھیک ورنہ جائیے، کانگریس کی ہی رفتار کو حاصل ہو جائیے۔

یہ کیا کہ آپ سے پوچھا جائے کہ آپ سب کو ساتھ لےکر کہاں چل پا رہے ہیں اور سب کا وکاس کہاں ہو رہا ہے، تو آپ ‘ کانگریس کانگریس ‘ رٹنے اور اس کو کوسنے لگ جائیے۔  یہ بھی بھول جائے کہ کانگریس کے وقت میں تو لوگوں کو ذاتوں مذہبوں اور طبقوں میں ہی بانٹا جاتا تھا، آپ کے 4 سالوں میں وہ مودی کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر بھی بانٹ دئے گئے ہیں۔

یہ بھی نہ بتائیے کہ ملک میں اپنے وزیر اعظم کی وجہ سے تقسیم کی اتنی گہری لکیر آپ کے وقت کو چھوڑ اور کب بنی؟  کب کہا گیا کہ جو ‘ مودی جی ‘ یعنی ‘ وزیر اعظم جی ‘ کا ساتھ دے وہ وطن پرست اور جو مخالفت میں آواز اٹھائے، وہ غدار وطن!ان ضمنی انتخاب میں ووٹر نے وزیر اعظم کو یہ بھی یاد دلایا ہے کہ انہوں نے 2014 میں حکمراں ہوتے ہی 2025 تک کے بارے میں ‘یہ ہوگا، وہ ہوگا ‘ جیسی ڈینگے ہانکنے اور شیخیاں بگھارنے کا جو بڑبولاپن شروع کیا تھا، اس کا دیر سویر یہی حشر ہونا تھا۔

بی جے پی ان کو وزیر اعظم بنانے کے لئے  مہم چلا رہی تھی تو ایسے اوتار کی طرح پیش کر رہی تھی، جس کے آتے ہی ایک سے بڑھ‌کر ایک معجزہ ہونے لگ جائیں‌گے۔  وعدوں کی تو جھڑی ہی لگا دی گئی تھی-اچھے دن لائیں‌گے، بیرون ممالک سے کالا دھن واپس لاکر سب کے کھاتے میں 15-15 لاکھ جمع کرا دیں‌گے، ہرسال دو کروڑ نوکریاں ملیں‌گی، مہنگائی کم کر دیں‌گے، ترقی کی شرح کو 10 فیصدی تک لے جائیں‌گے، کسانوں کی حالت سدھاریں‌گے، ہندوستان کو وشوگرو بنائیں‌گے، بلیٹ ٹرین چلائیں‌گے اور اور بھی نہ جانے کیاکیا!

فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر

فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر

ووٹر نے کہہ دیا ہے کہ اب اس کے پاس نئے وعدے سننے کا وقت نہیں ہے اور وہ پرانے وعدوں کا حال چال ہی جاننا چاہتا ہے۔  یہ کہ وزیر اعظم کا دو کروڑ نوکریوں کا سبزباغ پکوڑے تل‌کر ذریعہ معاش کمانے تک کیوں پہنچ گیا ہے؟2014 میں بےروزگاری کی جو شرح 3.41 فیصد تھی، اب 6.23 فیصد کیوں ہو گئی ہے؟  پیٹرول اور ڈیزل کے داموں میں اچھال کی آگ ایک دو پیسوں کی کٹوتی کے مذاق سے کیوں بجھائی جا رہی ہے؟  اناؤ، کٹھوعہ اور سورت جیسے واقعات کی وجہ سے خواتین کے ظلم وستم کی حالت اور خوفناک کیوں ہو گئی ہے؟

کسانوں کی آمدنی دوگنی ہونے کی طرف جانے کے بجائے 2010-14 کے درمیان جو زراعتی ترقی کی سالانہ شرح  5.2 فیصد تھی، 2014-18 میں گھٹ‌کر 2.4 فیصد کیوں رہ گئی ہے؟  کسانوں کی خودکشی میں کمی آنے کے بجائے بھاری اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟جس نوٹ بندی کو وزیر اعظم نے بد عنوانی کے خلاف ماسٹراسٹروک بتایا تھا، وہ کالے دھن کو سفید کرنے کی اسکیم میں کیوں بدل گئی ہے؟ اس کی وجہ سے جنوری سے لےکر اپریل 2017 تک 15 لاکھ لوگوں کی نوکریاں کیوں چلی گئیں؟  جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ لگاتار گھٹ کیوں رہا ہے؟

2014 میں بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر وہ اپنی ‘وشال ریلیوں ‘ میں منموہن سنگھ کی اس وقت کی یو پی اے حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس نے ‘جئے جوان جئے کسان ‘ کے نعرے کو ‘مر جوان-مر کسان ‘میں بدل دیا ہے، لیکن یو پی اے حکومت میں جہاں 2010 سے 2013 کے درمیان 10 جوان جموں و کشمیر کی سرحد پر شہید ہوئے تھے، 2014 سے ستمبر، 2017 تک کی مودی حکومت میں 42 جوانوں کو شہادت کیوں دینی پڑی ہے۔

فروری، 2017 میں انسانی وسائل اور ترقی کے وزیر پرکاش جاوڑیکر نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت جی ڈی پی کا 4.5 فیصد تعلیم پر خرچ‌کر رہی ہے، لیکن اقتصادی سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ 2016-17 میں بجٹ کا صرف 2.9 فیصد ہی تعلیم پر خرچ ہوا ہے۔کیوں پچھلے 4 سال میں مودی حکومت نئی تعلیمی پالیسی ہی تیار نہیں کر پائی ہے؟  اس دوران دو لاکھ سرکاری اسکول بند کیوں ہو گئے ہیں؟  اعلیٰ تعلیم کا حال ایسا کیوں ہے کہ الگ الگ یونیورسٹیوں میں الگ الگ وجہوں سے طالب علم عدم اطمینان کی وجہ سے بھڑکا ہوا ہے؟  حکومت وہاں ہر حال میں بھگوا ایجنڈے کو آگے کرنے پر آمادہ کیوں ہے؟

وزیر اعظم کے پاس ان سوالوں کے جواب یا تو ہیں نہیں یا بہت تکلیف دہ ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی نیت صاف ہے اور جو وہ اس بار نہیں کر پائے، اگلی بار کر دکھائیں‌گے۔یقیناً، یہ ایک نئی طرح کا سبزباغ ہے، جس کے لئے بدلتا جیون، سنورتا کل، ترقی کی رفتار، پچھڑے ورگوں کی سرکار، کسانوں کی سمپنتا ہماری پراتھمکتا، تیز گتی سے بڑھتی ارتھویوستھا، بھرشٹاچار پر لگام، پاردرشی ہر کام، اچھا سواستھیہ اب سب کا ادھیکار، وکاس کی نئی گتی، نئے آیام، ناری شکتی دیش کی ترقی اور دنیا دیکھ رہی ہے ایک نیو انڈیا جیسے  جملے گڑھے گئے ہیں۔لیکن ایک تو اب ان میں کوئی اخلاقی چمک نہیں ہے اور دوسرے ان کی کاٹھ کی ہانڈی اتنی جل چکی ہے کہ رائےدہندگان ان کو شاید ہی پھر سے چڑھانا چاہیں۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)