مشتاق احمدیوسفی کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ساتھ ہنستے ہیں، ان پر نہیں۔
منم آں شاعر ساحر کہ بہ افسونِ سخن
از نئ کلک ھمہ قند و شکر می بارم
میں وہ جادوگر شاعر ہوں کہ اپنے کلام کے سحر سے قلم کی نوک سے سر تا سر قند اور شکر برساتا ہوں۔ یہ تعلی لسان الغیب حافظ شیرازی نے کی تو اپنے بارے میں تھی مگر جونہی مشتاق احمد یوسفی کے انتقال کی خبر پڑھی، زبان پر جاری ہوئی کہ اردو کے اس مایۂ ناز مزاح نگار کی نگارشات میں ایسی ہی چاشنی تھی جیسی شاعروں کےاس سرخیل کے کلام میں تھی۔ غالب اپنے ایک شاگرد کو لکھتے ہیں کہ ؛
لیکور liqueur کے معنی تم نہ جانتے ہو گے- یہ ایک شراب ہے ، ذائقے کی بہت لطیف اور طعم کی میٹھی، جیسے قند کا قوام۔
بس اگر لیکور کو کسی اٹکل سے احاطۂ تحریر میں لے آتے تو اس کی صورت و سرور یوسفی کی تصنیفات سے چنداں جدا نہ ہوتی۔اس قندِ خند کی چاٹ ہمیں کچھ تین دہائیاں قبل اردو کے نامور ترقی پسند شاعر مخدومی فارغ بخاری مرحوم نے لگائی تھی۔پشاور کا روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ بخاری صاحب کا ایک انٹرویو چھاپ رہا تھااور ہمیں روانہ کیا گیا کہ ان کے ہاں سے ان کی تصویر لے کر آئیں۔وہ ہمارے والد کے دوست تھے، دیکھتے ہی اندر آنے کو کہا۔ ان کی میز پر کتاب خاکم بدہن رکھی ہوئی تھی، جسے دورانِ گفتگو ہم نے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ گرد پوش پر ہمارے محبوب مزاح نگار ابنِ انشا کی مہرِ تصدیق ثبت تھی کہ:
یوسفی کے ہاں مزاح واقعاتی یا سانحاتی نہیں ہے، بلکہ گفتگو اور تبصرے کا ہے۔ شستگی اس مزاح کا جوہر ہے اور اس میں اس طرح کی خود کلامی ہے جیسے کسی ڈائری میں ہوتی ہے۔اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے۔
ابنِ انشاکے غائبانہ پیر شیخ سعدی تھے اور ہمارے پیر ابنِ انشا تو یہ گویا غیب سے شیخ کا امر ہوا کہ اس کتاب کو پڑھ ڈالو۔ فارغ بخاری غالباً ہماری آنکھوں میں چمک اور لالچ کی ملی جلی رمق بھانپ چکے تھے۔انہوں نے کتاب عاریتاً مرحمت فرمائی اور کہا کہ تمہارے ماموں میرے پاس آتے رہتے ہیں انہیں دے دینا، وہ لوٹا دیں گے مجھے۔ کتاب ہم نے پڑھ کر ماموں کے حوالے کی تو وہ بولے کہ یہ حاکمِ بد دہن کون ہے، جنرل ضیاء الحق؟ بخاری صاحب نے پھر اس کے خلاف کچھ لکھا ہے، دکھاؤ ذرا!ضیاء کا تاریک دور تو تمام ہوا مگر کتاب پر ثبت ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کا ایک لافانی فقرہ ہماری یادداشت اور ادبی تنقید کی زینت بن گیا:
خاکم بدہن اردو کی زندہ رہنے والی کتابوں میں سے ہے۔ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں!
اور حقیقت یہی ہے کہ یوسفی نے جو مزاح تخلیق کیا وہ نہ صرف عہد ساز ہے بلکہ امر ہے۔اور اس کی بنیادی وجہ شاید ان کا منفرد طرزِ تحریر ہی نہیں بلکہ مرنجان و مرنج اندازِ فکر بھی ہے جس کا اعلان خاکم بدہن کے دیباچے میں انہوں نے مولانا روم کے ایک شعر میں لاجواب تصرف کر کے کیا:
ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیثِ خواب گویم
یعنی ہر جانب سورج ہی دیکھتا ہوں اور ہر طرف سورج ہی کہتا ہوں، میں نہ رات ہوں نہ رات کا ماننے والا کہ خواب و خیال کی باتیں کروں۔ مولانا روم کا مصرع اولیٰ یوں ہے:
؏ چو غلامِ آفتابم، ہمہ آفتاب گویم
میں سورج کا غلام ہوں اور چہار سو سورج ہی کہتا ہوں۔اس میں رمز یہ کہ رومی خود کوشمس تبریز کا غلام کہتے اور لکھتے تھے اور شمس کے معنی بھی سورج ہیں۔ یہ یوسفی کی رجائیت ،آزادہ روی اورصلح کُل عندیے کا اظہار تو ہے ہی مگر ساتھ ہی زبان و بیان سے لے کر تاریخ اور تصوف تک پر ان کے کامل عبور کا اعلان بھی ہے۔ایک مصرع کے آدھے حصے میں تصرف نے بات کہاں سے کہاں جا ملائی۔ یہی وہ لسانی اور تہذیبی رچاؤ ہے جو یوسفی کی تحریر کو بیک وقت دریا جیسا بہاؤ اور ٹھہراؤ دیتا ہے۔گویا دریائے سندھ ہے جو مان سرور سے اٹھکیلیاں کرتی موجیں بن کر نکلتا ہے، پختونخوا میں اباسین بن کر روانی سے گزرتا ہے اور جب سندھ میں سندھو بن کر از کراں تا بہ کراں پھیلا نظر آتا ہے تو اس کی آہستہ خرامی اور زرخیز مٹی سے لبریزی اس کے طویل مگر تشنہ زمین کے سینے کو سیراب کرتے ہوئے سفر کا پتہ دیتی ہے۔
یوسفی کے اجداد موجودہ خیبر پشتونخوا سے غیرمنقسم ہندوستان گئے تھے اور وہاں راجستھان میں بونیر کے پشتون، نواب محمد امیر خان کی ریاست ٹونک میں جابسے۔ یوسفی کی ولادت ٹونک میں یکم محرم 1342 ہجری کو ہوئی۔ والدہ نے ان کا نام ایک ناول “شوکت آراء بیگم” کے ہیرو کے نام پر مشتاق احمد رکھا۔ زرگزشت میں، کہ جسے انہوں نے اپنی سوانح نوعمری اور جس کے دیباچے کو تُزکِ یوسفی کہا، خود لکھتے ہیں کہ “آبائی مسکن، جے پور۔ تعلیم جے پور، آگرے اور علی گڑھ میں ہوئی۔ اور عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ کراچی میں گزرا:؏ شہروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔”پاکستان میں کچھ وقت سول سروس سے وابستہ رہ بنکاری کی جانب چلے گئےاور عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزاری۔ بینک کے کام سلسلے میں وہ پاکستان کے طول و عرض کے علاوہ خلیجی ریاستوں اور انگلستان وغیرہ بھی رہے۔ شاید اس سرگردانی نے ان کے کینوس اور دل کو اس قدر وسعت دی کہ اس میں سرحدی پشتون خان سیف الملوک سے لے کر کانپور سے کراچی میں وارد ہوئے“قبلہ”اور بشارت تک باآسانی سماتے چلے گئے۔
مزاح نگار زندگی کا مشاہدہ کر کے اس میں سے خندہ آور پہلو تلاش کرتا ہے۔ یوسفی زندگی اور بندگی دونوں کے شاہد تھے۔ ان کے ہاں شخصیت نگاری کئی خاکہ نگاروں سےبھی بڑھ کر موجود ہے۔ زرگزشت میں انگریز بینک منیجر اینڈرسن کا سراپا یوں کھینچا ہے کہ قلم سے مُوقلم کا کام لیا ہے۔ محض یہ فقرہ “ایک ابرو بے ایمان دکاندار کی ترازو کی طرح مستقل اوپر چڑھی ہوئی”، ہی ممدوح الیہ کو قاری کے ذہن نشین کروانے کے لیے کافی ہے۔ یوسفی بے مثال مرقع نگار ہیں، وہ نہ صرف اپنے کردار کے خدوخال واضح کرتے ہیں بلکہ اس کے عادات و اطوار و رفتار و گفتار سے بھی روشناس کراتے جاتے ہیں۔ خان سیف الملوک خان کی خاکہ کشی کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ وہ ؛
پشتو، ہندکو، پنجابی، فارسی اور اردو روانی سے بولتے اور ایک زبان سے دوسری زبان میں اس چابک دستی سے گئیر بدلتے کہ سننے والے کو خبر بھی نہ ہوتی۔ انگریزی ان خاص مقامات پر بولتے جہاں آدمی کچھ نہ بولے، تب بھی بخوبی کام چل جاتا ہے۔ عربی کی دستگاہ کا اندازہ نہیں۔ لیکن ع اور ح صحیح مخرج سے نکالتے تھے یعنی اس مخرج سے جس سے ہم جیسے بے علمے صرف قے کرتے ہیں۔
ہم ایسے وادئ پشاور کے رہنے والے اس خان صاحب کے آئینے میں اپنا آپ دیکھ کر محظوظ ہوئےبغیر نہیں رہ سکتے اور یہی یوسفی کا کمالِ فن ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ساتھ ہنستے ہیں، ان پر نہیں۔
ابنِ انشاء نے بالکل درست کہا کہ یوسفی واقعاتی یا سانحاتی مزاح نہیں تخلیق کرتے۔ اس روش میں سب بڑا خطرہ یہ ہے کہ تحریر مزاح کے دائرے سے نکل کر فرحیہ (comedy) یا اس سے بھی آگے نقل و ہزل (farce/farcical ) کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو اسٹیج ڈرامہ یا فلم میں تو بھلی لگ سکتی ہیں مگر انشائے لطیف کو سخت مکدر کرنے کا موجب بن جاتی ہیں۔ کرداروں کی اچھل کود یا الفاظ کا غیر ضروری بگاڑنا مزاح کو مسخرہ پن میں تبدیل کر سکتا ہے اور کئی نامور لکھاریوں کا دامن ان کانٹوں میں الجھ الجھ گیا جبکہ یوسفی اس خارزارِ سے بے خطر نکل گئے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب لکھنے والے کے ترکش میں بذلہ سنجی، حاضر جوابی، ضلع جگت، پھبتیوں اور چست فقروں کے تیر بھی ہوں، وسعتِ مطالعہ بھی اور زبان و بیان پر دسترس بھی۔ یوسفی فنِ تحریف کے بادشاہ تھے۔ ان کے ہاں اشعار اور مصرعوں میں تصرف و تحریف پھلجڑیوں کی طرح ورق در ورق پھوٹتے چلے جاتے ہیں۔ کئی مقامات پر تو اصل مصرع یا شعر انگوٹھی میں نگینے کی مانند جڑ دیتے ہیں۔اور اس کارِخیر میں ان کے ہمزاد مرزا عبدالودود بیگ ان کا ہاتھ بٹاتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ فقرہ اور اس پر گرہ کہ:
مرزا ہر برے خیال کو اس طرح کھول کر بیان کرتے کہ
؏ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے!
غالب نے لکھا تھا کہ “ میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا۔ ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو اور ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔” یوسفی نے مرزا کی مدد سے انشائیہ کو مکالمہ بنا دیا ہے جو صرف ان کے اور ہمزاد کے مابین نہیں ہے بلکہ سہ فریقی ہے کہ قاری بھی اس میں شانہ بہ شانہ شامل رہتا ہے۔ اس انداز کی سب بڑی خوبی یہ ہے کہ برجستگی کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا اور آورد کی آلائش سے مصنف کا ضمیر اور صفحۂ قرطاس دونوں پاک رہتے ہیں۔ مشہور کنیڈیئن مزاح نگار سٹیفن لی کاک نے لکھا تھا کہ دوسری اصنافِ سخن کی طرح مزاح نگاری بھی پڑھائی اور سکھائی جانی چاہیے۔ ہماری رائےیہ ہے کہ شعراء کی طرح مزاح نگار بھی تلامیذ الرحمٰن ہیں۔ مبداء فیاض سے جس کو جتنا مل گیا اس میں حک و اضافہ کی گنجائش مشکل ہے:
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نبخشد خدائے بخشندہ
لی کاک کے مقالے کی ایک اور بات سے البتہ ہمیں کلی اتفاق ہے۔ جہاں اس نے مزاح نگاری کے فرضی نصاب تجویز کیے ہیں وہاں وہ لکھتا ہے کہ اس فن کا پوسٹ گریجویٹ کورس ہونا چاہیے؛
Tears and laughter: the highest phase of humor where it passes from the ridiculous to the sublime
یعنی“گریہ و خندہ:مزاح کی بلند ترین سطح جہاں یہ فن مضحکہ سے لطافت بن جاتا ہے۔”
ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر کہیں یہ کورس جاری ہوجائے تو یوسفی کا فن اس نصاب کا جزوِ لاینفک ہوگا۔ایک عربی مقولہ ہے جو حضرت علی مرتضیٰ سے منسوب کیا جاتا ہے کہ “اعط الکلام من المزاح بمقدار ما تعطی الطعام من الملح”۔ یعنی کلام میں مزاح کی مقدار اتنی رکھو جتنی کھانے میں نمک کی۔ یوسفی کا خوان تو قند ہی سے پُر ہے مگر یہ ان کی پُرکاری ہے کہ وہ قاری کو وہاں لے جاتے ہیں کہ نمکین آنسو آنکھ نم کرجائیں۔ مثلاً یہ ٹکڑا کہ:
دس دن بیمار رہ کر وہ نیک بی بی اپنے رب سے جا ملی۔ دل پر کیا کچھ نہ گزری ہوگی۔ لیکن کیا مجال کہ حرفٍ شکایت زبان پر آئے۔ یہی شیخ کی ہدایت تھی۔ جنازے میں محلے کے سبھی لوگ شریک تھے۔ بیٹا جو مشکل سے نو سال کا ہوگا اسی اجرک میں پھولوں کی چادر، اگربتی، گلاب جل اور شمامتہ العنبر باندھے بےخبر پیچھے چل رہا تھا۔ اس میں ابھی تک کچھ یاد دلانے کے لیے ایک ننھی سی گرہ مرحومہ کے ہاتھ کی لگی ہوئی تھی۔ جسے انہوں نے تین دن سے نہیں کھولا تھا۔ ڈولا لحد کے پہلو میں رکھا گیا اور سہرانے سے غلافٍ کعبہ کا پارچہ ہٹا دیا گیا۔ میت قبر میں اتارنے لگے تو اپنے ہاتھوں سے اجرک کمر میں ڈال کر دکھ درد کے ساتھی کو مٹی میں سلا دیا۔ اسی سے گوشہٴ چشم پونچھا۔ دھیرے سے گرہ کھولی۔ اور پھر اپنے شیخ کے اس تبرک کو کفن پر ڈال دیا۔
ادب میں یوسفی کا مقام و مرتبہ طے کرنا نقادوں کا کام ہے، ہم ایسے مداحوں کا نہیں۔ ہمارا کام یہ بھی نہیں کہ یہ قیافہ لگائیں کہ عہدِ یوسفی تمام ہوا یا باقی ہے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کو کبھی ہنسی اور کبھی زیرِ لب تبسم بانٹنے والا چل بسا۔ مولانا حالی نے اپنے، ہمارے اور یوسفی کے محبوب غالب کی موت پر کہا تھا:
کچھ نہیں فرق باغ و زنداں میں
آج بلبل نہیں گلستاں میں
شہر سارا بنا ہے بیت الحزن
ایک یوسف نہیں جو کنعاں میں
مشتاق احمد یوسفی کنعانِ اردو کا یوسف تھے! خدا انہیں جنت نصیب کرے۔
(محمد تقی پاکستانی امریکن کالم نگار ہیں ، @mazdaki ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)
Categories: ادبستان