یوگ گرو بابا رام دیو اپنی صنعت کے لئے دباؤ کی حکمت عملی اپناتے ہوئے اترپردیش حکومت سے پہلے سے ہی ملی ہوئی رعایتوں میں اور اضافہ چاہتے ہیں۔
یوگ گرو بابا رام دیو عوامی زندگی میں ایمانداری کا ڈنکا بجاتے دکھتے ہیں، بلیک منی اور حکومت کے کام میں گڑبڑیوں کو لےکر بھی وہ اکثر آواز اٹھاتے ہیں، لیکن بات جب اسی حکومت سے من موافق مدد لینے کی آتی ہے، تب وہ دوہرے معیار اپنانے میں پیچھے نہیں رہتے۔اس وقت اس کی سب سے بڑی مثال گریٹر نوئیڈا میں یمنا ایکسپریس وے پر ایک بڑا فوڈ پارک قائم کرنے کے نام پر ملی 455 ایکڑ زمین کی ہے۔ اپنی ‘ یادو ‘ پہچانکے بل بوتے بھگواپہننے والے یوگ گرو سے بزنس مین بنے رام دیو کے کروڑوں کے پتنجلی گروپ کو اس زمین کا الاٹمنٹ خاص رعایتی شرطوں پر اکھلیش یادو کی حکومت میں ہوا تھا۔ آج اور زیادہ رعایتوں اور خاص فائدہ کے لئے وہ حکمراں بی جے پی کو بلیک میل کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کی نظر 150 کروڑ کی اس سبسیڈی پر بھی ہے، جو مرکزی حکومت کے ذریعے ملک میں کہیں بھی میگا فوڈ پارک قائم کرنے کے لئے دی جانی ہے۔ 5 جون کو رام دیو کے حصہ دار آچاریہ بال کرشن کے ذریعے کئے گئے ایک ٹوئٹ نے اتر پردیش انتظامیہ کو گھٹنے پر لا دیا۔ اور آدتیہ ناتھ حکومت رام دیو کی بتائی گئی شرطوں پر، خاص رعایتوں اور من پسند شرطوں، جو ان کو اکھلیش حکومت سے پہلے ہی مل چکی ہیں، کے باوجود ان کو ماننے کو تیار دکھ رہی ہے۔
आज ग्रेटर नोएडा में केन्द्रीय सरकार से स्वीकृत मेगा फूड पार्क को निरस्त करने की सूचना मिली
श्रीराम व कृष्ण की पवित्र भूमि के किसानों के जीवन में समृद्धि लाने का संकल्प प्रांतीय सरकार की उदासीनता के चलते अधूरा ही रह गया #पतंजलि ने प्रोजेक्ट को अन्यत्र शिफ्ट करने का निर्णय लिया pic.twitter.com/hN6LRbhO4i— Acharya Balkrishna (@Ach_Balkrishna) June 5, 2018
اتر پردیش کے عام طور پر ‘ سخت ‘ سمجھے جانے والے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کے رام دیو کی شرطوں کو ماننے کے پیچھے آچاریہ بال کرشن کے ذریعے یوپی میں مجوزہ سرمایہ کاری کو ریاستی حکومت کے ان کی شرطیں نہ ماننے کی وجہ سے کہیں اور شفٹ کرنے کی دھمکی نہیں تھی۔ آدتیہ ناتھ ایسی کسی دھمکی کی وجہ سے ہتھیار ڈال دیںگے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ ظاہری طور پر دکھتا ہے کہ اس کے پیچھے بی جے پی صدر امت شاہ کی کڑی ہدایت بھی تھی، جن سے حال ہی میں رام دیو نے ملاقات کی تھی۔
چونکانے والی بات یہ ہے کہ نہ ہی آدتیہ ناتھ اور نہ ہی ان کے نوکرشاہوں نے یہ مناسب سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ ملک کی کون سی ریاست قومی راجدھانی کی سرحد کے پاس 455 ایکڑ کی بڑی زمین خیرات میں دینے کو تیار ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ اتنی بڑی زمین پتنجلی کو یوں ہی دے دی گئی۔ گروپ کو زمین کے 20 فیصد حصے کے ‘ سرکاری دام ‘ دینے کی ضرورت تھی، باقی بچے 80 فیصد (تقریباً 370 ایکڑ) حصے کے لئے پتنجلی کو اکھلیش یادو حکومت کے ذریعے زمین کی قیمت پر 25 فیصد کی رعایت دی گئی تھی۔
اصولوں کے مطابق اس طرح کی رعایت صرف آئی ٹی صنعت کے لئے دستیاب تھی، وہ بھی تب جب وہ ایک بڑا سافٹ ویئر پارک قائم کر رہے ہوں۔ حالانکہ تب اپنی کمپنی کے لئے رام دیو اکھلیش حکومت کے اصولوں میں تبدیلی کروانے میں کامیاب رہے۔
جب رام دیو اور آچاریہ بال کرشن ان کی اس ‘ سرمایہ کاری اسکیم ‘ میں ‘ دیری ‘ کے لئے سرکاری محکمے خاص کر نوکرشاہوں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں مصروف ہیں، اس سے یہ حقیقت نہیں بدل جاتی کہ زمین کی قیمت میں یہ خاص رعایت ان کو اتر پردیش کے اس وقت کے چیف سکریٹری دیپک سنگھل کی ہی بدولت ملی تھی، جو فی الحال مالی بدانتظامی سے جڑے ایک معاملے میں ملزم ہیں۔ مختص کی اصل شرطوں کے مطابق پتنجلی کو زمین کے 20 فیصد حصے کو 7 سال تک سب-لیز پر دینے کی اجازت ملی تھی لیکن ایسا بتایا جا رہا ہے کہ رام دیو اصل شرطوں میں چھوٹ دینے پر زور دے رہے ہیں۔
اس 20 فیصد (تقریباً 91 ایکڑ) حصے کو سب-لیز پر دینے کی جلدی کے پیچھے مرکزی حکومت کے ذریعے مجوزہ فوڈ پارک کے لئے ملنے والی 150 کروڑ کی سبسیڈی ہے۔ سبسیڈی صرف اس کمپنی کو مل سکتی ہے، جو فوڈ پارک بنا رہی ہو۔ اس معاملے میں یہاں غور کرنے لائق پہلو یہ ہے کہ 2016 میں اس زمین کا اصل مختص ہری دوار کے پتنجلی آیوروید کے نام پر ہوا تھا، جبکہ فوڈ پارک بنانے کی تجویز پتنجلی فوڈ اینڈ ہربل پارک نوئیڈا پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرف سے دی گئی ہے، جو ایک آزاد کارپوریٹ کمپنی کے طور پر کام کرتی ہے۔
اب رام دیو کی اترپردیش حکومت سے مانگ ہے کہ ان کو اس زمین کا 60 ایکڑ حصہ پتنجلی فوڈ اینڈ ہربل پارک نوئیڈا پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام پر ٹرانسفر کرنے کی اجازت دی جائے۔ ساتھ ہی، وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ 30 ایکڑ زمین پر فوڈ پارک قائم کریں، باقی بچی ہوئی 30 ایکڑ زمین کو، ان کی خواہش کے مطابق جس کو، جب چاہے سب-لیز پر دینے کی اجازت ملے۔ یہیں سے گڑبڑی کی شروعات ہوتی ہے۔ رام دیو اپنی ایک کمپنی سی دوسری کمپنی کو اس سے پہلے 30 ایکڑ کا ٹرانسفر ‘ سب-لیز ‘ کے طور پر نہیں چاہتے۔
اگلی مشکل رام دیو کی اگلی مانگ میں ہے، جہاں وہ زمین کے بچے ہوئے 370 ایکڑ کے 20 فیصد حصے یعنی تقریباً 56 ایکڑ پر ایک اور سب-لیز چاہتے ہیں۔ یعنی واضح طور پر رام دیو کو یمنا ایکسپریس وے پر ملے 91 ایکڑ کی جگہ 116 ایکڑ کا من چاہا استعمال کرنے کی آزادی مل جائےگی۔ اگر پتنجلی کی مانگکے مطابق سب-لیز پر سے سات سال کی پابندی کا اصول ہٹا لیا جاتا ہے، تو رام دیو ایک بیش قیمتی جائیداد کے مالک ہوںگے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ صرف سب-لیز سے ہی رام دیو کو ان کے اتر پردیش میں 1410 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا وعدےہ پورا ہو جائےگا۔
اس سب کے باوجود آدتیہ ناتھ حکومت رام دیو کی خواہش پوری کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی، ظاہراً ایسا اس لئے ہے کیونکہ بال کرشن نے یوپی میں اس مجوزہ سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچنے کی دھمکی دی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ سرمایہ کاری کا یہ اعداد و شمار وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کی فروری میں ہوئے Much-hyped Investor’s Summit سے ریاست کو ملی اہم سرمایہ کاری کی فہرست میں سے ایک ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ 12 جون کو ہونے والی ریاستی کیبنیٹ کی میٹنگ میں مختص کی شرطوں میں ترمیم اور نئی رعایتیں ایک بڑا مدعا رہے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر