بی جے پی حکومت سماجی تنظیموں کو زمین الاٹ کرنے کے لئے اتنی اتاولی ہے کہ سیلف گورننس اور اربن ڈیولپمنٹ منسٹر شری چند کرپلانی کہہ رہے ہیں کہ چاہے مجھے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے، لیکن سماجی اداروں کو رعایتی شرح پر زمینیں الاٹ کی جائیںگی۔
اگر آپ سیاسی طور پر کسی مؤثر ذات سے تعلق رکھنے والی تنظیم کے مکھیا ہیں یا آپ نے کوئی ادارہ بنا رکھا ہے تو راجستھان کی وسندھرا راجے حکومت آپ کو رعایتی شرح پر زمین دینے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ حکومت نے ایسی کئی تنظیموں اور اداروں کو 50 فیصدی رعایتی شرح پر جبکہ کچھ کو مفت زمین الاٹ کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبے میں بی جے پی جب حزب مخالف میں تھی تو اس نے نہ صرف اشوک گہلوت حکومت پر سماجی تنظیموں اور اداروں کو زمینوں کے بندربانٹ کا الزام لگایا، بلکہ 13 دسمبر، 2013 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد وسندھرا راجے حکومت نے سابق حکومت کی آخری 6 مہینےمیں رعایتی شرح پر جو زمینیں الاٹ کی تھیں، ان کو رد بھی کر دیا۔
ایسے میں یہ سوال اٹھنا ضروری ہے کہ بی جے پی اب وہی کام کیوں کر رہی ہے جس کا وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے مخالفت کرتی تھی۔ دراصل، ریاست میں اس سال کے آخر میں اسمبلی کے انتخاب ہونے ہیں، جس کی تیاری کے سلسلے میں وزیراعلیٰ وسندھرا راجے ریاست کے مختلف ضلع کا دورہ کر رہی ہیں۔ اس دوران وہ مختلف کاسٹ کے مؤثر لوگوں سے مل رہی ہیں۔ ان میں سے کئی رعایتی شرح پر زمین الاٹ کرنے کی مانگکر رہے ہیں۔ جانکاری کے مطابق حکومت کے پاس رعایتی شرح پر زمین الاٹمنٹ کے 115 سے زیادہ معاملے زیر التوا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے اسکول، ہاسٹل، دھرم شالہ، کمیونٹی ہال اور سماجی سرگرمیوں کے لئے حکومت سے زمین مانگی ہے۔
وزیراعلیٰ وسندھرا راجے کی مداخلت کے بعد ان درخواستوں کے حل کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق لوکل سیلف گورننس ڈپارٹمنٹ نے زیادہ تر درخواست دینے والوں کو زمینیں الاٹ کرنے کی سفارش کر دی ہے۔سیلف گورننس ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر کی مانیں تو زمینوں کے اس کھیل میں اصولوں کی کھلےعام اندیکھی کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ الاٹمنٹ پالیسی کے مطابق شہری بلدیاتی کو سب سے پہلے لائق زمین نشان زد کر اس کی پوری اطلاع پورٹل پر ڈالنی ہوتی ہے۔ اگر الاٹمنٹ کے لئے کوئی درخواست آتی ہے تو اس کو پورٹل پر اپلوڈ کر اعتراضات مانگنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی الاٹمنٹ کا فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ ‘
افسر آگے کہتے ہیں، ‘ حکومت کے پاس زمین کے الاٹمنٹ کی جو درخواستیں زیر التوا ہیں ان میں سے زیادہ تر پروسیس کے مطابق نہیں ہیں۔ مقامی بلدیاتی اصولوں پر عمل نہیں کر رہے۔ کئی موضوع تو ایسے ہیں جن میں درخواست سیدھے وزیراعلیٰ یا سیلف گورننس اور اربن ڈیولپمنٹ منسٹر کے پاس بھیجی گئی ہے۔ محکمہ اب ان کو مقامی بلدیاتی کے پاس بھیج رہا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ سب آن ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اگر مستقبل میں تفتیش ہوئی تو کئی قسم کی گڑبڑی سامنے آنا طے ہے۔ ‘
باوجود اس کے حکومت رعایتی شرح پر زمین الاٹ کرنے کے لئے کتنی اتاولی ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیلف گورننس اور اربن ڈیولپمنٹ منسٹر شر ی چند کرپلانی کسی بھی قیمت پر درخواستوں کا حل چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ چاہے مجھے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے، لیکن سماجی اداروں کو رعایتی شرح پر زمینیں الاٹ کی جائیںگی۔ یہ ادارہ سماج کے مفاد میں اچھا کام کر رہا ہے۔ ان کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اس لئے ان کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں۔ ‘
رعایتی شرح پر زمینیں دینے کے لئے حکومت کی یہ چستی سماجی اداروں تک ہی محدود رہتی تو سمجھ میں آتا، لیکن درخواست دینے والوں کی فہرست میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بھی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق سنگھ سے جڑی آدرش شکشن سنستھااور آدرش ودیا بھارتی نے حکومت سے شیوگنج، جھالراپاٹن، پھلودی، آسیند، آبو، راج سمند، مانڈل گڑھ اور سرواڑ میں کل 69 بیگھا زمین دینے کی مانگ کی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سیلف گورننس ڈپارٹمنٹ نے ان کو مفت زمین دینے کی تیاری کر لی ہے۔
زمینوں کی اس بندربانٹ میں خود بی جے پی بھی سیدھے طور پر شامل ہے۔ حکومت نے بی جے پی کے دفتروں کے لئے 17 ضلع میں زمینیں الاٹ کی ہیں جبکہ کئی ضلعوں میں اس کا پروسیس چل رہا ہے۔ کانگریس نے نہ صرف اس کی مخالفت کی ہے، بلکہ اقتدار میں آنے پر تفتیش کروانے کی بات بھی کہی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کہتے ہیں، ‘ ریاست میں کانگریس کی حکومت بننے پر تمام زمین الاٹمنٹ کی تفتیش کی جائےگی۔ ‘
کانگریس کے الزامات پر پنچایتی راج وزیر راجیندر راٹھور کہتے ہیں کہ حکومت نے 2015 میں سیاسی پارٹیوں کو زمین الاٹ کرنے کی پالیسی بنائی تھی، اسی کے تحت بی جے پی کو ضلعوں میں زمین ملی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘ اگر کانگریس بھی پالیسی کے مطابق درخواست دیتی ہے تو اس کو بھی اصول کے مطابق الاٹمنٹ ہوتا۔ یہ الزام غلط ہے کہ زمینوں کا الاٹمنٹ صرف بی جے پی کو ہی ہوا ہے۔ کانگریس نے درخواست ہی نہیں دی تو الاٹمنٹ کیسے ہوتا۔ ‘
راٹھور کی اس دلیل سے کانگریس ریاستی صدر سچن پائلٹ متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ بی جے پی نے گپ چپ طریقے سے پالیسی بناکر ضلعوں میں اپنے آفس بنانے کے لئے زمینیں الاٹ کی ہیں۔ افسروں پر دباؤ بناکر ان زمینوں کو کنورٹ کروایا جا رہا ہے۔ اس حکومت نے زمینوں کے الاٹمنٹ میں بڑا گھوٹالہ کیا ہے۔ کانگریس کے اقتدار میں آتے ہی اس تمام معاملوں کی تفتیش کی جائےگی۔ ‘ اس مدعے پر کانگریس کے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کے بعد حکومت نے نیا شگوفہ چھوڑا ہے۔اربن ڈیولپمنٹ اورہاؤسنگ ڈپارٹمنٹ نے کانگریس کے دورحکومت میں تمام اسکول، ہسپتال، این جی او، ٹرسٹ اور اداروں کو مفت یا رعایتی شرح پر الاٹ کی گئی زمینوں کی جانچکے آرڈر دئے ہیں۔
افسروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام زمینوں کا Physical verification کر کے یہ دیکھیں کہ یہاں دوسری طرح کی سرگرمیاں تو نہیں ہو رہی ہیں۔ تمام افسروں کو 25 جون تک رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ بی جے پی حکومت کی اس قواعد کو سابق اشوک گہلوت حکومت میں شہری ترقی وزیر رہے شانتی دھاریوال اپنی خامیوں کو چھپانے کی کوشش بتا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ اس حکومت نے 2013 میں ذمہ داری سنبھالتے ہی ہماری حکومت کے آخری چھے مہینے کی زمین الاٹمنٹ کی وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا کی صدارت والی کمیٹی سے تفتیش کروائی۔ اس کمیٹی کو ایک بھی الاٹمنٹ میں خامی نہیں ملی۔ اب گڑے مردے اکھاڑکر خود کی طرف سے کئے گئے غلط الاٹمنٹ سے دھیان ہٹانا چاہتی ہے۔ ‘
حالانکہ شانتی دھاریوال کی اس دلیل سے اربن ڈیولپمنٹ اینڈ ہاؤسنگ وزیر شری چند کرپلانی متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ حکومت کو اس طرح کی شکایتں ملی ہیں کہ کانگریس کی حکومت کے دور میں الاٹ کی گئی زمینیں دوسرے کام میں آ رہی ہیں۔ ان شکایتوں کی سچائی کی تفتیش کے لئے مفت یا 50 فیصدی سے زیادہ رعایت پر دی گئی زمینوں کا Physical verification کروایا جا رہا ہے۔ اگر یہ پایا جاتا ہے کہ زمین دوسرے کام آ رہی ہے تو اصول کے مطابق کارروائی کی جائےگی۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جے پور میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر